پھر کیا کوئی ہے نصیحت قبول کرنے والا

Corruption

Corruption

تحریر : میر افسر امان
یہ قرآن شریف کی آیات کا ایک حصہ ہے جس میں قرآن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ”ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا ہے پھر کیا کوئی ہے نصیحت قبول کرنے والا؟(القمر آیات۔١٧) قرآن کے احکامات کے تحت اس آسان نصیحت کو سمجھنے کے لیے اور قرآن شریف سیکھنے کے لیے جماعت اسلامی اسلام آباد آئی ٹیں فور کی دو یوسیز کے حضرات کے لیے٥،٦،٧ مئی ٢٠١٧ء تین روزہ فہم قران کلاس کے نام سے چنبیلی روڈ آئی ٹین مرکز کے قریب رکھا گیا تھا۔یہ پروگرام نماز عشا کے بعد١٥:٩بجے شروع ہوتا تھا جس میں کافی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔یہ پروگرام جماعت اسلامی پاکستان کے چو مکھی پروگرام تتہیر افکار،تعمیر افکار،صالح افراد کی تلاش اور نظم حکومت کی تبدیلی کے ایک حصہ کے مطابق ترتیب دیا گیا تھا۔اس کے مقرر معروف عالم دین مولانا امیر عثمان صاحب تھے۔پروگرام کے شروع میںپہلے روزنہ درس حدیث دیا جاتا تھا۔ جس میں مقررصہیب قرنی صاحب قرآن شریف کی تلاوت کرنے ،اس کو سمجھنے ،ا س پر عمل کرنے اور اس کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانے کے متعلق حدیث شریف سنائی پھر اس کی مفصل تشریع بیان کی جاتی رہی۔اس طرح یہ پروگرام قرآن اور حدیث پر مشتمل تھا۔ قرآن شریف کو سمجھنے کے لیے حدیث کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔ نہ قرآن حدیث کے بغیر سمجھ آ سکتا ہے اور نہ ہی حدیث قرآن کے بغیر سمجھ آ سکتی ہے۔ قرآن اللہ تعالیٰ کا پیغام ہے جو رسول ۖ اللہ پر جبرائیل کے ذریعے اتارا گیا۔رسول ۖ اللہ نے قرآن لوگوں کو پڑھ کر سنایا۔ پھر رسولۖ اللہ نے اپنے قول، فعل اور عمل کے ذریعے لوگوں تک جو تعلیمات پہنچائی اس کو حدیثِ رسولۖ اللہ کہتے ہیں۔

اللہ بھلا کرے جماعت اسلامی آئی ٹین کے ذمہ داران کا جنہوں نے اس پروگرام کو مفاد عامہ کے لیے ترتیب دیا ۔ ہم بھی اس قرآن کلاس میں ایک طالب علم کی حیثیت سے باقاعدگی سے مقررہ وقت پر تین دن شریک ہوتے رہے۔کیونکہ ہم ایک صحافی ہیں لہٰذا ہم نے اس تین روزہ فہم کلاس قرآن پروگرام کی کاروائی کو زیر قلم لا کر آپ حضرات تک پیش کر رہے ہیں تاکہ ہم بھی اس نیک کام میں شریک ہو جائیں اور اپنے اللہ سے اجر کی توقع رکھیں جو اپنے بندوں کے چھوٹے چھوٹے نیک کاموں کی بھی قدر کرتاہے۔صاحبو! پہلے دن کے لیے قرآن شریف کی سورہ یونس ٥٧،٥٨،سورہ طٰہٰ کی آیات ١٢٤،١٢٥ اور ٢٦ ا کا انتخاب کیا گیا تھا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا اس کی تشریع اس طرح کی گئی کہ لوگوتمہارے پاس رب کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی بیماریوں کی شفا اور مومنوں کے لیے ہدایات اور رحمت آپہنچی ہے۔

اس نصیحت پر عمل کرو تو جو تمہارے دلوں میں شرک کی بیماری جو داخل ہو چکی ہے وہ ختم ہو سکتی ہے۔ جس وقت یہ آیت اتری تھیں تو اس وقت لوگ شرک کی بیماری میں مبتلا تھے۔ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ رسولۖ اللہ نے ان کو قرآن سنا کر توحید پر عمل کرنا سیکھایا۔ جو لوگ ایمان لے آئے تھے ان کو کہا گیا کہ یہ قرآن ان کے لیے ہدایات ہے۔ یہ قرآن اس سے بہتر ہے جو لوگ جمع کرتے ہیں۔ ہر دور کا انسان نے اپنی آسائش کے لیے دولت جمع کرنے کی دوڑ میں شریک ہوتا رہا ہے۔ آ ج کا انسان بھی ہر وقت کمانے کی فکر میں لگا ہوا ہے چاہے وہ ہلال طریقے سے کما رہا ہے یا حرام طریقے سے۔ اس سے ملک میں کرپشن عام ہو گئی ہے۔ یہ قرآن کی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہے۔ قرآن انسان کو صرف حلال طریقے سے کمانے کی طرف بلاتاہے۔ قرآن کی آیت ١٢٤،١٢٥،١٢٦ سورہ طٰہٰ کی تشریع کرتے ہوئے مولانا صاحب نے کہا کہ جو قرآن کے احکامات سے منہ موڑے گا اللہ اس کی دنیا میں تنگ زندگی کرتا ہے اور قیامت کے روز اس کواندھا اُٹھایا جائے گا۔ وہ کہے گا پروردگار ، دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا جہاں مجھے اندھا کیوں اُٹھایا تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ دنیا میں جب میری آیات تیرے سامنے آئی تھیں تو نے ان کو بھلا دیا تھا اسی طرح آج تو بھلایا جا رہا ہے۔ان آیات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اللہ کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے۔

