رانسم وئیر سے بچیے

Cyber Attack

Cyber Attack

تحریر : علی عبداللہ
ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی ترقی کے ساتھ ہی سائبر حملوں کے واقعات میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے _ ہیکرز مختلف طریقوں سے کمپنیوں اور دیگر صارفین کو مشکلات سے دوچار کرتے نظر آتے ہیں لیکن جمعے کے روز ہونے والے ایک سائبر حملے نے آدھی سے زیادہ دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے _ تاریخ کے اس بدترین سائبر حملے نے دنیا کے تقریباً سو ممالک کے مختلف اداروں کو نشانہ بنایا ہے _ ان ممالک میں روس, چین, جرمنی, انڈیا, برطانیہ اور سپین سمیت کئی دیگر ممالک کے ادارے شامل ہیں _ رانسم وئیر کے اس حملے میں wanna cry یا wcry نامی مخصوص رانسم وئیر کو تاریخ کا سب سے خطرناک سائیبر حملہ تصور کیا جا رہا ہے _ مشہور کمپنی ایواسٹ کے مطابق انھیں جمعہ کے روز 57000 سے زیادہ بار اس رانسم وئیر کی رپورٹ ہوئی۔

برطانیہ کے مختلف اداروں سمیت سب سے زیادہ نیشنل ہیلتھ کئیر سسٹم اس سے متاثر ہوئے ہیں جس میں بارٹس ہیلتھ گروپ بھی شامل ہے جو لندن کے کئی ہسپتالوں کو سروسز مہیا کرتا ہے _ اس حملے سے ہسپتالوں میں ایکس رے , پیتھالوجی ٹیسٹ, فون سسٹم اور دیگر مریضوں سے متعلق کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا متاثر ہوا ہے _ اسی طرح سپین کی مشہور ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ٹیلیفونیکا اس حملے سے بری طرح متاثر ہوئی ہے اور کمپنی کے کئی کمپیوٹرز بلاک ہو چکے ہیں _ چائینیز حکام کے مطابق اس سائبر حملے نے کئی یونیورسٹیوں اور طلبا کے ڈیٹا کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں میں داخلہ کرنے والے سسٹم کو نقصان پہنچایا ہے _ روس کی وزارت داخلہ کے کمپیوٹرز کو بلاک کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر کئی ممالک میں تہلکہ مچانے والے اس حملے نے عام صارفین کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے _ عام صارفین کو اس سے زیادہ خطرہ نہیں ہوتا کیونکہ یہ حملہ عموماً کمپینیوں اور کاروباری اداروں پر کیا جاتا ہے لیکن ایک عام صارف اگر غلطی سے ایسے کسی لنک پر کلک کر دے تو اس کا کمپیوٹر بھی مکمل بلاک ہو سکتا ہے۔

رانسم ویئر کا آغاز 2005 میں امریکہ سے ہوا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ پوری دنیا میں پھیل گیا _ رانسم وئیر سائبر حملوں کی ایک ایسی قسم ہے جس میں ہیکرز مختلف کمپینیوں کے نیٹ ورک تک رسائی حاصل کر کے ان کے تمام کمپیوٹرز کو بلاک کر دیتے ہیں یعنی ان کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں _ اس طرح ان کمپیوٹرز میں موجود ڈیٹا مکمل طور پر صارفین کے لیے بلاک ہو جاتا ہے _ اس مواد تک رسائی دینے کے بدلے ہیکرز کچھ رقم کا مطالبہ کرتے ہیں جو بٹ کوائن کی شکل میں ادا کرنی ہوتی ہے _ ہیکرز اس حملے میں ای میل یا ویب سائٹ کے ذریعے ایک مخصوص سافٹ وئیر کا استعمال کرتے ہیں جوایک لنک کی شکل میں موجود ہوتا ہے اور جیسے ہی اس پر کلک کیا جاتا ہے ہیکرز اس کمپیوٹر تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں _ رانسم وئیر کے اس تازہ ترین حملے میں بلاک ہونے والے کمپیوٹرز پر سوائے ہیکرز کی ہدایات کے اور کچھ ظاہر نہیں ہوتا اور جب تک طلب کی گئی رقم وصول نہ ہو جائے ہیکرز ان کمپیوٹرز کو بلاک اور ڈیٹا کو ڈیلیٹ کر دینے کی دھمکیاں بھیجتے رہتے ہیں۔

رانسم وئیر سے بچاؤ کیسے ممکن ہے ؟ گو کہ ہیکرز اس حملے کے لیے نت نئے طریقے اپناتے ہیں لیکن کچھ ہدایات پر عمل کرنے سے صارفین اس سے بچ سکتے ہیں _ سب سے پہلا کام یہ کریں کہ آپ کے تمام ڈیٹا کا مکمل بیک اپ موجود ہونا چاہیے تاکہ اگر آپ کا کمپیوٹر ہیک ہو بھی جائے تو آپ کو کسی نقصان کا اندیشہ نہ ہو _ سب سے زیادہ وائرس ای میل اور غیر معروف ویب سائٹ لنک کے ذریعے آپ کے کمپیوٹرز میں آتے ہیں ہیں لہٰذا کسی بھی لنک پہ کلک کرنے کی بجائے مکمل ویب ایڈریس دیا جائے تاکہ براہ راست آپ اس ویب سائٹ تک رسائی حاصل کر سکیں ۔ اپنے کمپیوٹر میں موجود اینٹی وائرس کو اپ ٹو ڈیٹ رکھیں اور ساتھ ساتھ ونڈوز اپ ڈیٹس کو بھی انسٹال کریں۔

مارچ کے مہینے میں ہی مائکروسوفٹ نے اپنے صارفین کے لیے ایک سیکورٹی اپ ڈیٹ لانچ کیا تھا جس کا مقصد پرانے آپریٹنگ سسٹمز کی سیکورٹی کو بہتر بنانا تھا _ رانسم وئیر عموماً 400 پاؤنڈ تک کی رقم طلب کرتا ہے لیکن گذشتہ سال لاس اینجلس کے ایک ہسپتال کو اس حملے میں 17000 ڈالرز دینے کے بعد کمپیوٹرز تک رسائی دی گئی تھی _ یہ ساری رقم ڈیجیٹل کرنسی بٹ کوائن میں وصول کی جاتی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بٹ کوائن کسی بھی قسم کی شناخت سے عاری ہوتی ہے _ لیکن یاد رکھیں رقم دینے کے بعد بھی آپکو کوئی گارنٹی نہیں دی جاتی کہ ڈیٹا تک رسائی ملے گی یا نہیں, لہٰذا ماہرین کے مطابق کبھی بھی طلب کی گئی رقم نہ بھیجیں بلکہ اپنے ڈیٹا کا بیک اپ ری سٹور کریں یا کوئی ایسا پروگرام تلاش کریں جو انکرپٹڈ یعنی لاک کیے گئے ڈیٹا کو ڈی کرپٹ کر سکے۔

سائبر حملوں کا چونکہ کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہوتا لہٰذا بہتر یہ ہے کہ ہمیشہ اپنی نیٹ ورک سیکورٹی کو مضبوط بنائیں اور مشکوک ای میلز, ویب لنکس اور دیگر غیر معروف ڈاؤنلوڈز سے پرہیز کریں۔

Ali Abdullah

Ali Abdullah

تحریر : علی عبداللہ