سندھ حکومت اور وفاق آمنے سامنے

Rangers

Rangers

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
اِس سے انکار نہیں ہے کہ ہمارے معاشرے میں برائی کی سب سے بڑی وجہ ” ام البرائی کرپشن“ہے آج جس نے ہمارے ہر اقسام ایوانوں میں پروش پائی اور آ ج یہ نوبت آگئی ہے کہ یہ ہمارے معاشرے میں ایسی اہمیت اختیار چکی ہے کہ جیسے اِنسان کو زندہ رہنے کے لئے خون اور آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے یکدم ایسے ہی ” ام البرائی کرپشن“ نے بھی ہمارے معاشرے میں درجہ پالیا ہے آج اگر اِس برائی کے خلاف اور اِسے جڑ سے ختم کرنے کے لئے بھی رینجرز آپریشن کررہی ہے تو پھر رینجرز کو اِس اچھے اور بھلے کام سے روکنے کے لئے اِس کے سامنے سندھ حکومت کیوں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہوگئی ہے..؟؟ اور سندھ میں کرپٹ عناصر کو بچانے کے لئے رینجرز کے خصوصی اختیارات کے توسیع کے معاملے کو الجھا رہی ہے۔

اگرچہ سندھ میں رینجرز کو دیئے گئے خصوصی اختیارات کی مدت کو ختم ہوئے آج 8دن سے بھی زائد کا عرصہ گزرچکاہے مگر سندھ حکومت ہے کہ وہ اَب سندھ میں رینجرز کو خصوصی اختیارات دینے سے ہیچر میچر کا شکار دِکھائی دیتی ہے اور طرح طرح کے خودساخستہ مخمصوں اور خدشات میں محض اِس لئے مبتلاہے کہ رینجرز نے اپنے خصوصی اختیارات کے استعال سے تجاوز کیا ہے اور اِسے سندھ حکومت نے جو کام کرنے کے لئے اختیارات تقویض کئے تھے وہ اِن سے بہت آگے نکل کروہ کام بھی کررہی ہے جو اِسے نہیں کرنے چاہئے تھے آج جس پر سندھ حکومت سیخ پا ہے۔

اِس بنا پر سندھ حکومت کو بے شمار ایسے تحفظات ہیںکہ آج جن کی وجہ سے سندھ حکومت 5دسمبر 2015 کو رینجرز کے خصوصی اختیارات ختم ہونے کے بعد دوبارہ اِس کی توسیع کے معاملے میں بغلیں جھانک رہی ہے اور کنی کٹاکر نکل بھاگنا چاہتی ہے اِسی لئے اَب اِس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ رینجرز کو دینے جانے والے اختیارات کی منظوری کے معاملے کو سندھ اسمبلی میں لایاجائے اور یہاں اِسے اتنی طویل دی جائے کہ یہ معاملہ خود بخودگھٹائی میں پڑجائے اور اتنا دبتاچلاجائے کہ پھر اِسے اُٹھانے اور نکالنے کے لئے ہفتوں، مہینوںاور سال لگ جائیںمگر پھر بھی یہ معاملہ سر نہ اُٹھائے۔

 Sindh Government

Sindh Government

آج سندھ حکومت کا رینجرز کے اختیارات میں توسیع نہ کرنے کا معاملہ یقینا نہ صرف سندھ کے شہریوں اور تاجربرادری بلکہ وفاق کے لئے بھی حیرت انگیز اور باعثِ تشویش بن چکاہے اور وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا سندھ حکومت اور وفاق کی ایک دوسرے پر اعتماد کی کمی ہے..؟؟ یا سندھ حکومت حقیقی معنوں میں صوبائی اداروں میں بیٹھے اپنے بہت سے ایسے کرپٹ عناصر کو بچانے کے لئے نکل کھڑی ہوئی ہے جن کے تانے بانے اور ڈانڈے سندھ حکومت سے ملتے ہیں اور یوں دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم وملزم ہیں اور آج جنہیں بچانے کے خاطر سندھ کے وزیراعلی ٰ سید قائم علی شاہ فرنٹ لائن پر آن کھڑے ہوئے ہیں اور ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ بس کسی بھی طرح سے سندھ میں دوبارہ رینجرز کو خصوصی اختیارات نہ دیئے جائیں جس کے لئے اِدھر یہ دبئی میں بیٹھی اپنے قیادت سے مسلسل رابطے میں ہیں۔

اِن سے ملنے والی ہدایات پر من وعن عمل پیراہیں اور سندھ میں رینجرز اختیارات کے معاملے ہچکچاہٹ کا مظاہر ہ کررہے ہیںجن کے رویوں سے یوں لگتا ہے کہ جیسے اَب سندھ اور وفاقی حکومتیں دونوں ہی سینہ چوڑا کرکے اور آستینیں چڑھا کر آمنے سامنے کھڑی ہوگئی ہیں۔

اِس منظر اور پس منظر میں آج کو ن ایسا محب وطن پاکستانی ہوگا جو یہ نہیں چاہئے گا کہ کراچی جیسے مُلک کے معاشی حب میں امن و سکون قائم ہواورکرپشن سمیت دہشت گردی،ٹارگٹ کلنگ ،اغواءبرائے تاوان اور بھتہ خوری جیسے تمام سنگین جرائم کا خاتمہ ہوجس سے کراچی میں نہ صرف دائمی امن و سکون قائم ہواور شہرِ کراچی مُلک کی ترقی و خوشحالی کے لئے اپنا مثبت اور تعمیری کردار ادا کرے بلکہ یہاں ہونے والی بیرونی سرمایہ کاری سے بھی شہرِ کراچی ساری دنیاکے لئے ایک عظیم معاشی حب کا درجہ حاصل کرلے۔مگر شائد اَب کراچی اور سندھ کے امن پسند عوام کے لئے ایسا ہونا ایک خواب سا لگتاہے کیوں کے سندھ حکومت رینجرز کو خصوصی اختیارات نہ دے کر یہ نہیں چاہتی ہے کہ سندھ کی سرزمین کرپشن سمیت اور دیگر جرائم میں ملوث کلنگ کا ٹیکہ بنے عناصر سے پاک ہو۔

چلیں ..!! آج کراچی میں امن کے قیام کے لئے جاری آپریشن سے متعلق و ہ سارے حکومتی دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے جب آٹھ روز گزرنے کے بعد بھی سندھ حکومت نے رینجرز کے اختیارات میں توسیع دینے کے معاملے کو اُلجھانے کے لئے سیاسی حربے بازیاں شروع کردیں اور اَب ایسا لگ رہاہے کہ جیسے لو ہوگئی بات ختم …اور ہوگیا سب کچھ ٹائیں ٹائیں فش !!…. جیسا کہ پچھلے دنوں محکمہ انسداد کرپشن کی جانب سے وزیراعلیٰ ہاو ¿س میں منعقدہ ایک سیمینار سے اپنے خطاب کے دوران وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے سندھ میں رینجرز کے خصوصی اختیارات دیئے جانے کے معاملے پر بلاجھجک اور دوٹوک انداز سے یہ کہہ دیا کہ”کرپشن نئی بات نہیں یہ تو لیاقت علی خان کے زمانے سے شروع ہوئی تھی اور مارشل لاءدورمیںپروان چڑھی کرپشن صوبائی معاملہ ہے اور اِس کے ساتھ ہی اِن کا یہ بھی کہناتھا کہ لیکن تین سے چار وفاقی ایجنسیاں ہم سے لڑرہی ہیں وفاق اِس معاملے میں اِس وقت مداخلت کرے جب وہ خود کرپشن سے پاک ہو۔

Qaim Ali Shah

Qaim Ali Shah

اِس موقع پر اِنہوں نے اپنے مخصوص انداز سے یہ بھی کہاکہ آج بھی کہتاہوں کہ وفاق نے سندھ پر حملہ کررکھاہے حالانکہ بدعنوانی کے خاتمے کے لئے سندھ میں انٹی کرپشن کا محکمہ موجود ہے ، ایف آئی اے اور نیپ کے روز روز چھاپوں سے صوبائی حکومتی مشینری کی کارکردگی متاثرہورہی ہے اور اِس کے ساتھ ہی اِن یہ بھی کہناتھا کہ ایف آئی اے اپنے دائرے میں رہے،سندھ میںکرپشن کی کمی آئی ہے ہم نے تو رینجرز کو دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اغوابرائے تاوان اور بھتہ خوری جیسے چارسنگین جرائم کی سرکوبی کے لئے بلایا مگر وہ کرپشن کیسز میں گھس گئے اِن کا کہناتھاکہ کرپشن وسیع اصطلاح ہے۔“

