جلوسوں، دھرنوں کے فوائد اور نقصانات

PTI Protest

PTI Protest

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
لیڈران تو ہمہ قسم جدید سہولتوں سے مزین بلٹ پروف کنٹینرز سے ہی اپنے چاہنے والوں سے خطاب فرمائیں گے کہ ان کی جان ہی تودنیا میں سب سے پیاری اور ضروری چیز ہے باقی کارکنان تو کیڑے مکوڑوں کی طرح ہیں۔ان کا کام اپنے راہنمائوں کے حق میں تعریفی کلمات اور مخالفین کے لیے مغلظات استعمال کرنا ہوتا ہے۔اوئے نواز شریفا،زرداری ٹین پرسنٹ،مشرف کتیاں والی سرکار ،مولوی ڈیزل،گونواز گو،رو عمران رو، الطاف بوری بند،شجاعت مٹی پائو،ٹریکٹر ٹرالی ،فراری بس، بھٹو کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے ،سرُخیاں نوںتُن کے رکھو،جماعتیے ٹھاہ،مولوی بوتل،راجہ رینٹل،گیلانی کرامات،ایوب کتا ،یحیٰی شرابی، ضیاء کلاشنکوف جیسے توہین آمیز کلمات بکواسات آخر انہی جلوسوں ،دھرنوں،ہنگاموںمیںاستعمال ہوئے اور اب بچے بچے کی زبان پر ہیں ۔اور انٹر نیٹ کا خاص موضوع بھی۔

جہاں نت نئی اصطلاحیں ،اختراہیں گھڑی اور چلائی جارہی ہیںآخر یہ غلیظ نعرے بکواس بن کر کارکنان کے درمیان سر پھٹول کا باعث بنتے ہیں اور کئی”شہادتیں”تو ہو چکی ہیں اور باقی کی بھی تیاریاں ہی سمجھیں پہلے وقتوں میں علاقائی اور لسانی تحریکیں ابھریں اور ایسے ہی مخالفانہ نعروں سے”ترقی پذیر”ہوئیں ۔پھر فرقہ پرست تنظیموں کے کار پرداز سخت اشتعال انگیز نعرے لگایا کرتے تھے۔سبھی فرقوں نے دوسرے کو کافر کہنے میں فخر محسوس کیا۔مگر یہ سبھی تحریکیں قتل و غارت گری پر منتج ہوتی رہی ہیں۔

دراصل جلوس دھرنے ہنگاموں کی صورت اختیار کرجاتے ہیں اور لیڈروں کا ان پر کنٹرول ختم ہو جاتا ہے۔جوزیادہ سے زیادہ گری ہوئی غلیظ زبان سے مخالفین کے لَتے لے گا وہی زیادہ” پاپولر ” کہلاتا ہے اورٹی وی ٹاک شوز میں بھی اسی سے ریٹنگ بڑھتی ہے یہ ہنگامے جلوس ،توڑ پھوڑ ،گھیرائو جلائو،دھرنے آخر ہمیں کہاں لے جائیں گے؟کہاں اوائل پاکستان کے مسلمانوں کے راہنمائوں قائد اعظم ،علامہ اقبال ،خان عبدالغفار خان،چوہدری محمد علی،سید عطااللہ شاہ بخاری ،سید ابو الاعلیٰ مودودی،مولانا شاہ احمد نورانی،مولانا مفتی محمود ،مولانا ظفر احمد انصاری ،احتشام الحق تھانوی، علامہ احسان الہیٰ ظہیر، آغا شورش کاشمیری کی شیریں زبانی اور کہاں آجکل کے سیاسی زعماکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی میدان ایسے جنگلوں کا روپ دھار چکے ہیں جہاں پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔ اور ہر خونخوار درندہ آزاد پنچھی بنا ہواجسے چاہے کاٹ لے یا نگل جائے۔ہلاک کرڈالے کوئی پو چھنے والا نہیں ہوتا۔