گزشتہ قوموں کے انجام سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہم اس دنیا میں جو بھی عمل کریں گے اس کا نتیجہ آخرت میں نکلنا ہے۔ دوسرے دن کے درس میں سورہ ہود کی آیات٨٤ تا٩٥ کا انتخاب کیا گیا تھا۔اس سورہ کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ صحابہ نے رسولۖاللہ کو دیکھا اور کہا کہ آپ بوڑھے ہوتے جارہے ہیں۔ اللہ کے رسولۖ نے کہا کہ ہاںمجھے سورہ ہود اور اس جیسی سورتوں نے بوڑھا کر دیا ہے۔ اس سے اندازا کیا جا سکتا ہے کہ قرآن کی یہ سورہ مسلمانوں میں کتنی اہمیت ہے۔ان آیات کی تشریع کرتے ہوئے مقرر نے کہا کہ مدین والوں کی طرف حضرت شعیب کو بھیجا گیا تھا۔ وہ لوگ تجارتی شاہراہ پر آباد تھے۔ وہ لوگ ناپ تول میں کمی کر کے لو گوں کو دھوکا دیتے تھے۔ شعیب نے ان سے کہا کہ اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں۔ تمہارے لیے اللہ کافی ہے۔ یعنی جو روزی اللہ نے ہلال طریقے سے تمہاری قسمت میں لکھ دی ہے اس پر بروصہ کرو اور لوگوں کو دھوکا نہ دو اس سے فساد پھیلاتا ہے۔

میں دیکھ رہا ہوں کہیں تم پراللہ کا عذاب نہ نازل ہو جائے۔ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا کہ تمہاری نماز تمہیں یہ سیکھاتی ہے کہ ہم اس سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا پرستش کرتے رہے ہیں۔حضرت شعیب نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہامیںخود کھلی شہادت پر تھا اللہ نے مجھے اچھا رزق بھی عطا کیا۔ میںخود بھی نیکی پر قائم ہوں اور تمہیں بھی نیکی کی نصیحت کرتا ہوں۔ میں اصلاح کرنا چاہتا ہوں۔تمہاری ہٹ دھرمی سے کہیں تم پربھی وہی عذاب نہ آجائے جو نوح یا ہود یا صالح کی قوم پرآیاتھا اور لوط کی قوم تو تمہارے سے کچھ دور نہیں۔ اللہ سے معافی مانگو اس کی طرف پلٹ آئو۔ شعیب کی قوم نے جواب دیا تیری بہت سے باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں۔آخر کار جب اللہ کے فیصلے کا وقت آگیا تو اللہ نے شعیب اور اس کے ساتھی مومنوں کو بچا لیا۔جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ایک سخت دھماکے نے ایسا پکڑا کہ وہ اپنی بستیوں میں بے حس پڑے کے پڑے رہ گئے جیسے وہ وہاں بسے ہی نہیں تھے۔صاحبو! کیا آج مسلمان کاروبار میں دھوکا،معامعلات میں کرپشن اورکھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کی بیماری میں ملوث نہیں۔ کیا ہمیں اللہ سے معافی مانگ کر اپنی اصلاح نہیں کرنی چاہیے۔جو رزق اللہ نے ہماری قسمت میں لکھ دیا ہے اس پر قناعت نہیں کرنی چاہیے۔ تیسرے دن کے درس میں مولانا صاحب نے قرآن کی سورہ الاعراف ١٦٥ سے ١٦٦ تک کا انتخاب کیا تھا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے متعلق فرمایا کہ امتحان کی غرض سے ان کو ہفتہ کے دن کوئی بھی کاروبار کرنے سے منع کیا گیا تھا۔

ایک لب دریا بستی کا ذکر ہے اس کو ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کیا تھا مگر انہوں نے اللہ کے احکامات کو ایک طرف رکھ کر اللہ کی حکم عدولی کرتے رہے۔جو لوگ برائی سے منع کرتے تھے اللہ نے ان کو نجات دی۔ حکم عدولی کرنے والوں کو حکم دیا کہ ذلیل بندر بن جائو۔ مدرس نے قرآن کے ان احکامات جو اس سے قبل قوموں کے زمانے میں گزرے ہیںموجودہ حالات پر منضبط کرتے ہوئے کہا کہ ہم اللہ کے کتنے احکامات کی حکم عدولی کر رہے ہیں ۔ مسلمانوں میں سود کا کاروبار ہو رہا ہے عدالت کے جج کہتے ہیں کہ جس نے سودکھانا ہے کھائے جس نے نہیں کھانا نہ کھائے۔الیکٹرونک میڈیا پربے حیائی کا پرچار ہو رہا ایک ڈکٹیٹر کہتا تھا کہ ٹی وی پروگرام نہ دیکھو۔ کرپشن عوام اور حکمرانوں میں عام ہو گئی ہے لوگ لو ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ جن حکمرانوں کے حوالے عوام نے امانتیں کی تھیں وہ ان کو لوٹ کر بیرون ملک منتقل کر چکے ہیں۔ اس کا ریکارڈ بھی گم کر دیا ہے ۔کچھ پر عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں۔اللہ مسلمانوں کو صراط مستقیم پر چلنے کی ہدایات دے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان