قرآن و حدیث کی روشنی میں محرم الحرام کی اہمیت و فضیلت

Quran

Quran

تحریر: ایم ابوبکر بلوچ
اللہ پاک نے اپنی کامل قدرت سے بے شمار مخلوقات پیدا کیں اور ہر مخلوق میں کسی نہ کسی کو چن کر بااختیار بنا کراپنی تمام مخلوق پہ فوقیت دی جیساکہ فرشتوں میںسے چار فرشتے معتبر، انسانوں میں سے رسول بنائے جبکہ رسولوں میں سے جناب محمد رسول اللہۖ کو برتری عطاء فرمائی اور رحمت اللعالمین کے لقب سے نوازا،زمین سے مساجد کو اختیار دیاجبکہ مساجد میں بیت اللہ شریف کو رحمت الہیٰ کا مرکز قرار دیا۔

کلام میں سے قرآن شریف کو کلام الہیٰ کا لقب دے کر عزت بخشی ۔ایام میں جمعتہ المبارک کو مبارک دن قرار دیاجبکہ راتوں میں لیلتہ القدر کو چنا، اسی طرح مہینوں میں چار مہینوں کوخاص فوقیت دی جن میں محرم الحرام بھی شامل ہے یقینا محرم الحرام عظمت والا اور بابرکت مہینہ ہے اسلامی تقویم کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے جو کہ اسی فطری نظام کائنات کے تحت جیسا کہ خالق کائنات نے مقرر فرمایا ہے ۔ان عدةالشہورعنداللہ اثنیٰ عشر شہرافی کتاب اللہ یوم خلق السمٰوات والارض منہااربعتہ حرم ذلک الدین(سورہ توبہ)ترجمعہ یقینا مہینوں کی تعداد تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بارہ ہے اللہ کی کتاب (لوح محفوظ )میں جس دن کہ پیدا کیا آسمانوں اور زمینوں کواور ان میں چار حرمت والے مہینے ہیںیہی سیدھا درست دین ہے۔

ان بارہ مہینوں کی ترتیب محرم سے شروع ہو کر ذی الحجہ پہ ختم ہوتی تھی اور چار مہینے محرم،رجب،ذیقعدہ، ذی الحجہ اشہر حرم تھے جن میں قتل و قتال جائز نہیں تھا ۔اہل عرب ان چار مہینوں کا لحاظ و پاس کرتے تھے حالانکہ ریگستان عرب کے بدووں اور بادیہ نشیںقبائل کی معیشت و زندگی کا دارومدار عام طور پر لوٹ مار پر تھا قافلوں اور مسافروں کو لوٹنا ان کا مشغلہ تھا بلکہ روزی روٹی کے حصول کیلئے ایک قبیلہ دوسرے قبیلے پہ حملہ آور ہوتا تھا اسی وجہ سے عرب کی زمین پر خون خرابہ قتل و قتال اور غارت گری کا ایک چلن تھا جو قبیلہ زیادہ جنگجو ہوتا اسکی عظمت و شوکت تسلیم کی جاتی تھی مگر یہ تمام خون خرابے لوٹ پاٹ اشہر حرم میں موقوف کر دئے جاتے تھے۔اسلام نے انکے عزت و احترام کو مزید بڑھایا ۔نیز ان مہینوں میں نیک اعمال اور اللہ کی اطاعت ثواب کے اعتبار سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے اسی طرح ان میں برائیوں کا گناہ دوسرے دنوں کو برائیوں سے سخت ہے لہذاٰ ان مہینوں کی حرمت توڑنا جائز نہیں۔

اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام تشریق میں مقام منیٰ میں حجتہ الوداع کے موقعہ پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ؛ .لوگو!زمانہ گھوم پھر کر آج پھر اسی نقطہ پہ آگیا ہے جیسا کہ اس دن تھا جبکہ اللہ نے زمین و آسمان کی تخلیق فرمائی تھی ۔سن لو،سال میں بارہ مہینے ہیں جن میں چار حرمت والے ہیں،وہ ہیں؛ذوالقعدہ،ذوالحجہ ۔محر م اور رجب ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ نے فرمایاان مہینوں میں عمل صالحہ بہت ثواب رکھتا ہے اور ان مہینوں میں ظلم و زیادتی بہت بڑا گناہ ہے صحیح بخاری کتاب التفسیر میں حضرت ابوبکر سے روایت ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا بے شک زمانہ گھوم کرپھر اسی نقطہ پر آگیا ہے جب اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان پیدا کئے تھے۔سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے اس میں چار مہینے حرمت والے ہیں جس میں تین لگاتار ہیںذی قعد،ذی الحجہ اور محرم ،چوتھا رجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہوتا ہے ۔ انحرمت والے چار مہینوںمیں کسی قسم کی برائی اور فسق و فجور سے کلی طور پر اجتناب کرنا اور انکے احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے ۔ماہ محرم وہ مہینہ ہے جس میں دس تاریخ کورسول اللہ نے روزے کا دن قرار دیااور اسے سال بھر کیلئے کفارہ گناہ ٹھہرایا ہے۔

Muharram ul Haram

Muharram ul Haram

محرم کے روزے
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ، رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ محرم کے روزے ہیں ،جو اللہ کا مہینہ ہے اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے ۔ (صحیح مسلم ؛کتاب الصیام ،باب فضل صوم المحرم /مشکوة ص178)
عاشورہ محرم کا روزہ
حضرت حفصہ فرماتی ہیں کہ ،آپ ۖچار چیزیں نہ چھوڑا کرتے تھے ان میں سے ایک عاشورہ کا روزہ ہے ۔(سنن النسائی)
ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ۖ کو کسی دن کے روزے کا دوسرے عام دنوں کے روزوں پر افضل جاننے کا ارادہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا جس طرح یوم عاشورہ اور ماہ رمضان کا اہتمام کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔(بخاری، مسلم)
عاشورہ کے ساتھ ٩یا ١١ /محرم کا روزہ
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ،نبی اکرم ۖنے یہود کی مشابہت سے بچنے کیلئے اسکے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا ۔چنانچہ صحیح مسلم کی روایت ہے ،ابن عباس اس حدیث کے روای ہیں کہ ،، جب رسول اللہۖ نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور لوگوں کو رکھنے کا حکم دیا تو لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ۖ ! یہ تو ایسا دن ہے جسکی یہود ونصاریٰ بڑی تعظیم کرتے ہیںتو آپ ۖ نے یہ سن کر فرمایاکہ آئندہ سال انشاء اللہ ہم دس محرم کے ساتھ نو محرم کا روزہ بھی رکھیں گے ۔اگلا سال آنے سے قبل آپۖوفات پا گئے ۔(صحیح مسلم /مشکوة179)
ایک روایت میں ذکر ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ،، یہود دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں تم ان کی مخالفت کرو اور اسکے ساتھ نو تاریخ کا روزہ بھی رکھو
ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ،، رسول اللہ ۖ عاشورہ کے روزے کا حکم فرماتے ہیں مگر جب رمضان فرض ہو گیا تو فرماتے تھے جو شخص چاہے روزہ رکھے جو چاہے افطار کرے ۔(صحیح بخاری)
اور مسند احمد کی ایک روایت میں ١١/محرم کا ذکر بھی ملتا ہے یعنی ٩محرم یا ١١ /محرم
ماہ محرم کی بدعات
ہم نے ماہ محرم میں بہت سے غلط رسم و رواج کو اپنا رکھا ہے اسے دکھ اور مصائب کا مہینہ قرار دے لیا ہے جس کے اظہار کیلئے سیاہ لباس پہننا شروع کر دیا ہے ۔رونا پیٹنا ،تعزیہ کا جلوس نکالنا اور مجالس عزا وغیرہ کا اہتمام کرنا یہ سب کچھ ثواب کا کام سمجھ کر حضرت حسین سے محبت کے اظہار کے طور پر کیا جاتا ہے حالانکہ یہ سب چیزیں نبی اکرم حضرت محمد ۖ کے فرمودات کے صریح خلاف ہیں ۔شیعہ حضرات کی دیکھادیکھی خود کو سنی کہلانے والے بھی بہت سی بدعات میں مبتلا ہو گئے ہیں مثال کے طور پہ اس ماہ میں شادی بیاہ کو بے برکتی اور مصائب وآلام کے دور کی ابتدا کا باعث سمجھ کر اس سے احتراز کیا جاتاہے حالانکہ محرم میں شادی کرنا کوئی گناہ یا برائی نہیں ۔سال کے کسی بھی مہینے میں شادی کرنا نہ ہی گناہ ہے ،نہ ہی عیب ہے کوئی مہینہ منحوس نہیں لہذامحرم میں بھی شادیاں کرنی چاہئے کیونکہ محرم میں آپ ۖ اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہوا،سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اورحضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح ہوا ،سیدنا علی المرتضیٰ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح مبارک ہوا۔لوگ اس ماہ میںاعمال مسنونہ کو چھوڑ کر بہت سی من گھڑت اور موضوع احادیث پر عمل کرتے ہیں
کیا ماہ محرم صرف غم کی یادگار ہے؟؟

شہادت حسین رضی اللہ عنہ اگرچہ اسلامی تاریخ کا بہت بڑا سانحہ ہے لیکن یہ صرف ایک واقعہ نہیں جسکی یاد محرم سے وابستہ ہے بلکہ محرم میں کئی دیگر تاریخی واقعات بھی رونما ہوئے ہیں جن میں چند ایک افسوسناک ہیں تو کئی واقعات ایسے بھی ہیں جن پر خوش ہونا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر بجا لانا لانا چاہئے جیسا کہ نبی اکرم ۖ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اقتدا میں عاشورے کے دن شکر کا روزہ رکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دن موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات دی تھی نیز اگر اتفاق سے شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا المیہ بھی اسی ماہ میں واقع ہو گیا تو بعض دیگر جلیل القدرصحابہ کرام کی شہادت بھی تو اسی ماہ میں ہوئی ہے مثلاً سطوت اسلام کے عظیم علمبردار خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب اسی ماہ کی یکم تاریخ کو حالت نماز میں ابولوء لوء فیروز نامی ایک مجوسی غلام کے ہاتھوں شہید ہوئے ،اس لئے شہادت حسین کا دن منانے والوں کو انکا دن بھی منانا چاہئے ۔۔۔۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر اسلام اسی طرح دن منانے کی اجازت دے دے تو شاید سال کو کوئی ہی دن ایسا باقی رہ جائے جس میں کوئی تاریخی واقعہ یا عظیم سانحہ رونما نا ہوا ہو اور اس طرح مسلمان سارا سال انہی تقریبات اور سوگوارایام منانے اور ان کے انتظام میں لگے رہیں گے ۔ہمارے نبی پاک ۖ ،اہل بیت ،صحابہ کرام اور سلف صالحین پرایسی ایسی مشکل گھڑیاں آئیں کہ ان کے سننے سے کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔کیا شہادت حمزہ ،شہادت عمر ،شہادت عثمان ذوالنورین،شہادت علی المرتضیٰ اور شہادت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے لرزہ خیز واقعات سننے کی تاب کسی کو ہے ؟؟تو بتائیے کس کس کا دن منایا جائے؟؟

اچھے یا برے دن منانے کی شرعی حیثیت
اسلام نے واقعات خیر و شر کو ایام کا معیار فضیلت قرار نہیں دیا بلکہ کسی مصیبت کی بنا پر زمانہ کی برائی کرنے سے منع فرمایا ہے اور قرآن مجید میں کفار کے اس فعل کی مذمت بیان کی ہے۔

ترجمعہ ؛ہمیں زمانہ کے خیرو شر سے ہلاکت پہنچتی ہے (سورہ الغاثیہ 24) اور حدیث میں ہے ؛ زمانہ کو گالی نہ دو کیونکہ برا بھلا اللہ کے ہاتھ میںہے ۔(بخاری ومسلم)
نوحہ اور ماتم۔۔۔۔بزرگان ملت کی تعلیم کے خلاف اور انکے مشن کی توہین ہے !
ہم دیکھتے ہیں یہ پاکباز ہستیاں کس طرح صبر واستقلال کا پہاڑ ثابت ہوئیں ۔انکے خلفااور ورثابھی ان کے نقش قدم پر چلے ۔نہ کسی نے آہ و فغاں کیا،نہ کسی نے انکی برسی منائینہ چہلم نہ روئے نہ پیٹے ،نہ کپڑے پھاڑے ،نہ ماتم کیااور نہ تعزیہ کا جلوس نکال کر گلی کوچوں کا دورہ کیا بلکہیہ خرافات سات آٹھ سو سال بعدتیمور لنگ بادشاہ کے دور میں شروع ہوئیں لیکن یہ سب حرکتیں اور رسوم و رواج نہ صرف روح اسلام اور ان پاکباز ہستیوں کی تلقین و ارشاد کے خلاف ہیںبلکہ ان بزرگوں کی توہین اور غیر مسلموں کیلئے استہزا کا سامان ہیں۔اسلام تو ہمیں صبرو استقامت کا درس دیتا ہے اور (صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو) کا مژدہ سناتا ہے ۔قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ ؛ترجمہ ،، وہ لوگ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم اللہ ہی کیلئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔(سورہ البقرہ ١٥٦)
نوحہ اور ماتم کی مذمت زبان رسالت سے
نوحہ اور ماتم کی مذمت کے سلسلہ میں اگرچہ قرآن کریم کی کئی آیات اور احادیث نبوی ۖ سے استدلال کیا جا سکتا ہے بلکہ شیعہ حضرات کی معتبر کتابوں سے ان کی ممانعت ثابت کی جاسکتی ہے۔

١۔نبی پاک ۖ کے پاک ارشاد کا مفہوم ہے کہ؛جو شخص رخسار پیٹے ،کپڑے پھاڑے اور جاہلیت کا واویلا کرے ،وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔(بخاری و مسلم)
٢۔ نبی اکرم حضرت محمدۖ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ ؛ جو شخص سر منڈوائے ،بلند آواز سے روئے اور کپڑے پھاڑے ،میں اس سے بیزار ہوں ۔(بخاری و مسلم)
نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسی من گھڑت بدعات ،محرم میں دور جاہلیت کی رسمیں زیادہ تر پاکستان میں ہیں یاشاید ہی کسی اور ملک میں ہوں ۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے مسلم ممالک میں ایسا کچھ بھی نہیں اورنہ ہی کسی وطنی یا غیر وطنی کو ایسی بدعات پر عمل پیرا ہونے کی اجازت ہے حالانکہ یہی لوگ صحابہ کرام اور تابعین کی اولاد میں سے ہیں انکی مساجد نمازیوں سے آباد ہیں اگر دنیاوی لحاظ سے دیکھا جائے تو بھی یہ لوگ ہم سے بہت آگے ہیں ۔آخر کیوں؟؟؟اسلامی جمہوریہ پاکستان کے علماء اور حکومت وقت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ملک میں ایسی بدعات کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے جن کا اسلام سے دور تک کوئی تعلق نہیں کیونکہ پاکستان کلمہ کے نام پہ حاصل کیا گیا خالصتاً اسلامی ملک ہے ۔اللہ تعالیٰ کے حضور دعاہے کہ تمام اہل اسلام کو کتاب و سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اتحاد و اتفاق سے زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین

Abubakar Baloch

Abubakar Baloch

تحریر: ایم ابوبکر بلوچ چوک اعظم (لیہ)