Imran and Qadri

Imran and Qadri

لیڈر اپنی تحریکوں،پارٹیوں کے کارکنان کی تربیت اس نہج پر کر رہے ہیں کہ وہ مخالف گروپوں ،اختلاف رکھنے والے مسالک یا کسی دوسری زبان بولنے والوں کے قتل پر شادیانے بجاتے اور اندر ہی اندر بڑے فتح مند محسوس کرتے ہیں اور جب ان کے اپنے مسلک یا دوسری کسی مخالف زبان والوں کی طرف سے ا ن کا اپنا راہنما قتل کرڈالا جاتا ہے تو پھر جلسہ جلوس ،رونا پیٹنا بند ہی نہیں ہوتا اور مخالف قاتل کی جان لینے کی پلاننگیں زور شور سے شروع ہو جاتی ہیں اس طرح سے کریہہ اور غلیظ ترین گِھن چکر چلتا رہتا ہے۔غریبوں کے مسائل نے حل تو کیا ہونا ہے وہ مزید بڑھتے اور الجھے چلے جاتے ہیں اور غریب چکی کے دو پاٹوں میںمزید پستا رہتا ہے۔پانامہ لیکس کے انکشافات تو کیا ہوئے کہ بیچارے وزیر اعظم کاآپریشن بھی جعلی ٹھہرا۔اور ایک محیر العقول ڈرامے کی صورت اختیار کرتاچلا جارہا ہے۔

ان کے لیگی ساتھی راہنمائوں نے وقت نہ مل سکنے پر ایسا ٹوٹ بٹوٹ بجٹ بنا ڈالا کہ جس کا نہ سر ہے اور نہ دھڑ یا پیر۔جس سے غریبوں کی سانس رکتی اور نبض ڈو بتی ہے تاکہ غرباء جلد دنیا کوداغ مفارقت دیتے چلے جائیں اور بتدریج خاندانی منصوبہ بندی بھی ہوتی رہے ۔گدھوں کی کھالوں کی قیمتیں بڑھ جانے پر انسانوں کی کھالیں تو بہر حال مزیدمہنگی بکیں گی اور قبرستانوں کے محافظ و مجاور نئی نئی انسانی کھالوں اور کفنوں کا قبر کھدائیوںکے بعد اچھے دام پاسکیں گے ۔(کئی بیرونی ممالک میں انسانوں کی کھالوںکی بنی جوتیاںبہت قیمت پاتی ہیں۔یہ دھندا چوری چھپے جاری رہتا ہے)وزیر خزانہ خصوصی رشتہ داری کی بنا پر وزیراعظم کے گلے پڑی پانامی بلا کو ٹالنے کے لیے سرگرداں رہے۔ لا محالہ ہر سہ ماہی منی بجٹ آکر مظلوموں کا بچا کچا خون پی کر رہیں گے۔

دوسری طرف جو بیچارے مخلص کارکن یا کرایہ بھاڑا ،خرچہ لے کر ہنگامی جلوسوں ،دھرنوں میں پہنچتے ہیںاگر ان کی” شہادت “ہوگئی تو پارٹی کا نام زیادہ چمکے گا۔اور لیڈر اس بنیاد پر بھر پور سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے کو شاں رہیں گے بھلا مشتعل جلسہ جلوس کے شرکاء سے آپ کیسے یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ گالم گلوچ والی احمقانہ زبان استعمال نہ کریں گے۔اگر جلسہ جلوس والے توڑ پھوڑ نہ کریں تو کیسے خبر بنے گی”جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا”کی مانند پروگرام ہو جائے گا اس لیے اسی توڑ پھوڑ والے” نیک کام”کو کرنا بھی اشد ضروری سمجھا جاتا ہے۔سڑکیں اور خصوصاً بڑی شاہرائیں بند نہ ہوں تو کیا مزہ؟انھیں کیا؟ کہ اس طرح مسافر اور بیمار منزل مقصود تک پہنچ سکیں گے یا نہ! پھر ایسی پارٹی کے مظاہرے یا احتجاج کو کون مانے گا مخالفین تو پراپیگنڈوں کے تومار باندھ ڈالیں گے اگر یہ سب کچھ نہ کیا گیا ۔کہیں گے کہ یہ جلسہ کہاں جلسی تھی۔بندے ہی اکٹھا نہیں کرسکے۔

Labor

Labor

دوسری طرف غریب دیہاڑی دار ،ریڑھی بان ،گدھا ریڑھی والے کاروبار نہیں کرسکتے ان کا شام کو چولھاکیسے جلے گا کبھی غربت ،مہنگائی ،بے رو زگاری کے خاتمے کے لیے کوئی جلسہ جلوس دھرنا کسی لیڈر نے نہیںکیا ۔صرف یہ ہنگامہ پرور میٹنگیںمقتدر دفع دور ہو اور ہمیں تخت نصیب ہو کے لیے ہوتی ہیں۔جب محترمہ وزیر اعظم اور نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو مقابلے کے جلسوں کے لیے پورے ملک کی بسیں ویگنیں اکٹھی کرلی گئیں سرکاری خزانوں کے منہ کھل گئے۔ڈی سی او،ڈی پی او اور بیورو کریسی شکاری کتوں کی طرح بندو ںکو اکٹھا کرتے پھر رہے تھے۔ان دنوں کسی کو شادی بیاہ یا مرگ کے لیے بھی ویگن یا بس دستیاب نہ تھی شادی بیاہ پر جاتی بارات سے بھی بس خالی کرالی گئی۔جلسوں سے قبل اور بعد میں ٹریفک ایسی الجھی کہ کئی گھنٹوں دنوں تک بحالی نہ ہوسکی۔یہ ساری اقتداری کشمکش کی جنگ و جدل تھی۔کہ کس کا پلڑا بھاری ہے اور کون زیادہ پاپولر ہے جلسے جلوسوں ،ہڑتالوں ،دھرنوں،بچگانہ ضد کرنیوں سے ملکی معیشت کو اربوں روپوںکا نقصان پہنچا ہے۔

اگر مطالبات ہلہ گلہ سے ہی منوانے ہیں تو پھر جمہوریت کس اڑتی چڑیا کا نام ہے اسمبلیاں ختم کردینی چاہیں حرام کی کمائیاں خرچ کرکے جو زیادہ بندے اکٹھے کرلے تو اس کا مطالبہ مان لیا جائے۔اگر دوسرا کل کو زیادہ مال لگا کر مزید زیادہ افراد جمع کرلے تو پھر اس کی ماننی پڑے گی۔ضروری امر تو یہ ہے کہ ہمارا ملک خصوصی جغرافیائی حیثیت میں موجود ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہم ایٹمی طاقت بھی ہیں اس لیے دشمنان دین وملت قوتوں کی شدید خواہش ہے کہ سرکاری یا اپوزیشنی جلسوں میں گھس کر یا اپنے مخصوص ٹائوٹوں کے ذریعے اشتعال انگیز تقاریر کرکے یا تخریبی اختلافی نعرے لگوا کر جذبات کو شدید بھڑکایا جائے تاکہ ہر صورت ہنگامہ آرائی ہو پولیس لاٹھیوں سے سامعین کی درگت بنائے سر پھاڑے پھر کنٹرول نہ کرسکنے کی صورت میں فائرنگ کرکے جان سے مار دے تو پتہ چلے کہ جلسہ ہوا ہے۔

پھرلیڈروں کی مزید بھڑکانے والی تقاریر کہ”کارکنوں کی قربانیاں رائیگاں نہیںجائیں گے،خون کا بدلہ خون، شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے”دونوں طرف جنگ کی کیفیت پیدا کرنا ہی لیڈروں کااصل مقصودہوتا ہے۔کسی زمانے میں سلجھی باوقار تقریر پر زبردست دادملتی تھی اب بالشتیے ،مفادپرست کر پشن کنگز لیڈروں نے مزاج بگاڑ ڈالے ہیں جب تک مخالفین کے پر خچے نہ اڑیں مزا ہی نہیں آتا خدارا ان سارے غلیظ ہتھکنڈوں کو یہیں روک ڈالووگرنہ ہم ملک دشمنوں کے وار سے نہیں بچ سکیں گے۔کہ وہ یہی چاہتے ہیں کہ مسلمان مسلمان کا گلہ کاٹتا رہے اور وہ پھر خونخوار درندوں کی طرح آگے بڑھ کر ایک ہی جھٹکے میںقابض ہوکرمشتعل قوم کا گلہ دبا ڈالیں ۔بذات خود میں نے1961سے سیاسی گھوم چکریوںمیں بھاگ دوڑ شروع کی تھی کسی نے55سال مسلسل اپوزیشن میں نہیں گزارے۔میری بیان کرد ہ معروضات سے ساتھی اپوزیشن والے چیں بچیںنہ کریں اور مجھے معاف فرمائیںکہ دگرگوں معروضی حالت میںحق بیان کرنے سے باز نہیں رہ سکتاخواہ خود کو کتنا ہی سیاسی نقصان کیوں نے پہنچ جائے یا جان چلی جائے تو بھی قوم وملک کی بھلائی کے لیے یہ سودا قطعاً مہنگا نہیں۔حکمرانی وزراء بھی ہوش کے ناخن لیںزبانوں کو لگام دے کر بات کریں اور سمجھیں کہ مزیدمقتدر رہنااپنے آپ کوتختہ دار تک پہنچاڈالنے کے مترادف ہو گا۔

Ihsan Bari

Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری