ممتاز قادری توہین رسالت اور اعلیٰ عدلیہ

Malik Mumtaz Qadri,

Malik Mumtaz Qadri,

تحریر: ظفر اعوان ایڈووکیٹ
مسٹر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ ، سپریم کورٹ کے اس تین رکنی بنچ کے سربراہ تھے ، جس نے ملک ممتاز قادری کیس میں ، وفاقی حکومت ( ھاں ! اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وفاقی حکومت ! ( جس کا دین ، آئین کے آرٹیکل ٢ کے مطابق اسلام ہے ) کی اپیل منظور اور ملک ممتاز قادری کی اپیل نا منظور فرمائی ، فیصلہ بھی بنچ کے سربراہ کا تحریر کردہ ہے ۔ مذکورہ فیصلے میں کیا ہے اور کیا نہیں ، اس کا ہم انشا ء اللہ تفصیل سے جائزہ لیں گے لیکن اس فیصلے کا مطالعہ کرتے ہوئے ، کوئی بھی شخص ابتدا ہی میں کھٹک جاتا ہے ، جب وہ دیکھتا ہے کہ فیصلے کا آغاز ہی اللہ تعالیٰ کے مقدس و متبرک نام سے ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ فیصلہ یوں شروع ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔Almighty Allah has ordained in the holy Quran that upon reciept of a news or information the men of faith ought to ascertain correctness of such news or information before they may act upon the same and that harm may be avoided if such news or information is got investigated in the first place.The following verses of the holy Quran are relevant in this regard :۔

۔ ازین بعد ، سورہ حجرات کی آیت ٦ ، سورہ نسا کی آیت ٩٤ اور سورہ نسا کی آیت ٨٣ کا انگریزی ترجمہ نقل کیا گیا ہے ۔( متعلقہ قرانی آیات کا اردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیں !)
۔سورہ الحجرات ، آیت ٦:مومنو !اگر کوئی بد کردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو ! کہ کسی قوم کو نادانی سے نقسان پہنچا دو پھر تم کو اپنے کئے پہ نادم ہونا پڑے۔سورہ النسا : آیت :٩٤۔۔مومنو ! جب تم خدا کی راہ میں نکلا کرو تو تحقیق سے کام لیا کرواور جو شخص تم سے سلام علیک کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو اور اس سے تمہاری غرض یہ ہو کہ دنیا کی زندگی کا فائدہ حاصل کرو !سو خدا کے نزدیک بہت سی غنیمتیں ہیں ، تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے پھر خدا نے تم پر احسان کیا تو آئندہ تحقیق کر لیا کرو اور جو عمل تم کرتے ہو ، خدا کو سب کی خبر ہے !سورہ النسا : آیت نمبر ٨٣: اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اسے مشہور کردیتے ہیں اور اگر اس کو پیغمبر اور اپنے سرداروں کے پاس پہنچاتے تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کر لیتے اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو چند خاص کے سوا سب شیطان کے پیرو ہو جاتے۔

سورہ الحجرات کی مذکورہ بالا ّیت کی تفسیر و تشریح و پس منظر ( تفہیم القران جلد پنجم از سید ابو الاعلیٰ مودودی )یہ ہے کہ ولد بن عقبہ کو بنی المصطلق سے زکواة وصول کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ان کے علاقے میں پہنچے تو کسی وجہ سے ڈر گئے اور اھل قبیلہ سے ملے بغیر مدینہ واپس جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کردی کہ انہوں نے زکواة دینے سے انکار کردیا ہے اور وہ مجھے قتل کرنا چاہتے تھے ۔حضورۖ یہ خبر سن کر سخت ناراض ہوئے اور آپۖ نے ارادہ کیا کہ ان لوگوں کی سرکوبی کے لئے دستہ روانہ کریں ۔بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ ۖ نے وہ دستہ روانہ کردیا تھا اور بعض میں یہ بیان ہوا ہے کہ آپ ٫ۖ روانہ کرنے والے تھے بہر حال اس بات پر سب متفق ہیں کہ بنی المصطلق کے سردار حارث بن ضرار ( ام المومنین حضرت جویریہ کے والد ) اس دوران میں خود ایک وفد لے کر حضورۖ کی خدمت میں پہنچ گئے اور انہوں نے عرض کیا کہ خدا کی قسم ! ہم نے تو ولید کو دیکھا تک نہیں کجا کہ زکواة دینے سے انکار اور ان کے قتل کے ارادے کا کوئی سوال پیدا ہو ، ہم ایمان پر قائم ہیں اور ادائے زکواة سے ہمیں ہرگز انکار نہیں ہے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔

Abul Ala Maudud

Abul Ala Maudud

سید مودودی رقمطراز ہیں :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نازک موقع پر جبکہ ایک بے بنیاد خبر پر اعتماد کر لینے کی وجہ سے ایک عظیم غلطی ہوتے ہوتے رہ گئی ، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ اصولی ہدایت دی کہ جب کوئی اہمیت رکھنے والی خبر جس پر کوئی بڑا نتیجہ مترتب ہوتا ہو ، تمہیں ملے تو اس کو قبول کرنے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ خبر لانے والا کیسا آدمی ہے ۔اگر وہ کوئی فاسق شخص جس کا ظاہر حال یہ بتا رھا ہو کہ اس کی بات اعتماد کے لائق نہیں ہے تو اس کی دی ہوئی خبر عمل کرنے سے پہلے تحقیق کر لو کہ امر واقعہ کیا ہے ۔سید مودودی مزید لکھتے ہیں :۔۔۔۔۔۔۔۔فاسق کی گواہی قابل قبول نہیں ہے ۔البتہ اس امر پر اھل علم کا اتفاق ہے کہ عام د نیوی معاملات میں ہر خبر کی تحقیق اور خبر لانے والے کے لائق اعتماد ہونے کا اطمینان کرنا ضروری نہیں ہے ، کیونکہ آیت میں لفظ ۔۔نبا ۔۔ استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق ہر خبر پر نہیں ہوتا بلکہ اہمیت رکھنے والی خبر پر ہوتا ہے ۔ اسی لئے فقہا کہتے ہیں کہ عام معاملات میں یہ قاعدہ جاری نہیں ہوتا ۔ مثلا آپ کسی کے ھاں جاتے ہیں اور گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے ہیں ۔اندر سے کوئی آکر کہتا ہے کہ آجائو ۔آپ اس کے کہنے پر اندر جا سکتے ہیں ، قطع نظر اس سے کہ صاحب خانہ کی طرف سے اذن کی اطلاع دینے والا فاسق ہو یا صالح ۔ اسی طرح اھل علم کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ جن لوگوں کا فسق جھوٹ اور بد کرداری کی نوعیت کا نہ ہو ، بلکہ فساد عقیدہ کی بنا پر وہ فاسق قرار پاتے ہوں ، ان کی شہادت بھی قبول کی جا سکتی ہے اور روایت بھی ۔محض ان کے عقیدے کی خرابی ان کی شہادت یا روایت قبول کرنے میں مانع نہیں ہے ۔۔۔۔

سورہ النسا :آیت ٩٤ کی تفسیر و تشریح اور پس منظر :۔۔۔۔۔۔۔۔۔سید مودودی ( تفہیم القران جلد اول ) اس آیت کی تفسیر میں یوں رقمطراز ہیں :۔۔۔۔۔۔۔ابتدائے اسلام میں ۔۔۔۔ السلام علیکم ۔۔۔۔۔ کا لفظ مسلمانوں کے لئے شعار اور علامت کی حیثیت رکھتا تھا اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو دیکھ کر یہ لفظ اس معنی میں استعمال کرتا تھا کہ میں تمہارے ہی گروہ کا آدمی ہوں ، دوست اور خیر خواہ ہوں ، میرے پاس تمہارے لئے سلامتی و عافیت کے سوا کچھ نہیں ہے ، لہٰذا نہ تم مجھ سے دشمنی کرو اور نہ میری طرف سے عداوت اور ضرر کا اندیشہ رکھو! جس طرح فوج میں ایک لفظ شعار یا Passwordکے طور پر مقرر کیا جاتا ہے اور رات کے وقت ایک فوج کے آدمی ایک دوسرے کے پاس سے گزرتے ہوئے اس غرض کے لئے استعمال کرتے ہیں کہ فوج مخالف کے آدمیوں سے ممیز ہوں ، اسی طرح سلام کا لفظ بھی مسلمانوں میں شعار کے طور پر مقرر کیا گیا تھا ۔خصوصیت کے ساتھ اس زمانہ میں اس شعار کی اہمیت اس وجہ سے اور بھی زیادہ تھی کہ اس وقت عرب کے نو مسلموں اور کافروں کے درمیان لباس ، زبان اور کسی دوسری چیز میں کوئی نمایاں امتیاز نہ تھا جس کی وجہ سے ایک مسلمان سرسری نظر میں دوسرے مسلمان کو پہچان سکتا ہو۔

لیکن لڑائیوں کے موقع پر ایک عجیب پیچیدگی یہ پیش آتی تھی کہ مسلمان جب کسی دشمن گروہ پر حملہ کرتے اور وہاں کوئی مسلمان اس لپیٹ میں آجاتا تو وہ حملہ آور مسلمانوں کو یہ بتانے کے لئے کہ وہ بھی ان کا دینی بھائی ہے ، السلام علیکم ۔۔ یا ۔۔ لا الہ الا اللہ۔۔ پکارتا تھا ، مگر مسلمانوں کو اس پر یہ شبہ ہوتا تھا کہ کہ یہ کوئی کافر ہے جو محض جان بچانے کے لئے حیلہ کر رھا ہے ، اس لئے بسا اوقات وہ اسے قتل کر بیٹھتے تھے اور اس کی چیزیں غنیمت کے طور پر لوٹ لیتے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہر موقع پر نہایت سختی کے ساتھ سرزنش فرمائی ۔ مگر اس قسم کے واقعات برابر پیش آتے رھے ۔آخر کار اللہ تعالیٰ نے قران مجید میں اس پیچیدگی کو حل کیا ۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کی حیثیت سے پیش کر رھا ہے اس کے متعلق تمہیں سرسری طور پر یہ فیصلہ کردینے کا حق نہیں ہے کہ وہ محض جان بچانے کے لئے جھوٹ بول رھا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ سچا ہو اور ہو سکتا ہے کہ جھوٹا ہو ۔حقیقت تو تحقیق ہی سے معلوم ہو سکتی ہے ۔تحقیق کے بغیر چھوڑ دینے میں اگر یہ امکان ہے کہ ایک کافر جھوٹ بول کر جان بچا لے جائے ، تو قتل کردینے میں اس کا امکان بھی ہے کہ ایک مومن بے گناہ تمہارے ھاتھ سے مارا جائے ۔اور بہر حال تمہارا ایک کافر کو چھوڑ دینے میں غلطی کرنا اس سے بدرجہا زیادہ بہتر ہے کہ تم ایک مومن کو قتل کرنے میں غلطی کرو ۔

سورہ النسا ،آیت نمبر ٨٣ کی تفسیر و تشریح کرتے ہوئے سید مودودی رقمطراز ہیں :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ چونکہ ہنگامہ کا موقع تھا اس لئے ہر طرف افواہیں اڑ رھی تھیں ۔ کبھی خطرے کی بے بنیاد مبالغہ آمیز اطلاعیں آتیں اور ان سے یکایک مدینہ اور اس کے اطراف میں پریشانی پھیل جاتی ۔کبھی کوئی چالاک دشمن کسی واقعی خطرے کو چھپانے کے لئے اطمینان بخش خبریں بھیج دیتا اور لوگ انہیں سن کر غفلت میں مبتلا ہوجاتے ان افواہوں میں وہ لوگ بڑی دلچسپی لیتے تھے جو محض ہنگامہ پسند تھے ، جن کے لئے اسلام اور جاہلیت کا یہ معرکہ کوئی سنجیدہ معاملہ نہ تھا ، جنہیں کچھ خبر نہ تھی کہ اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ افواہیں پھیلانے کے نتائج کس قدر دور رس ہوتے ہیں ۔ان کے کان میں جہاں کوئی بھنک پڑ جاتی اسے لے کر جگہ جگہ پھونکتے پھرتے تھے ۔انہی لوگوں کی اس آیت میں سرزنش کی گئی ہے اور انہیں سختی کے ساتھ متنبہ فرمایا گیا ہے کہ افواہیں پھیلانے سے باز رہیں اور ہر خبر جو ان کو پہنچے ، اسے ذمہ دار لوگوں تک پہنچا کر خاموش ہوجائیں ۔

2۔مذکورہقرآنی آیات کے حوالے کا مقصد؟: فیصلے کی عین ابتدا میں ان قرآنی آیات کے حوالے کا مقصد کیا تھا ؟ اور ان آیات سے مسٹر جسٹس کھوسہ کی دانست میں کیا ظاہر ہوتا ہے ؟ یہ قرن سے رھنمائی تھی یا قرآن کا ۔۔۔استعمال۔۔۔تھا؟معاملہ چونکہ قرآن کا ہے ، اس لئے ہم کوئی لگی لپٹی رکھے اور کسی معذرت کے بغیر یہ عرض کریں گے کہ مذکورہ قرآنی آیات کا مفہوم وہ نہیں جو مسٹر جسٹس کھوسہ نے نکالا ہے اور مکمل فیصلے کے تناظر میں یہ بات انتہائی حیران کن ہے کہ ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ وہ ملکی آئین اور قانون کے پابند ہیں اور دیگر کسی قانون کے نہیں ( اگرچہ ان کی یہ بات بھی غلط ہے ) لیکن فیصلے کی بنیاد مذکورہ قرنی آیات ( اپنی من مانی تعبیر کی رو سے ) کو بناتے ہیں ، اسی طرح یہ بات بھی حیران کن ہے کہ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ ہمیں توہین رسالت وغیرہ جیسے معاملات میں جیورسڈکشن نہیں ہے

Quran

Quran

یہ وفاقی شرعی عدالت یا اسلامی نظریاتی کونسل کو حاصل ہے ، اور دوسری طرف سارے فیصلے کی بنیاد مذکورہ قرآنی آیات ( ان کی من مانی تعبیر ) پر رکھتے ہیں ! ع: خرد کا نام جنوں رکھ دیا ، جنوں کا خرد جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ! 3۔۔۔۔ ممتاز قادری کو مجرم قرار دینے کے لئے ، فیصلے کی ساری عمارت ، سورہ الحجرات کی آیت ٦ کی من پسند تشریح پر کھڑی ہے ۔ مسٹر جسٹس کھوسہ نے قرآن کی مذکورہ آیت کو ۔۔۔ استعمال ۔۔۔ کر کے یہ فرض کر لیا کہ ( الف ) سلیمان تاثیر کی شاتم رسولۖ ہونے کی خبر غلط تھی ! ( ب ) ممتاز قادری نے اس خبر کی کوئی تحقیق نہیں کی ! ۔۔۔۔۔۔۔۔ آگے بڑھنے سے پیشتر ، مذکورہ سورت کی آیت چھ کی طرف آئیے!اردو زبان میں استعمال ہونے والا لفظ ۔۔فاسق۔۔۔ عربی زبان کا۔۔۔۔ ہے اور اس کے ، معلوم و معروف معانی ہر کوئی جانتا ہے ۔ہم نے اس آیت کی تشریح کے لئے تفہیم القران سے رجوع کیا ہے لیکن خواہ کسی بھی کتاب تفسیر سے رجوع کر لیا جائے ، فاسق اور نبا کے معانی تبدیل نہیں ہو سکتے ۔فاسق کے معنی بد کردار ( اور اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے ) کے ، اور ، نبا کے معانی کسی ۔۔ اہم خبر۔۔۔ کے ہیں ۔پس مختصر ترین لفظوں میں مذکورہ قرآنی آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ جب کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی اہم خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو ۔ اب وہ ۔۔۔ اہم خبر ۔۔۔ کیا تھی ؟ اور لانے والا فاسق کون تھا ؟یہ معلوم کرنے کے لئے ، متعلقہ زمانی عرصہ ( چار جنوری سن دو ہزار دس سے قبل کا عرصہ ) کے حالات و واقعات کا جائزہ لیتے ہیں ۔

۔
4. ۔ نومبر2010میں سیشن کورٹ ننکانہ صاحب نے ایک 45سالہ عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو توہین رسالتۖ کے جرم میں موت کی سزا سنادی ۔جسکے خلاف آسیہ بی بی نے ، بعد ازاں ، عدالت عالیہ لاہورمیں اپیل دائر کی جس کی ابھی سماعت نہیں ہوئی تھی کہ آسیہ بی بی کی سزائے موت کے فیصلے پر پاکستان کے لا دین اور نام نہاد روشن خیال عناصر اور مغربی دنیا نے زبردست رد عمل کا اظہار شروع کردیا ۔ مغرب کے زبردست دبائو کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ بینی ڈکٹ نے اس سلسلے میں باقاعدہ بیان جاری کیااور آسیہ بی بی سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی فوری رہائی اور توہین رسالتۖ کے قانون کی تنسیخ کا مطالبہ کیا۔۔۔ حالانکہ صدر زرداری اور وزیر اعظم گیلانی اس ناپاک منصوبے پر پہلے ہی جاں فشانی سے عمل کر رہے تھے اور اگر ناگہانی طور پر آسیہ بی بی کا واقعہ رونما نہ ہواہوتا تو وہ اپنی اتحادی جماعتوں اور اپنے قابل اعتماد حلیف نواز شریف کی مدد سے اسے عملی جامہ پہنا چکے ہوتے ۔ آسیہ بی بی کے واقعے پر مغربی دنیا کے رد عمل ، پوپ کے مطالبے اور امریکی و یورپی حکومتوں کے براہ راست دبائو کو قبول کرتے ہوئے زرداری اور گیلانی انتہائی تابعداری اور وفادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حرکت میں آگئے اور زرداری ١ نے مقتول گورنر پنجاب کو شیخو پورہ جیل بھیجا ، متعلقہ خبر ملاحظہ فرمائیے !

٢١ء نومبر ( جنگ راولپنڈی ) گورنر پنجاب نے صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ کا دورہ کیا اور سزائے موت پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی سے ملاقات کرکے رحم کی اپیل حاصل کی تا کہ اسے فوری طور پر صدرمملکت کو بھجوایا جا سکے اور کرسمس سے قبل آسیہ کو رھائی مل جائے ۔ذرائع کے مطابق آسیہ کو رھائی کے بعد خاندان سمیت بیرون ملک بھجوا دیا جائے گا ۔ زرداری کی ہدایت پر آنجہانی مسٹر سلمان تاثیر نے شیخوپورہ جیل کا دورہ کیا ، جیل کے اندر ایک پریس کانفرنس سجائی اور وہاں منجملہ دیگر خرافات کے اس سزا کو سخت اور ظالمانہ قرار دیا اور جس قانون کے تحت آسیہ بی بی کو سزا ہوئی تھی ، اسے کالا قانون قرار دیا ۔ زرداری نے صرف اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اب تک اندرون خانہ جو کام ہو رھا تھا ، اسے آگے بڑھاتے ہوئے ، فی الفور قانون توہین رسالت ۖ میں تبدیلی و ترمیم کے لئے ایک کمیٹی قائم کردی اور مزید مضحکہ خیز حرکت یہ کی کہ اس کمیٹی کا سربراہ ایک غیر مسلم کو بنا دیا ، اس بارے میں روزنامہ جنگ راولپنڈی کے ٢٦ نومبر کے شمارے میں شائع شدہ خبر ملاحظہ فرمائیے!
٢٦ ء نومبر ۔ ( جنگ راولپنڈی ) صدر زرداری نے توہین رسالت پر عمل درآمد کے طریق کار میں اصلاحات کے لئے کمیٹی بنا دی ۔

کمیٹی کے سربراہ وزیر اقلیتی امور جبکہ نامور سکالرز اور ماہرین اس کے ارکان ہوں گے ، کمیٹی سیاسی جماعتوں اور فریقوں کی مشاورت کے بعد حکومت کو سفارشات پیش کرے گی ۔
اسلام باد ( نمائندہ خصوصی ) صدر آصف علی زرداری نے توہین رسالت قانون پر عمل درآمد کے طریق کار میں اصلاحات کے لئے کمیٹی قائم کردی ہے ۔کمیٹی میں نامور سکالرز اور ماہرین شامل ہوں گے ۔کمیٹی وزیر اقلیتی امور کی سربراہی میں قائم کی گئی ہے ۔ادھر اقلیتوں کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی نے ایوان صدر میں آصف علی زرداری سے ملاقات کی اور آسیہ بی بی کیس کے بارے میں صدر کو رپورٹ پیش کردی ۔آسیہ بی بی کو توہین رسالتۖ کے الزام میں سزائے موت سنائی جا چکی ہے ۔رپورٹ میں ایسی دستاویزات شامل ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آسیہ بی بی کے خلاف توہین رسالت کا کیس ذاتی عناد پر مبنی ہے ۔۔۔ِ،

Zardari

Zardari

5 زرداری کے اس ارادے اور فیصلے کے بعد کہ آسیہ بی بی کی سزا معاف کرکے اسے بیرون ملک بھجوا دیا جائے ، عدالت عالیہ لاہور سے رجوع کیا گیا ، متعلقہ خبر ملاحظہ فرمائیے !
٣٠ ء نومبر ( جنگ راولپنڈی ) آسیہ بی بی کیس زیر سماعت ہے حکومت رھائی کے لئے کوئی قدم نہ اٹھائے :لاہور ھائی کورٹ آسیہ کی سزائے موت کے خلاف معاملہ زیر سماعت ہے ، آرٹیکل ٤٥ کے تحت رھائی کے لئے اقدامات ہو رہے ہیں تو تا حکم ثانی انہیں روک دیا جائے ۔عدالت
مزید سماعت چھ دسمبر تک کے لئے ملتوی کردی گئی ۔6۔ قانون توہین رسالت میں ترمیم کے لئے ( جسے عمل درآمد کے طریق کار میں اصلاحات کا پر فریب نام دیا جارہا تھا ) قائم کردہ کمیٹی کی طرف سے پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی شیری رحمان نے بطور MEMBER INCHARGE ، کے پرائیویٹ ممبر بل ( جوزرداری ، گیلانی اینڈ کمپنی کی اجتماعی کاوشوں کا نتیجہ ہے ) پیش کیا ، متعلقہ خبر ملاحظہ فرمائیے! ٣٠ نومبر ۔( جنگ راولپنڈی ) اسلام آباد ( خبر نگار خصوصی ) پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شیری رحمان نے توہین رسالت ۖ کے قانون میں ترمیم کے لئے قومی اسمبلی میں پرائیویٹ ممبر بل جمع کرا دیا ہے اور اس بل کے تحت سزائے موت پانے والی عیسائی خاتون آسیہ بی بی کی حمایت کا اعلان کیا ہے ۔گذشتہ روز اپنے ایک بیان میں شیری رحمان نے کہا کہ توہین رسالت کے قانون میں موجود خامیوں کا فائدہ اٹھا کر اقلییتوں اور کمزور طبقات کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ توہین رسالت کے قانون میں ترامیم پر گفتگو کے لئے آج شیری رحمان کی صدارت میں ایک کانفرنس بھی منعقد ہوگی جس میں وکلا ، سول سوسائٹی اور دانشور شرکت کریں گے ۔
7۔ قانون توہین رسالت میں ترمیم ( جس میں قیامت تک کوئی تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا ) کے لئے ، شیری رحمان نے جو بل پیش کیا ، اس کی STATEMENT OF OBJECTIVES AND REASONS میں ترمیم کی غرض و غایت یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ ایک ڈکٹیٹر کا نافذ کیا ہوا (MAN MADE LAW ) قانون ہے ، پرائیویٹ ممبر بل کے طور پر پیش ہونے والا بل اپنے CONTENTS کے اعتبار سے زرداری ، گیلانی اور ان کے ہم نوائوں کے دل کی آواز اور رو ح کی پکار تھا۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ قانون توہین رسالت کا نفاذ ضیا الحق مرحوم کا کوئی کارنامہ نہیں ، بلکہ فیڈرل شریعت کورٹ کا کارنامہ ہے جس کا کریڈٹ سینئیر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ جناب اسماعیل قریشی کو جاتا ہے ۔

8۔ چار جنوری کو سلمان تاثیر ممتاز قادری کے ھاتھوں جہنم واصل ہو گیا ۔اوپر پیراگراف ٤ سے لے کر ٧ تک میں نقل کردہ خبریں کیا کسی ۔۔۔۔ فاسق ۔۔۔۔ کی لائی ہوئی یا پھیلائی ہوئی خبریں تھیں ؟ جن کی تحقیق ضروری تھی ؟کیا زرداری ، گیلانی ، تاثیر یا شیری سے جو کچھ اخبارات نے منسوب کیا ، وہ جھوٹ تھا ؟ کیا ان میں سے کسی نے بھی کبھی اس بات کی تردید کی کہ فلاں بات ہم نے نہیں کی یا فلاں کام ہم نے نہیں کیا ؟ کیا رائے عامہ اخبارت اور ذرائع ابلاغ سے BUILD نہیں ہوتی ؟ ممتاز قادری کو کس بات کی تحقیق کی ضرورت تھی ؟ کیا اس بات کی کہ تاثیر نے یہ سب کچھ نہیں کہا ؟ کیا اس بات کی کہ وہ بد کردار نہیں ؟ کیا اسے یہ علم ہوتے ہوئے کہ گورنر ھائوس میں شراب چلتی اور خنزیر پکتا ہے ، تاثیر کے بارے میں مزید کسی اطمینان کی ضرورت تھی ؟ ممتاز قادری کا مسئلہ ( کسی بھی دوسرے مسلمان کی طرح ) تحقیق کا نہیں ، موقع ملنے کا تھا ، جونہی اسے موقع ملا اس نے اپنا فرض ادا کردیا ۔ 9 ۔فیصلے کے پیرا گراف 1 میں مذکورہ قرآنی آیات کا حوالہ دینے کے بعد ، مسٹر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ یوں گوہر افشاں ہیں :۔۔۔۔

In the following paragraphs of this judgment it shall be highlighted as to i how the accused person in this case had acted on the basis of nothing but hearsay without getting his information ascertained , verified or investigated and, as Almighty Allah has warned , he has brought harm not only to another person but also to himself .Verily such are the consequences when Almighty Allah,s warnings or commands are not headed to .

اردو ترجمہ یہ ہوگا کہ ملزم نے محض اور محض سنی سنائی بات پر ، بغیر اپنی معلومات کی تصدیق اور تحقیق کئے ، عمل کیا اور جس طرح اللہ جل شانہ نے متنبہ فرمایا ہے ، اس نے دوسرے شخص کو بھی اور خود کو بھی نقصان پہنچایا ، بلا شبہ اللہ تبارک تعالیٰ کے انتباہات اور احکام کو نظر انداز کرنے کے یہی نتائج نکلتے ہیں ! 10۔ پیرا گراف نمبر 1در اصل فیصلہ اور Operative partہے اور بعد کے پیراگراف ، اس کے دلائل ! عدالتی حلقوں میں ایک لطیفہ عرصہ دراز سے گردش کرتا ہے کہ کوئی وکیل صاحب کسی قتل کیس میں دلائل دے رھے تھے ، جج صاحب ان کے دلائل سے تنگ آتے ہوئے بولے ،Mr.Advocate! you argue this way or that way , i am going to convict you ! اگرچہ مسٹر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے یہ الفاظ نہیں دہرائے ہوں گے مگر دل میں وہ یہی کہ رھے ہوں گے کہ خواجہ شریف اور میاں نذیر اختر صاحبان !آپ خواہ کچھ بھی کہیں ، میں ممتاز قادری کی اپیل خارج کرنے پر تلا بیٹھا ہوں ! پیراگراف ٤ تا ٧ کا مطالعہ ایک بار پھر فرمالیں ، اور پھر اس سوال کا جواب دیں کہ کیا ممتاز قادری نے کسی سنی سنائی بات پر بغیر تصدیق و تحقیق کے عمل کیا تھا ؟ ساری دنیا میں شور مچا ہوا تھا ، عیسائیوں کا مذہبی پیشوا ہمارے معاملات میں مداخلت کرکے اسیہ کی رھائی اور قانون توہین رسالت میں ترمیم کا مطالبہ کر رھا تھا !زرداری ٹولہ ( نواز شریف کی حمایت کے ساتھ ) قانون توہین رسالت میں ترمیم کرنے پر آمادہ تھا !اسمبلی میں بل تک پیش کردیا گیا تھا ! سارے ملک میں شور مچا ہوا تھا !لاہور ھائی کورٹ نے ایک حکم امتناعی بھی جاری کردیا تھا !تاثیر نے علی الاعلان قانون توہین رسالت کو کالا قانون کہا تھا !اس سب کچھ کے بعد ممتاز قادری کو کس بات کی تصدیق اور تحقیق کی ضرورت تھی

