ڈاکٹر قاسم خورشید سے خصوصی انٹرویو

Qasim and Nazam Din

Qasim and Nazam Din

تحریر: نظام الدین قاسمی
نظام الدین : ڈاکٹر قاسم خورشید! جیسا کہ ہم سب واقف ہیں کہ آپ اردو کے فروغ کے سلسلے میں مختلف زبانوں سے بھی وابستہ بین الاقوامی شہرت یافتہ ادیب ہونے کے ساتھ لگ بھگ پندرہ برسوں سے کلاس ون آفیسر کی حیثیت سے ایجوکیشنل ٹیلی ویژن کے انچار ج ڈائریکٹر رہے۔ دوسرے کئی ایڈمنسٹریٹیو عہدوں پر فائز رہے اور آج نو زبانوں کے صدر شعبہ کی حیثیت سے اپنی خدمات دے رہے ہیں۔

ہم جب عالمی سطح پر اردو زبان و ادب کے انتہائی معتبر اور محترم ناموں کی فعالیت کا ذکرکرتے ہیں تو آپ سر فہرست ہوا کرتے ہیں۔ جیسا کہ آپ واقف ہیں کہ ”قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان نئی دہلی” کے نئے منظرنامے پر کچھ ایسی تبدیلیاں رونماہوئی ہیں جن سے اردو آبادی کی کافی توقعات وابستہ ہوگئی ہیں۔چونکہ آپ گلوبل سطح پر زبان و ادب کی تحریک سے عملی طور پر وابستہ ہیں اس لئے اس تبدیلی پرآپ کی توقعات کیا ہیں؟

قاسم خورشید: جنا ب نظام الدین قاسمی صاحب سب سے پہلے تو میں آپ کا بے حد شکر گذار ہوں کہ اتنے اہم ترین موضوع پر گفتگو کے لئے آپ نے ناچیز کا انتخاب کیاہے۔جب کہ آپ خود بھی ایک انتہائی فعال اور غیر جانب دار صحافی ہیں اردو کو آج جس تکنیکی معاونت کی ضرورت ہے میں سمجھتاہوں کہ بہار میں آپ اس طرح نئی تکنالوجی کے ساتھ فعال ہیں جن کی مثالیں کم کم ملتی ہیں۔جہا ں تک آپ نے این سی پی یو ایل نئی دہلی کے نئے منظرنامے کے حوالے سے میرے تأثرات کی توقع کی ہے تو اس سلسلے میں مجھے یہ کہنے میں قطعی تأمل نہیںہے کہ گذشتہ دنوںپوری عرق ریزی کے بعد جو ٹیم بنائی گئی ہے میں سمجھتاہوں کہ تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی کیونکہ اس کے وائس چیئر مین پدم شری مظفرحسین اور انتظامی آفیسر ڈاکٹر شمس اقبال تو حالیہ دنوں میں این سی پی یو ایل کو نیا آسمان دینے کے لئے کوشاں تھے ہی مرکزی سرکار نے ڈائریکٹر کے عہدے کے لئے سرچ کمیٹی کے ذریعہ اس شخص کا انتخاب کیا ہے ،جنہیںمیں دو دہائیوں سے زائد عرصے سے جانتاہوں اور یہ بھی ایک زندہ حقیقت ہے کہ عملی طور پر جو کارہائے نمایا ںانجام دیئے جاتے ہیں انہیں کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوا کرتی ۔پروفیسر ارتضیٰ کریم کی شخصیت ایک فعال متحرک اور اردو زبان و تہذیب کے عاشق کی حیثیت سے بہت ہی محترم ہے ۔ڈائریکٹر کے عہدے پر ان کا تقرر ہونا یقینااردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے بے حد اہم ہے۔

نظام الدین : ڈاکٹر قاسم خورشید صاحب کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس نئی تبدیلی کے بعد این سی پی یو ایل نئی دہلی کے اغراض و مقاصد کے تحت بآسانی بہتر کام ہو سکیںگے کیونکہ یہ روایت رہی ہے کہ عہدے پر جانے کے بعد بہت سے نامساعد حالات بھی پیش نظر ہوا کرتے ہیں اور کام کرنے والا شخص بھی پوری آزادی کے ساتھ متعلقہ ادارے کے اغراض و مقاصد پر کام نہیں کر سکتا ہے۔ قاسم خورشید: نظام صاحب آپ کا شبہ حق بجانب ہے ۔ ہمارے یہاں ایسی روایت رہی ہے کہ بہتر فضا آفرینی یا سہولیات یا آزادی نہ ملنے کی وجہ سے خاطر خواہ کامیابی نہیںمل پاتی مگر یہ روایت بھی ملتی ہے کہ انتہائی گہرے اندھیرے میں بھی سچا عزم رکھنے والے لوگ روشنی اُگا ہی لے تے ہیں میں ڈاکٹر ارتضیٰ کریم کی صلاحیتوں سے بخوبی واقف ہوںبلکہ چشم دید گواہ بھی ہوں۔

مجھے یادہے کہ جب وہ صدر شعبۂ اردو دلی یونیورسٹی کے عہدے پر فائز تھے توانہوں نے کئی ایسے سمینار سمپوزیم اور اردو کے فروغ کے حوالے سے اہم ترین کام کیئے جس کی نظیر کم کم ملتی ہے۔ لیکن انہوں نے تاریخ تب مرتب کر دی جب شعبۂ اردو دلی یونیورسٹی کے قیام کے پچاس سال مکمل ہونے پر عالمی سطح پر ایک ایسے اجتماع کا انعقاد کیا جس کا تصور تو کیا جاسکتاہے لیکن اُسے عملی صورت دیا جانا عموماً ناممکن رہاہے اسی لئے اُسی شعبۂ اردو میں پچیس سال پورا ہونے یا اس کے بعد کئی ایسے مواقع آئے جن کے بہانے تقریبات کا انعقاد کیا جاسکتاتھا مگر ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔

ڈاکٹر ارتضیٰ کریم نے نامساعد حالات کے باوجود عالمی سطح کا پروگرام منعقد کیا اور تمام مشاہیر کو ایک اسٹیج پر لاکر نئی تاریخ بنائی معاملہ یہیں ختم نہیںہوتا بلکہ تحقیق ، تنقیداور ادیب کی حیثیت سے ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آئیں ۔ ہندوستان کے علاوہ دوسرے ممالک میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے حوالے سے ڈاکٹر کریم نے سینکڑوں پر مغزمقالے ، پرچے پیش کئے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عزم اور صلاحیت ہو تو کٹھن ڈگر پر بھی ہم پتھر کاٹ کر راستہ بنا سکتے ہیں۔

Irtiqa kareem

Irtiqa kareem

نظام الدین : ڈاکٹر قاسم خورشید صاحب میں آپ کی اس بات سے متفق ہوں کہ حالا ت چاہے جیسے بھی ہوں اگر دل میں سچا ارادہ اور نیک نیتی ہو تو راہیں خود بخود ہموار ہوجاتی ہیں۔مگر کیا آپ یہ نہیں سوچتے کہ ہندوستان میں بازار واد کااثر دھیردھیرے تیز ہورہاہے جس کی وجہ سے ہمیں اکثر خسارے میں بھی رہنا پڑتاہے آپ اس خدشے کو این سی پی یو ایل کے حوالے سے کس طرح محسوس کرتے ہیں؟
قاسم خورشید: نظام الدین صاحب اردو ایک ایسی زبان ہے جو کسی کے چاہنے یا نہ چاہنے پر نہ تو ختم ہو سکتی ہے اور نہ ہی کسی بڑی سازش کا شکار ہوسکتی ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ میں خود اردو کی روزی روٹی سے وابستہ نہیں ہوں لیکن ہندوستان کی دوسری ترقی پذیر زبانوں کی طرح اردو بھی میری رگ و پئے سے وابستہ ہے۔جہاں تک بازار کی بات ہے تو آپ اس کے مثبت اور روشن پہلوؤں کو بھی پیش نظر رکھیں ہمیں بہر حال بیسٹ سیلر بھی ہونا ہوگا۔اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنی زبان کے فروغ کے لیے دوسری ترقی پذیر زبانوں سے گہرائی کے ساتھ وابستہ ہوجائیں۔ آج بھی پریم چند ، منٹو ، عصمت چغتائی، قرة العین حیدر، کرشن چندر، غالب، میر، مومن، ذوق اور ایسے ہی دوسرے مشاہیر کی کتابیں خوب خوب بکتی ہیں اور روز کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی دوسری زبان میں بھی منتقل ہوتی ہیںاس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ اگر ہمارا ادب پوری شدت کے ساتھ آفاقیت کا حامل ہو تو دنیا کا بڑا سے بڑا بازار اُسے ضرور اہمیت دے گا۔ انگریزی میں ایک بات جو مجھے بہت اچھی لگتی ہے اور میں خصوصی طور پر ہندوستان میںموجود انگریزی کے کئی بڑے بڑے ادیبوں سے وابستہ ہوں جن کی کتابیں آج بیسٹ سیلرہیںوجہ صاف ہے کہ انہیں پڑھنے والے لوگ ہی خرید رہے ہیںہم محض احساس کمتری کی وجہ سے انہیں رد نہیں کرسکتے ۔ اس لئے میں توقع کرتاہوں اگر زبان کو واقعی زندہ رکھنا ہے تو ہمیںا پنے شہ پارے کو گلوبل سطح پر متعارف کراتے ہوئے نئی دنیا کی تعمیر کرنی ہوگی۔ نظام الدین : مگر یہ تو ایک مشکل مرحلہ ہے کہ اردو کا تخلیق کار یا ادیب اپنی کتابوںکوعالمی بازار میںپیش کرے ۔آپ یہ کیسے سوچتے ہیں کہ دنیا کی دوسری ترقی پذیر زبانوں کی طرح اردو کی کتابیں یا ہمار اادب بھی مقبول ہوگا۔

قاسم خورشید: نظام الدین صاحب میں واقف ہوں کہ آپ محض پرنٹ میڈیاکے ذریعہ اردو کے لئے کام نہیں کررہے ہیں بلکہ ساری دنیا میں اردو کے جو اہم ترین ویب سائٹ ہیں یا ایلیکٹرونک رسالے ہیں ان کے ساتھ بھی جڑے ہوئے ہیں ۔میں ڈاکٹر ارتضی ٰ کریم کے ویزن سے بھی بخوبی واقف ہوں اور این سی پی یوایل کے اغراض و مقاصد کے تحت اردو کو گلوبلائز کرنے کی کوششوں سے بھی باخبر ہوں اور میں آپ کو یقین دلا سکتاہوںکہ موجودہ سیٹ اَپ میںپوری دنیا کے ویٹ سائٹ ، الیکٹرونک رسالے۔ ٹیلی ویژن ، ریڈیو اور آئی سی ٹی کے ذریعہ این سی پی یو ایل گہرائی سے جڑکر اردو زبان و ادب کے فروغ میں کئی نئے ابواب کا اضافہ کرے گا۔ نظام صاحب میں کہتارہاہوں کہ اردو کبھی مر نہیں سکتی ، فنا نہیں ہوسکتی، ہاں ہماری سرد مہری سے منتقل ضرور ہوسکتی ہے۔اور آج ایسا ہو بھی رہاہے اس لئے اردو کا جادو پورے ویب ورلڈ پر سر چڑھ کر بول رہاہے۔ ہمارا کلاسیکی ادب ، عصری ادب یا موجودہ ادب آپ کو لمحہ لمحہ ایسے مسائل کے ذریعہ باخبر کررہاہے۔ظاہر ہے کہ فورمیٹ بھی بدلا ہے مگر زبان کی روح کہاں بدل سکتی ہے۔

نظام الدین: چونکہ آپ کا گہر ا رشتہ ہندی ، انگریزی اور دوسری مقامی زبانوں سے رہاہے اور آپ مستقل پورے ہندوستان میں بہت ہی فعال رہتے ہیں۔آپ کی کئی کتابیں اردو ہندی اور انگریزی میں شائع ہوکر مقبول ہوچکی ہیں ساتھ ایک الیکٹرونک میگزین ”گل وصنوبر ”کی ادارت سے بھی وابستہ ہیںاور بڑی بات تو یہ ہے کہ ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے توسط سے آپ اردو ہندی ادب کے واحد تخلیق کا رہیں جس نے ہزاروں پروگرام بنائے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ آپ سوچتے ہیں کہ اس طرح کے پروجیکٹ پر این سی پی یو ایل کو بھی کام کرنا چاہئے تاکہ نئی نسلیںآج بھی ٹیکنالوجی کے ساتھ جڑکر اردو کے فروغ میںمعاونت کرسکیں ۔ قاسم خورشید : میں سمجھتاہوں کہ یہ مکمل طورپر ٹکنالوجی کا عہد ہے۔کوئی بھی ادارہ جب تک واضح طورپر Equiped نہیں ہے وہ کسی بھی طرح قومی دھارے میں شامل نہیں ہوسکتا۔ارد و کے فروغ کے سلسلے میں این سی پی یو ایل کو مزیدٹکنالوجی سے لیس کرتے ہوئے نیا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا تاکہ اس ادارے کو پوری دنیا سے جوڑنے کے ساتھ اِسے ہندوستان کا ایسا واحداردو ادارہ بنایا جاسکے جہاںانفارمیشن کمیونیکیشن ٹکنالوجی(I.C.T) کے تمام تروسائل موجود ہوں۔اس سلسلے میںیہ بھی ضروری ہے کہ این سی پی یو ایل کا باضابطہ طورپر ٢٤ گھنٹے کا اپنا ایک ٹیلی ویژن چینل ہونا چاہئے جس پر کلاسیکی ادب سے لے کر تمام دنیا کی دوسری زبانوں کے شہ پاروں کو اردو میں منتقل کر کے لوگوں کے سامنے ڈرامے ، دستاویزی فلمیں، سمپوزیم، سمینار، بحث و مباحثہ، انٹرویوز ، نغمے اور مشاعرے کے ذریعہ عوام کوجوڑا جا سکے۔چونکہ اردو واحد ایسی زبان ہے جو فلموں ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے ذریعہ بہت ہی مقبول رہی ہے اس لئے زبان کے اس وصف سے ادارے کو استفادہ کرنا چاہئے۔ ساتھ ہی اس چینل پراردو لرننگ کورس جو آئی سی ٹی کے ذریعہ ممکن ہے ضرورعمل میں لانا چاہئے۔صرف روایتی ڈھنگ سے محض کتابوں کی اشاعت یا چند نام نہاد دانشوروں کو بلا کر ان کی آمد ورفت اور دوسرے متعلقہ اخراجات سے شخصی فائدے تو ہوسکتے ہیںمگراس عہد میں زبان کا فروغ نہیں ہوسکتا۔میںسمجھتاہوں کہ ڈاکٹر ارتضی کریم اس سلسلے میں یقینا مثبت اقدام کے اہل ہیں اور وہ بہتر ڈھنگ سے پروگرام ڈیزائن کر سکتے ہیں۔انہیں عملی جامہ پہنچاسکتے ہیں۔اگر ایسا ممکن ہوا تو یقینا این سی پی یو ایل کے نئے اور روشن باب کا اضافہ ہوگا۔

نظام الدین : آپ نے بے حد مفید مشورے دیئے ہیں۔ یہ سب این سی پی یو ایل کے لیئے بہت ہی کار آمد اورلائق تحسین بھی تصور کیا جاسکتاہے۔ادارے کے پاس فنڈ کے علاوہ وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔اگرکہیں کوئی کمی ہے تومصمم ارادے او ر عملی اقدامات کی۔کیا آپ سمجھتے کہ آپ کے ذریعہ دیئے گئے ایسے کارآمد مشورورں پر واقعی این سی پی یو ایل عمل پیرا ہوسکے گا۔ قاسم خورشید: نظام صاحب ! میں یہ سمجھتاہوں کہ ہر شخص کے اندرکسی نہ کسی سطح پر کوئی نہ کوئی ایسی صلاحیت ضرور موجود ہوتی ہے کہ اگر وہ زمینی طور پر کار فرماہوجائے تو ایک نام نہاد ادارے سے بھی بہترنتیجہ سامنے آسکتاہے ۔میں یہ بات یقین کے ساتھ اس لئے کہہ رہاہوں کہ ڈاکٹر ارتضیٰ کریم عموماً نامساعد حالات کے پیش نظر بھی انتہائی مشکل ترین کام کرتے رہے ہیں اور اپنے مضبوط ارادے کے لئے جانے جاتے ہیں اس لئے میرے دیئے گئے مشورے سے بہتر کام کرنے کے وہ خود بھی اہل ہیں ۔جہاں تک زبان کی افاد یت کاسوال ہے تو ابMain Stream سے جُڑے بغیر کوئی ادارہ یا شخص اپنی منز ل تک نہیں پہنچ سکتا۔

نظام الدین:قاسم خورشید صاحب! چونکہ آپ خود بھی عملی سطح پر ایسے تمام کام کرتے رہے ہیں اور جس سے ساری عالمی برادری واقف بھی ہے اس لئے آپ اس کی افادیت کو بہتر ڈھنگ سے محسوس کرسکتے ہیں۔ مگر کیا اس کے علاوہ صوبائی سطح پر این سی پی یو ایل کو فوری طور پر اور ایسا کیا کچھ کرنا چاہئے کہ کم از کم ہندوستان کی اردو آبادی گہرائی کے ساتھ جُڑکر خاطر خواہ استفادہ کر سکے۔
قاسم خورشید: نظام الدین صاحب !ادارے کے اغراض و مقاصد کا تجزیہ کیا جائے تو کام کرنے کیلئے وسعتیں لامتناہی ہیں۔ ہم زبان کے فروغ کے حوالے سے جو کچھ بھی سوچیںگے وہ کسی نہ کسی جہت سے اس ادارے کے تحت کر سکتے ہیں۔دیکھئے ! آج ہندوستان میں خصوصی طورپر جہاں اردو کا بڑا بازار ،بڑی آبادی ہے ، وہاں ترجیحی بنیاد پر اس ادارے کو چاہئے کہ ریجنل سنٹر قائم کرے بلکہ میں تو یہ کہوںگاکہ فی الحال مہاراشٹر، بنگال ،بہار، جھارکھنڈ، اتر پردیش ، تلنگانہ،کشمیر ، پنجاب ،آسام ، راجستھان ، ہریانہ، تامل ناڈوش اور ایسے ہی دوسرے صوبوں میںریجنل سنٹر قائم کرے۔ وہاں ریجنل ڈائریکٹر کی سر پرستی میں ایک ایسی ٹیم تیار کی جائے جو صوبے میںاردو کے فروغ کے لئے عملی اقدامات کر سکے۔ وقت وقت پر مرکز کے ذریعہ ان کی مونیٹرنگ بھی کی جائے اور جہاں کوئی کمی نظر آئے اس پر فوری طور پر کاروائی بھی کی جائے تاکہ ایسے ریجنل مراکز کی افادیت کا اندازہ بھی لوگوںکو ہو سکے اور اردو آبادی پورے طور پر ان سے جڑ سکے ہر حکومت یہ ضرور چاہتی ہے کہ اس کے عہد میں خاطر خواہ فروغ ہو ۔صوبے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوں۔ سچی بات یہ ہے کہ عموماً جو حکومت اقتدار میں ہوتی وہ کبھی یہ نہیں چاہتی کہ کوئی بھی شعبہ محض رسمی بن کر رہ جائے۔

Development

Development

نظا م الدین : قاسم خورشید صاحب ! کیا آپ یہ نہیں سوچتے ہیں کہ آج اردو کا قاری کم ہوگیاہے جب کہ آبادی پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے مواقع بھی یقینا بہترہیں آخر ایسا کیا کچھ ہو کہ ہم اپنے قاری کو واپس لا سکیں ۔ نظام الدین : آپ نے وقت کی نبض پر انگلیاں رکھ دی ہیں۔میں اس بات سے متفق ہوں کہ قاری کے بغیر نہ زبان کا فروغ ہوتاہے اور نہ ادب کا ۔ آج پوری دنیا میںاردو کی نئی بستیاں آباد ہورہی ہیں ہم ایک گلوبل عہد میں جی رہے ہیں اردو کے وسیلے سے بھی نہ جانے کتنے ویب سائٹ ہیں ،کتنی الیکٹرونک میگزین ہیں اور بڑی بات تو یہ ہے کہ ہمارے بیشتر شہ پارے بھی ویب ورلڈ میں مل جائیںگے۔آپ ذرا تصورکیجئے قاری اگر کم ہوتا تو اس وسیلے سے کبھی اردونہیں پھیل پاتی۔ نظام الدین صاحب! یہ زبان ایک زندہ زبان ہے ممکن ہے کہ یہ اور جگہوں پر منتقل ہوجائے اورجو اس کے دعوے دار ہیں اپنی کم مائیگی کی وجہ سے روتے رہیں۔آپ اس بات سے متفق ہوںگے کہ فلم ، ٹیلی ویژن ، ریڈیو اور ایسے ہی دوسرے تفریحی وسائل کا بازار کل بھی قائم تھا ، آج بھی قائم ہے اور آئند ہ بھی قائم رہے گا ۔ ان میںبول چال کی اردو یا ہندوستانی زبان کا ہی بول بالا ہے ۔رہی بات خالص ادب کی تو این سی پی یو ایل جیسا ادارہ آج جس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ارتضیٰ کریم ہیں ان کی سرپرستی میںقاری کی تعداد پرنٹ میڈیم میںیقینا بڑھے گی اس کے لئے یہ بھی ضروری ہو گا کہ ایسی کتابچے شائع کروائیںجائیںجو اردو سیکھنے سکھانے کے عمل میں انتہائی دلچسپ اور سودمند ہوںساتھ ہی رسالے میں فرسودہ قسم کے مضامین ، کہانیوں ، غزلوں کی اشاعت سے بہترہے کہ ہم ان شہ پاروں کو شائع کریں جنہیں پڑھ کر قاری خود میں توانائی محسوس کرے ۔ آج حالات یہ ہو گئے ہیں کہ ہم ز یادہ تر ایسے مضامین شائع کر رہے ہیں جنہیں پڑھ کر ایسا معلوم ہو تاہے کہ ہم پہلے بھی انہیں پڑھ چکے ہیں یا اس حد تک رسمی ہے کہ چھو کر ہی اندازہ ہوجاتاہے کہ اس میں کیسا متن ہے ۔ظاہر ہے کہ ایسا ہونے سے قاری دھیرے دھیرے دور ہوتا چلا جائے گا۔نام نہاد محقق ، مصنف ، بھلے یہ سوچتے رہیں کہ ہم نے اپنی سطح پر شہ پارہ گڑھ لیا ہے مگر تجزیہ کیا جائے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی تحریروں کوان کے علاوہ عموماً لوگوں نے پڑھا ہی نہیںہے اور اگر پڑھا بھی ہے تو محض رسم ادائیگی کے لئے۔ مجھے ارتضیٰ کریم صاحب سے یہ توقع ہے کہ وہ ایسے تمام معاملات کی تہ میں جاکر یہ کوشش کریںگے کہ ہم کس طرح اپنے قاری کو متوجہ کریں اور زبان و ادب کی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوں۔ چونکہ ڈاکٹر ارتضیٰ کریم شگفتہ تحریریں پیش کر تے رہے ہیں اور انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ کس تحریر کی خوشبو قاری تک پہنچتی ہے اور کون سی تحریر محض فضا میں تحلیل ہوجاتی ہے۔

نظام الدین : عموما ًیہ دیکھا جاتاہے کہ ایسے اداروں میں دانستہ یا نادانستہ طو ر پر ایک لابی حاوی ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں زبان کا خسارہ ہوتا ہی ہے اور ساتھ ہی عوامی مقبولیت بھی بہت کم ہوجاتی ہے ۔ آپ اس سلسلے میں کیا سوچتے ہیں۔ قاسم خورشید : نظام الدین صاحب! آپ نے لابی کی بات چھیڑ کر جن خدشات کی طرف اشارے کیئے ہیں وہ یقیناباعث تشویش ہیں۔بہت معمولی فائدے کے لئے بھی لابی کام کرنے لگتی ہے ۔ ظاہر ہے ایسے میں باصلاحیت اور جینون لوگ عموما حاشیے پر رہ جاتے ہیں ۔حقیقی صلاحیتیں تو کبھی ہاتھ تو نہیںپھیلا سکتی ہیںوہ تو خوشبو کی طرح ہوتی ہیں جنہیں ہر شخص محسوس تو کرتاہے مگر کئی بارکسی خاص کمپلیکس کی وجہ سے اعتراف کرنے سے گھبراتاہے ۔ گذشتہ برسوں میں مختلف اداروںمیں اور خصوصی طورپر اردو کے اداروں میں لابی حاوی رہی ہے۔اور اردو کا تو کردارہی رہا ہے کہ یہاں بہت جلد خیمے بن جاتے ہیںاورپھر اپنے مفاد کے لئے خیمے جلا بھی دیئے جاتے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ ایک زمانے میں کئی چھوٹی بڑی لابی کام کررہی تھی۔آج ان کے اثرات کم ہوئے ہیں لیکن وقت آنے پر اب بھی وہ اکثر فعال بھی ہوجاتے ہیں۔آپ محسوس کریںگے کہ اس سے بھلے ہی بعض لوگوں کو فائدے ہوئے ہوں لیکن ان میں بیشتر لوگ نہ ادب میں زندہ ہیں اور نہ ہی سماج میں۔آج ہم سمجھتے ہیں کہ لابی اس لئے کار گر نہیں ہوپاتی ہے کہ باصلاحیت لوگوں کے لئے بے پناہ مواقع ہیں ۔کوئی انہیں چاہ کر روک بھی نہیں سکتابلکہ اکثر روکنے والے خود ہی وقت کی دھند میں کہیں کھو جاتے ہیں۔آج لو گوں خاصی بیداری بھی آئی ہے ، آر ٹی آئی کی وجہ سے شفافیت بڑھی ہے ۔این سی پی یو ایل جیسے ادارے کو یہ چاہئے کہ ہندوستان یا بیرون ہندوستان، جہاںکہیں صلاحیتیں ہیں ان سے ادارے کو استفادہ کرنا چاہئے۔

Urdu

Urdu

نئے سرے سے کمیٹی کی تشکیل کی جانی چاہئے تاکہ اس کے اغراض و مقاصد کی بہتر تکمیل ہوسکے اور ہم بچی ہوئی اردو آبادی کا اعتماد بحال کر سکیں۔ اس لئے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے حوالے سے اخیر میں کہنا چاہتا ہوں کہ ابھی یہاں کی موجودہ ٹیم کئی اعتبار سے منفرد اور صحت مند افکار سے لیس ہے اس لئے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ کونسل اپنے وقار کو مزید نئی بلندیاں عطا کرنے کے ساتھ عملی طورپر ایک تاریخ بھی مرتب کرنے کے اہل ہے وائس چیئر می ںپدم شری مظفر حسین انتظامی آفیسر ڈاکٹر شمس اقبال، ڈائریکٹر ارتضٰی کریم اور دوسرے معاونین کے لئے تمام تر نیک خواہشات۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ بقول اقبال نہیںہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے ذرانم ہوتو یہ مٹی بہت زر خیز ہے ساقی نظام الدین : ڈاکٹر قاسم خورشید صاحب! اتنی دلچسپ پُر مغز اور صحت مند گفتگو کے لئے ہم آپ کے بیحد شکرگذار ہیں اورہم بھی یہ توقع کرتے ہیں کہ افکار کی زمین پر نمی آئے گی اور یہاں کی مٹی واقعی زرخیز ہو گی۔بہت شکریہ

تحریر: نظام الدین قاسمی
صحافی
کوہ نور کمپیوٹر سنٹر
توپ خانہ بازار ، مونگیر۔٨١١٢٠١
موبائل: 9234911355
ای میل:munger786@gmail.com