اگرچہ اپنے خطاب نے شاہ جی نے بہت کچھ کہا تھامگر میں یہاں صرف اِن کے کہے ہوئے چند جملوں کو ہی زیربحث لاناچاہوں گاجیساکہ آج کئی برس گزرجانے کے بعد وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ صاحب نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ” کرپشن کوئی نئی بات نہیںیہ تو لیاقت علی خان کے زمانے سے شروع ہوئی تھی“ یہ وہ جملہ ہے آج جِسے ساری پاکستانی قوم نے اِن کی زبانی پہلی بار سُنا اور پڑھاکہ کرپشن لیاقت علی خان کے زمانے سے شروع ہوئی ہے(ایسا لگا کہ جیسے وہ یہ کہنا چاہ رہے ہوں کہ آج اگر یہ کررہے ہیںتو کیا ہوا..؟؟) اَب ذراکسی موقع پر شاہ جی اِس کی بھی تفصیل قوم کو بتادیں کہ لیاقت علی خان کے زمانے میں کونسی اور کیسی کرپشن شروع ہوئی ہے..؟ تو بہت اچھاہوگاورنہ شاہ جی نے تو رینجرز اختیارات کے معاملے کو اُلجھانے کے لئے ایک نئی بحث مُلک میںچھیڑ دی ہے۔

بہرحال ..!! وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے اپنے اِسی خطاب میں واضح طور پریہ بھی کہاکہ ”ہم نے سندھ میںرینجرزکو اِس لئے بلایا تھاکہ وہ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ ، اغوابرائے تاوان اور بھتہ خوری جیسے چار سنگین جرائم میں ملوث عناصر(جب وہ یہ جملہ کہہ رہے تھے تو تب راقم الحرف کو ایسا لگا جیسے کہ وہ یہ کہناچاہ رہے تھے کہ رینجرز صرف چارسنگین جرائم میں ملوث عناصر یعنی کہ حشرات الارض غربت اور مجبوری کی وجہ سے جرائم کرنے والوں) کی ہی سرکوبی کرے (سندھ کے وزیروں ، وڈیروں ، اور اِن کی جماعت سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ و ادنا سیاستدانوں اور کارکنوں اور سندھ کے اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز اِن کے لوگوں اوربیوروکریٹس کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہ کرے چاہے وہ کچھ بھی غلط کریں )مگر اِن کے نزدیک جیسے رینجرز نے توآپریشن کا رخ کرپشن کیسزمیں ملوث معتبر اور باعزت اِنسانوں اور اِن لوگوں کی جانب ہی کردیاہے جس پر اِن کے تحفظات ہیں اور اَب وہ اُس وقت تک سندھ میں رینجرز کو خصوصی اختیارات دینے کے حق میں نہیں ہیں۔

جب تک وہ خود کو وہ ہی کام(دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اغوابرائے تاوان اور بھتہ خوری کرنے والے عناصر (حشرات الارض ) کو مارنے اور سزا دینے اور اِن کا قلع قمع کرنے کاپابند نہ کرلے رینجرز کو خصوصی اختیارات نہیں دیئے جائیں گے اور اگر بالفرض وہ کرپشن میں ملوث کسی معتبر اور باعزت اِن کے کسی اِنسان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کا ارادہ کرے تو پہلے سندھ کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اِنہیں ضرورپیشگی اطلاع دے اگر وہ ایسا کرتی ہے تو ٹھیک اگروہ ایسا نہیں کرے گی تو پھر جب تک اِن کی اجازت نہ ہو وہ اِن کے آرتھوپیڈک ڈاکٹرعاصم حسین( جو کبھی ڈاکٹر ہونے کے ناطے لوگوں کی ہڈیاں جوڑاکرتے تھے آج وہ کرپشن کیسز میں زیرحراست ہیں اور روزروز کے ریمانڈ پر اپنی ہڈیاں تو تڑوارہے ہیں مگر وہ حق و سچ بتاکر اپنی جان نہیں چھڑارہے ہیں جو اِن سے قانون نافذ کرنے والے ادارے کئی ماہ سے اگلوانے کی شروع دن سے ہی کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں) جیسے کرپشن میں ملوث اِن کی جماعت کے کسی بھلے اور باعزت انسان کے خلاف محض کرپشن کی آڑمیں کسی قسم کی کارروائی نہ کرنے کی پابند نہ ہوجائے۔

اب یہ کہاں کاانصاف اور کون سا قانون ہے..؟؟ کہ ایک طرف تو سندھ حکومت کرپشن کو برابھی سمجھتی ہے مگر دوسری طرف کرپشن میں ملوث اپنے لوگوں کاقلع قمع کرنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے رینجرز جیسے قومی اداروں کو خصوصی اختیارات دینے کے لئے بھی ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے اَب ایسے میں کیا عوام الناس کے ذہنوں میں یہ سوال بھی پیدانہ ہو کہ کیامحض کرپٹ عناصرکو بچانے کے لئے سندھ حکومت کارنیجرز اختیارات میں توسیع نہ کرنابھی انتظامی دہشت گردی نہیں ہے…؟؟

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com