ماہ رمضان کی آمد اور مہنگائی کا طوفان

Ramadan Kareem

Ramadan Kareem

تحریر : میاں نصیر احمد
رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے مسلمانوں کے لیے اس پورے مہینے میں روزے رکھنے فرض ہیں اس ماہ میں ایک رات ایسی رات ہے جس کو شب قدر کی رات کہا جاتا ہے قرآن پاک کے مطابق اس کی عبادت ہزاروں سال کی عبادت کے برابر ہے مختلف ممالک میں مسلمان اپنی حیثیت کے مطابق افطار کا اہتمام کرتے ہیں ماہ رمضان کا اہم ترین تحفہ دعا ہے قرآن مجید میں رمضان المبارک کے احکام و فضائل کو بیان کرتے ہوئے درمیان میں دعا کا ذکر کیا گیا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک اور دعا میں انتہائی گہرا ربطہ پایا جاتا ہے دعا کی مقبولیت کے قیمتی ترین لمحات اسی ماہ میں رکھے گئے ہیں رمضان شریف میں کثرت سے دعا مانگنے کی تلقین کی گئی ہے ماہ رمضان میں ایک دوسرے سے درگزر کرنا چاہیے اوردوسروں کے ساتھ حسن سلوک اوراحسان کا معاملات کرنا ضروری ہے۔

اسی طرح فقرائومساکین پر زیادہ سے زیادہ صدقہ خیرات کریںمگر ہمارے ملک میں رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ہی مہنگائی کا جن بے قابو ہو جاتا ہے رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی مہنگائی آسمان کو چھونے لگتی ہے ہمارے ملک میں رمضان المبارک سے قبل ہی گراں فروشوں نے عوام کی جیبیں کاٹنا شروع کردی ہیں اور ماہ مقدس سے قبل ہی اشیائے خوردونوش کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں نے عام آدمی کو مزید پریشانی میں مبتلا کردیا ہے شدید گرمی میں رمضان المبارک کے دوران مشروبات لوگوں کی افطاری کا لازمی حصہ ہوتا ہے مارکیٹ میں چینی کی فی کلوقیمت بڑھا دی گئی ہے۔

مہنگائی کے اس طوفان نے چنے کی دال کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس کی قیمت میں بھی اچانک اضافہ کردیا گیا ہے ملک بھر میں اشیا ئے صرف کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کردیا گیا ہے اور ہر سال کی طرح اس سال بھی مہنگائی میں مزید اضافے کا خدشہ ہے رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آ جاتاہے رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی مہنگائی کے ستائے شہریوں کو سحر و افطار کی فکر ستانے لگتی ہے کیونکہ مہنگائی کا جن بے قابو اور ناجائز منافع خور ایک بار پھر سرگرم ہو چکے ہیں دوکاندار شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں اور پرائس کنٹرول کمیٹیاں کہیں کارروائی کرتی دکھائی نہیں دیتی۔

Fruits Buying

Fruits Buying

ذرائع کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ بھی گراں فروشوں کو نکیل ڈالنے میں ناکام رہی ہے جس کے باعث سبزی و فروٹ سمیت دیگر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں خوفناک اضافے نے گڈ گورننس پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ مارکیٹ کمیٹی کے افسران اور پرائس کنٹرول مجسٹریٹس نرخنامے چیک کرنے کے بجائے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے رہتے ہیں اور یو ں ناجائز منافع خوروں ،ذخیرہ اندوزوں اور ملاوٹ مافیا نے رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی آلو ،لہسن، ادرک اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کرکے شہریوں کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں 50 سے100 فیصد تک اضافہ ہوجاتا ہے کھجور کی قیمت بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہے ماہ رمضان میں کھجور سے روزہ افطار کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اکثر روزہ دار بالخصوص افطاری میں کھجور کا استعمال کرتے ہیںہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سنت کے پیش نظر رمضان المبارک میں کھجور کے نرخ کم کردیے جاتے، لیکن کھجور کی قیمت میں سو گنا اضافہ کردیا گیا ہے رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے میں اب کھجور بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے دالیں، چینی، مرغی، چھوٹا اوربڑا گوشت، چائے کی پتی، دودھ، انڈے مشروبات چاول گھی بیسن آٹاسبزی، فروٹ اور ہر قسم کی ضروریات زندگی مہنگے داموں فروخت کرنا شروع کردی گئی ہے۔

دوسری جانب اس مہنگائی میں مزید اضافہ کرنے کے لیے ذخیرہ اندوز بھی متحرک ہوگئے ہیںذخیرہ اندوزوں نے رمضان المبارک کے آگے بڑھنے کے ساتھ مزید مہنگائی کرنے کا منصوبہ کی تیار ی شروع کر دی ہے مصنوعی قلت پیدا کرکے خفیہ گوداموں میں اشیائے ضروریہ کئی دن پہلے ہی سے اسٹاک کرنا شروع کردی جاتی ہے چھوٹی بڑی مارکیٹوں اور نام نہاد ہفتہ بازاروں میں ضروریات زندگی کی تمام چیزوں کو بھی ذخیرہ کیا جاتاہے تاکہ اشیاء ضروریہ کی قلت پیدا کرکے اسے مہنگے داموں فروخت کیا جاسکے اس صورتحال سے اشیاء خورونوش کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، جو کہ ابھی مزید بڑھنے کا احتمال ہے آڑھتیوں نے سبزیوں پھلوں سمیت متعدد اشیا کو ذخیرہ کرکے گوداموں میں رکھا ہوا ہے۔

Inflation

Inflation

قیمتوں میں از خود اضافہ کے لیے کئی اہم سبزیوں کو منڈی سے غائب کیا جاچکا ہے مہنگائی بڑھانے کے لیے آڑھتیوں کی جانب سے کسانوں کو متعدد سبزیوں کی خریداری کے لیے ایڈوانس میں رقم ادا کردی جاتی ہے تاکہ صرف 30 فیصد مال سبزی منڈی پہنچ جبکہ باقی 70 فیصد مال کو گوداموں میں ذخیرہ کرلیا جائے ماہ رمضان میں حکومت بڑے بڑے دعوے کو کرتی ہے کہ اشیا کی قمیتوں میں کمی کردی گئی ہے لیکن غیر مناسب پالیسی اور مارکیٹ میں اشیا کی عد دستیابی سے قمیتوں کا سارا بوجھ بیچاری عوام کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے اس کے ساتھ ساتھ منافع خور دل میں ہمدردی کے جذبے کو ختم کر کے لوگوں کے خریدنے کی قوت ختم کر دیتے ہیں جس سے غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والی عوام پیٹ بھر کا دو وقت کا کھانا بھی نہیں کھا سکتی اور ذخیرہ اندوز ماہ رمضان میں پورے سال کا منافع ایک ہی باری میں پورا کر لیتے ہیں۔

یہاں پر بڑی غور طلب بات یہ ہے جہاں حکومت رمضان میں لاکھوں روپے کی سبسڈی دیتی ہے وہاں اس کا چیک اینڈ بیلنس بھی تو ہونا ضروری ہے کہ عوام کو اس سبسڈی کا براہ راست کوئی فائدہ بھی ہو رہا ہے یا نہیں اس کے علاوہ روز مرہ کے استعمال ہونے والی اشیا پر ٹیکس کی چھوٹ ہونی چاہیے اگر حکومت واقعی مہنگائی کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے تو اسے ذخیرہ اندوزوں کو لگام ڈالنی چاہئے تاکہ غریب عوام بھی پیٹ بھر کر کھانا سکیں اور ہم بھی ماہ رمضان کے مقام اس کی عظمت، اس کی فضیلت،اس کے مقصد اوراس کے پیغام کو اپنے ذہن میں تازہ کریں تاکہ اس کی برکات سے بھرپور فائدہ اٹھاسکیں۔

اس بات کا پختہ ارادہ کریں کہ ہم اس ماہ مبارک میں اپنے اندر تقوی کی صفت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جو روزہ کا مقصد ہے میں اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ وہ ہم سب کو اعمال صالحہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اورصحیح معنی میں روزہ رکھنے کی توفیق دے، آمین یا ربالعالمین۔

Mian Naseer Ahmad

Mian Naseer Ahmad

تحریر : میاں نصیر احمد