یہ بارشیں، رحمت سے زحمت کیوں بنتی جاتی ہیں

Rains

Rains

تحریر: مجید احمد جائی، ملتان
رب رحمان کا کیوں ناشکرانہ ادا کروں کہ دنیا میں کوئی بھی چیز بے کار نہیں بنائی۔ چھوٹی سی چھوٹی چیز جسے ہم اپنی ناقص عقل سے حقیر گردانتے ہیں کہیں نہ کہیں فائدہ دے جاتی ہے۔ رب رحمان ہزاروں پتھروں کے نیچے دبے کیڑے کو بھی رزق عطا کر رہا ہے اور زمین پر اکڑ اکڑ کر چلنے والے انسان کو بھی بے شمار نعمتوں، رحمتوں سے نوازتا جا رہا ہے لیکن انسان جسے اشرف المخلوقات ہونا کا شرف حاصل ہوا۔ اپنے علم کی بدولت تمام مخلوق سے افضل درجے پر فائز ہوا۔اُس کی عقل مات کھا رہی ہے۔

کہتے ہیں جیسے اس کی اوقات سے زیادہ دیا جائے تو وہ مغرور ہو جاتا ہے،تکبر ،حرص لالچ ،اس کے دل و دماغ پر حاوی ہوکرسانپ کی طرح پھن پھیلا کر بیٹھ جاتے ہیں۔۔جب تک انسان اخلاق کی دولت سے مالا مال تھا،محبتیں،پیار کی محفلیں ہوا کرتی تھیں۔لیکن جب سے انسان اپنا منصب بھول کر خدا بننے کے خواب دیکھنے لگا ہے ،پستیوں میں گِرتا چلا جا تا ہے۔اب حال یہ ہے اخلاق ناپید ہو گیا ہے۔سچ کا دور ،دور تک نام و نشان نہیں ہے۔بات بات پر گلی گلوچ کرنا ہمارا وطیرہ بن گیا ہے۔

اچھا پڑھا لکھا شخص بھی بچوں کی طرح گالی گلوچ کرتا نظر آتا ہے۔جھوٹ بولنے میں ہم نے ڈگریاں لے رکھی ہیں۔اور یہ ڈگریاں جعلی بھی نہیں ہیں۔جب سے جھوٹ سے انسان متعارف ہوا ہے چہرے سے نورانیت غائب ہو گئی ہے اور خدا کی لعنت سے چہرے بگڑے جاتے ہیں۔جھوٹ نے ہمارے دلوں پر قبضہ جما لیا ہے اور ہم سوتے جاگتے جھوٹ پہ جھوٹ بولتے جاتے ہیں۔اپنے بچوں کو بھی جھوٹ کی عادت ڈال رہے ہیں۔دُنیا میں رسوائی اور آخرت کے لئے جہنم خرید رہے ہیں۔ہمارے سرکاری،اور نجی اداروں میںصبح سے شام تک جھوٹ پہ جھوٹ بولا جاتا ہے۔جس نے زیادہ جھوٹ بولا وہی کامیاب ٹھہرا۔ہمارے علماء مدرسوں،مسجدوں میں بیٹھ کر شان و شوکت سے جھوٹ بول رہے ہیں۔

حیران کن بات تو یہ ہے کہ ہمارا کاروبار جھوٹ کے بغیرچلتا نظر نہیں آتا۔جو سچ بولے وہی فاقے کاٹے۔جیل کی ہوا کھائی،در در کی ٹھوکریں اس کا مقدر بن جائیں۔تاجر حضرات صبح و شام ،سوتے جاگتے،جھوٹ بول کر،جھوٹی قسمیں کھا کر اپنا مال فروخت کرتے ہیں۔پھر جدید ٹیکنالوجی کا غلط استعمال سیکھا لیا ہے۔موبائل پر ڈھٹائی سے جھوٹ بول کر دوسرے کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔اس طرح اشرف المخلوقات نے خود اپنے آپ سے دھوکہ کیا ہے۔نفرتوں کو ہوا دی ہے۔رنجشیں بڑائی ہیں۔افراتفری ،خون ریزی،رشوت ،ملاوٹ کو فروغ دیا ہے۔آج کوئی کام بنا رشوت کے نہیں ہوتا۔ہر چیز کامنفی استعما ل کیا جا رہا ہے۔اپنے فرض سے غفلت برتی جا رہی ہے۔۔ہم نے مثبت سمت جانے کی بجائے منفی سمت کو پکڑ کر راتوں رات بلندیوں پر پہنچنے کے خواب دیکھے لئے ہیں۔۔حالانکہ منفی سرگرمیاں،منفی سوچیں انسان کو ہمیشہ پستی کی طرف لے جاتی ہیں۔انسان کو اُجاڑ کر منوں مٹی تلے دفن کر دیتی ہیں۔

Corruption

Corruption

اب ان بارشوں کو ہی لے لیجئے۔رب رحمان نے بارشیں ہمارے لئے باعث رحمت بنا کر بھیجی،مگر ہمارے کرتوں کی وجہ سے یہی بارشیں رحمت کی بجائے زحمت بن جاتی ہیں۔ہماری سوچیں مثبت ہوتی،ہمارے کردار مثبت رُخ اختیار کرتے تو یہ بارشیں رحمت سے زحمت نہ بنتی۔یہی بارشوں کا پانی محفوظ کیا جا سکتا تھا۔لاکھوں ہزاروں کیوسک پانی ہر سال ضائع ہو جاتا ہے بلکہ ہمیں لاکھوں کا نقصا ن بھی پہنچا جاتا ہے۔

مالی نقصان کے ساتھ ساتھ جانی نقصان بھی اُٹھانا پڑتا ہے۔کیا ہم اس پانی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے۔؟ارسیٹھ سالوں سے حکومتیں ایک دوسرے کی کردار کشی کی بجائے اگر ڈیم بنانے کی طرف توجہ مرکوز کرتی تو آج پاکستان کی حالت کچھ اور ہوتی۔ہر آنے والی حکومت پانچ سال میںصرف ایک ڈیم ہی بنا جاتی تو آج ہم بجلی بنانے میں خود کفیل ہوتے بلکہ ہمارے ہاں پانی کا قحط ہی نہ پڑتا۔تھر میں پیاس سے بچے نہ مرتے۔کراچی میں مُردے نہلانے پر جھگڑے نہ ہوتے۔ہمارے کھیتوں میں فصلیں لہلہاتی ،آج ہزاروں ایکڑ اراضی ویران بنجر پڑی نہ ہوتی۔مشیعت کا پہہ جام نہ ہوتا۔مہنگائی کا جن بے قابو نہ ہوتا۔زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کرکے دُنیا کے نقشے میں سرفہرست ہوتے۔چین،جاپان روس،جیسی مملکت ہمارے سامنے زندہ مثالیں ہیں۔

آج جب ہمیں پانی کی ضرورت ہوتی ہے ہم بوند بوند کو ترستے ہیںاور جب پانی کی ضرورت نہیں ہوتی ہمارے جانور،ہمارے پیارے،ہماری بستیاں ،کھیت کھلیان طوفانی لہروں کی بھنیٹ چڑھ جاتے ہیں۔ہمارے فصلیں تباہ وبرباد ہو جاتی ہیں اور ہم ترقی کی ڈور میں بہت پیچھے چلے جاتے ہیں۔

کیا یہ ہمارے گناہوں کی سزائیں نہیں ہیں؟ہم اپنے گناہوں کا کیچڑ دوسروں پر تھوپ دیتے ہیں اور خود سرخرو ہو جاتے ہیں۔کیا ہمیں بھارت نے ڈیم بنانے سے روکا ہے۔کیا ہمیں امریکا نے کہا کہ اپنے دریائوں کے بند مضبوط نہ کرو اور اپنے عوام کو بے رحم لہروں کے حوالے کر دو۔کیا روس نے کہا کہ اپنی عوام کو ایک ایک بوند کے لئے تڑپا تڑپا کر موت کے حوالے کر دو۔نہیں نہیں ،یہ سب ہمارا ہی کیا دھرا ہے۔ہمارے کرتوں کے نتیجے ہیں۔ہم پٹری سے اُتر گئے ہیں۔ہم غلط سمت چل پڑے ہیں۔اپنا آنے کا مقصد بُھول بیٹھے ہیں۔ہمارے عقلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔پھر یہ بارشیں ہمارے لئے زحمت کیوں نہ بنیں۔ہمیں نیست و نابود کیوں نہ کریں۔ہم نے اپنی بربادی کا سامان خود ہی تیار کیا ہے۔ابھی توبہ کے دروازے کھلے ہیں ،ہم اپنے رب کی طرف رجوع کر لیں تو سرخرو ہو سکتے ہیں۔ورنہ بڑے بڑے خدائی دعوے دار ذلیل و خوار ہوئے ہیں۔

Majeed Ahmed

Majeed Ahmed

تحریر: مجید احمد جائی، ملتان

Rains

Rains