Blasphemy

Blasphemy

؟کیا یہ سب باتیں ۔۔ سنی سنائی۔۔۔ HEARSAY کے زمرے میں آتی ہیں ؟کیا اخبارت میں چھپنے والی خبروں اور ریڈیو ٹی وی پر نشر ہونے والی خبروں پر ۔۔ فاسق۔۔۔۔ کا اطلاق ہوتا ہے ؟ٹی وی چینل جیل کے اندر تاثیر کی پریس کانفرنس LIVE دکھا رہے ہیں ، کیا ناظرین کو یہ تصدیق و تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ واقعی جیل کی تصویر ہے ؟ کیا پریس کانفرنس میں نظر آنے والا شخص واقعی سلیمان تاثیر ہے ؟ جو الفاظ وہ سن رھے ہیں کیا وہ الفاظ واقعی سلیمان تاثیر کے ہیں ؟ اور کیا یہ سب دیدہ و شنیدہ ۔۔سنی سنائی ۔۔۔ کے زمرے میں آتا ہے ؟سورہ الحجرات کی آیت ٦ کا کون سا تقاضا تھا جو ممتاز قادری نے پورا نہیں کیا ؟اور اگرچہ تفصیلی تبصرہ تو فیصلے کے متعلقہ پیرا گرافس میں آئے گا لیکن یہاں چلتے چلتے مسٹر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی آگاہی کے لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ قانون توہین رسالت کے قانون کو ۔۔۔ کالا قانون ۔۔۔ کہنا ، سب و شتم کی انتہا ہے ، واقعات اور مثالیں تو اور بھی بہت ساری ہیں ( جو اپنے موقع پر آئیں گی ) لیکن سیدنا فاروق اعظم کی ایک مثا ل یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے کہ توہین رسالت کیا ہے ؟ایک مسلمان اور یہودی اپنا مقدمہ لے کر حضور اکرم ۖا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور روداد بیان کی ۔حضور ۖنے فیصلہ یہودی کے حق میں صادر فرمایا ۔ مسلمان ( جس کا ایمان کامل نہ تھا ) کو اطمینان نہ ہوا اور وہ سیدنا فاروق کے پاس حاضر ہوا اور انہیں روداد سنا کر فیصلہ چاہا ۔حضرت عمر نے فرمایا ، بیٹھو ، میں تمہارا فیصلہ کرتا ہوں ۔

اندر گئے ، تلوار نکالی ، اور اس سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم نبیۖ کے فیصلے پر عمر سے فیصلہطلب کرتے ہو ، تو لو! یہ ہے میرا فیصلہ ! اور یہ فرماتے ہوئے اس کا سر تن سے جدا فرمادیا۔حضور کو خبر پہنچی تو انہوں نے مقتول کے خون کو ساقط قرار دیا ۔وہ مسلمان کلمہ گو تھا ، اس نے نبی کریم کی ذات کو تو نشانہ نہیں بنایا تھا !محض ایک فیصلے سے مطمعن نہ ہو کر دوسرا فیصلہ چاہا تھا ۔۔۔ لیکن ۔۔ عمر نے ( جن کے بارے میں نبی کریمۖ کا ارشاد ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا توعمر ہوتے ) اسے توہین رسالت گردانتے ہوئے ، ایک کلمہ گو شاتم کا سر تن سے جدا کردیا !نبی اکرعم ۖ کے فیصلے پر اگر دوسرا فیصلہ چاہنا توہین رسالت( محض توہین رسالت نہیں ، قرآن کی روشنی میں کھلا کھلا ارتداد ہے ) تو نبی کریم ۖ کے وقت سے نافذ قانون کو کالا قانون کہنا اور اس کی ترمیم کا مطالبہ کرنا انتہا درجے کی توہین اور واضح ارتداد ہے ۔تاثیر محض شاتم ہی نہیں ، مرتد بھی تھا اور اس کی حمایت کرنے والوں کا شمار بھی اسی کیٹیگری میں ہوتا ہے ۔ ( جاری ہے )

تحریر: ظفر اعوان ایڈووکیٹ