پنجاب میں روزگار کے 5 لاکھ مواقع پیدا ہو گئے

Employment

Employment

تحریر : محمد اشفاق راجا
پنجاب کے بجٹ میں بعض ایسے اقدامات کئے گئے ہیں جن پر اگر پوری طرح عمل ہوگیا تو صوبے کی معیشت تیزی سے آگے بڑھ سکے گی۔ بجٹ میں روزگار کے پانچ لاکھ مواقع پیدا ہونے کی امید کی گئی ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بیروزگاری کم کرنے کی طرف اہم قدم ہوگا۔ تعلیم کے شعبے کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور اس کے بجٹ میں 47 فیصد سکول ایجوکیشن کے ترقیاتی بجٹ میں 71 فیصد صحت کے شعبے میں 62 فیصد زرعی معیشت کیلئے 47 فیصد اور صاف پانی پراجیکٹ کیلئے 88 فیصد زائد رقوم مختص کی گئی ہیں۔ امن عامہ کیلئے 48 فیصد زائد رقم رکھی گئی ہے۔ ان پانچ شعبوں پر بجٹ کا 57 فیصد یعنی 804 ارب روپیہ خرچ ہوگا۔بجٹ میں ایک نیا شعبہ ”ای خدمت” سامنے آیا ہے جس کے تحت پنجاب کے تین اضلاع لاہور، راولپنڈی اور سرگودھا میں ای خدمت مراکز نے کام شروع کردیا ہے۔ ان مراکز کے ذریعے شہریوں کو 14 قسم کی مختلف سروسز ایک ہی چھت کے نیچے میسر ہوں گی۔

پنجاب کی حکومت نے تعلیم کے شعبے میں خصوصی طور پر ایسے اقدامات کئے ہیں جن کے ذریعے انرولمنٹ میں اضافہ متوقع ہے۔ ایسی بچیوں کو جو چھٹی سے دسویں جماعت تک زیر تعلیم ہوں گی ایک ہزار روپے ماہوار وظیفہ دیا جائے گا جو اس سے پہلے 200 روپے تھا۔ 50 ارب روپے کی لاگت سے سکولوں کو بہتر کرنے کا نیا پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ اس کے تحت اگلے دو برس میں تمام سکولوں کی مخدوش عمارات کی بحالی، پرائمری سکولوں میں 36 ہزار نئے کمروں کی فراہمی اور جو سہولتیں اس وقت ناپید ہیں ان کی فراہمی شامل ہے۔پنجاب میں صاف پانی پراجیکٹ دس اضلاع میں شروع کیا گیا ہے جسے تدریجاً پورے صوبے تک وسیع کردیا جائے گا۔ دس اضلاع کے تقریباً دو کروڑ 30 لاکھ افراد صاف پانی کی سہولت سے فائدہ اٹھائیں گے۔ یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ صوبے کی حکومت نے صاف پانی کی اہمیت کا احساس کیا ہے۔

اگرچہ اب بھی ایسے دیہی علاقے مل جائیں گے جہاں لوگ تالابوں سے پانی پینے پر مجبور ہیں، یہ تالاب نہروں یا بارشی پانی سے بھر جاتے ہیں اور ان سے جانور بھی اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ صاف پانی کی فراہمی کے سلسلے میں جو بھی کوششیں ہوئی ہیں وہ موجودہ حکومت کے دور میں ہی شروع ہوئی ہیں۔ اس سے پہلے کی حکومتوں نے اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں کی تھی اور اگر کی تھی تو بہت ہی محدود پیمانے پر۔ اس وقت صاف پانی پراجیکٹ پر اربوں خرچ کئے جا رہے ہیں۔ پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے اور اگر لوگوں کو صاف پانی بھی پینے کیلئے نہ ملے تو تصور کیا جاسکتا ہے ان کی زندگیوں کا کیا حال ہوجائے گا، لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ اب تک اس اہم شعبے کو نظرانداز کیا گیا تھا۔ اب اگر دس اضلاع میں یہ پراجیکٹ شروع کئے گئے ہیں تو امید کرنی چاہئے کہ باقی اضلاع میں بھی کام جلد شروع ہو جائے گا۔

Budget

Budget

بجٹ میں اس مقصد کیلئے 30 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے، صحت کی سہولتوں پر بھی بھاری رقوم خرچ کی جا رہی ہیں اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کو توسیع دی جا رہی ہے جس کا ایک بنیادی فائدہ تو یہ ہوگا کہ مقامی افراد کو ان کے علاقوں میں ہی طبی سہولتیں میسر آئیں گی اور وہ بڑے شہروں کا رخ کرنے سے بچ جائیں گے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ بڑے شہروں کے ہسپتالوں پر مریضوں کا دباؤ کم ہوگا۔ سیف سٹی پراجیکٹ بھی جدید ٹیکنالوجی کا شاہکار منصوبہ ہے جس کے تحت چھ شہروں میں محفوظ سکیورٹی مہیا کی جائے گی۔ لاہور میں 13 ارب روپے کی لاگت سے منصوبے پر کام کا آغاز ہوچکا ہے، اعلیٰ تعلیم میں پنجاب حکومت کی دلچسپی اب کوئی نئی بات نہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے پوزیشن ہولڈر طلباء کو پنجاب کی حکومت اپنے خرچ پر بیرون ملک یونیورسٹیوں کے دورے پر بھیجتی ہے جس میں اب دوسرے صوبوں کے طالب علموں کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔

اب دنیا کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں طلباء کو وظائف دیئے جائیں گے۔ لیپ ٹاپ سکیم بھی جاری ہے جو طلباء کی حوصلہ افزائی کیلئے بہت مفید ہے تاہم جو طالب علم یہ لیپ ٹاپ لے کر سستے داموں آگے فروخت کردیتے ہیں وہ کسی اچھے طرز عمل کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ اگر انہیں لیپ ٹاپ کی ضرورت نہیں تھی تو ویسے ہی انکار کردینا چاہئے تاکہ کوئی اور مستحق اور ضرورت مند طالب علم اس سے استفادہ کرسکے۔ ایک سہولت کا غلط استعمال مناسب نہیں ہے۔ پنجاب کے اس بجٹ میں جو نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں وہ براہ راست ٹیکس ہیں اور یہ اچھی بات ہے۔

اگرچہ یہ کوئی زیادہ بھاری ٹیکس نہیں ہیں تاہم کئی لوگوں کو یہ بھی قابل قبول نہیں ہیں مثلاً جو سپیشلسٹ ڈاکٹر روزانہ ہزاروں روپے بطور فیس وصول کرتے ہیں انہیں اگر سال کے بعد پانچ ہزار روپے بطور ٹیکس دینا پڑیں تو یہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں جس کی وجہ سے بجٹ کو عوام دشمن بجٹ قرار دیا جائے لیکن ان ٹیکسوں پر بھی احتجاج کرنے والے احتجاج کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ جو سکول ایک ہزار سے زائد فیس لیتے ہیں ان پر تین ہزار سالانہ ٹیکس لگایا گیا ہے یعنی وہ تین طلباء کی فیس سال میں ایک مرتبہ بطور ٹیکس دیں گے۔ اب اگر سکولوں کی انتظامیہ اس پر بھی احتجاج شروع کردے تو اسے کیا کہا جائے گا۔

Muhammad Ashfaq Raja

Muhammad Ashfaq Raja

تحریر : محمد اشفاق راجا