انقلاب کی فلسفیانہ تعبیر اور پس منظر

Revolution

Revolution

تحریر : پروفیسر محمد حسین چوہان
زمانہ حال کی تمامتر عمارت ماضی کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے، ہمارا حال ماضی کا عکس جمیل ہوتا ہے،ہم ماضی میں بوتے ہیں،حال میں کا ٹتے ہیں اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔لیکن تاریک ماضی روشن مستقبل کے لئے ہمیں جدوجہد پر اکساتا ہے، ماضی میں بپا ہونے والے تما متر حالات و واقعات سیاسی و سماجی اور معاشی سر گرمیاں انفرادی و اجتماعی کاو شیں کسی بھی قوم کے مزاج اور کردارکو متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔کوئی بھی قوم اس وقت تک انقلاب و بغاوت کے لئے آمادہ نہیں ہوتی جب تک اس کو معروضی انقلابی صورتحال کا سامنا نہیں ہوتا اور اجتماعی شعور اس کو بغاوت پر آمادہ نہیں کرتا،کیونکہ انفرادی کرشماتی شخصیت عوام کو تحریک تو دے سکتی ہے مگر وہ تحریک اتنی دیر قائم نہیں رہ سکتی، جب تک خارجی حالات کرشمہ ساز شخصیت کے تصور انقلاب کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہوں، اس بنا پر کرشمہ ساز شخصیت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ عوامی مسائل کی ترجمانی معاشرے کے حرکیاتی قوانین کے تحت کرے ۔انقلابی اور کرشماتی شخصیات کا ظہور بھی اسی وقت ہوتا ہے جب خارجی حالات موزوں ہوں، ورنہ زمینی مسائل سے لا تعلق تحریکیں جلدی دم توڑ دیتی ہیں۔

انقلابی صورتحال کا انتخاب انسان نہیں کرتے بلکہ تاریخ کا جبر اور موجودہ گھمبیر حالات کے بطن سے خود بخود انقلابی قیادت کا ظہور ا ور عوامی مزاج کی تبدیلی واقع ہوتی ہے،جس کا اندرونی تعلق معاشرے کی اجتماعی حرکت سے جڑا ہوتا ہے۔انقلابی تبدیلی کے لئے مسلسل لڑتے ہیں،ناکام بھی ہو جائیں تب بھی لڑتے ہیں اس لئے کہ وہ سچے ہوتے ہیں۔ ان کے اندر بے چینی احساس محرومی اور اقتدار سے دوری کا احساس انہیں متشدد بناتا ہے کیونکہ جب بھی کسی طبقہ کو سیاست و اقتدار میں اس کا جائز حق نہیں ملتا یا یہ حق اس سے چھین لیا جاتا ہے تو وہ انقلاب و بغاوت کی طرف مائل ہوتا ہے۔سیاست کے اولین مفکر اعظم ارسطو کی رائے اس معاملے میں آج بھی اتنی ہی درست ہے جتنی پچیس سو سال پہلے تھی ۔٫٫ باشعور طبقے کے شریک اقتدار نہ ہونے سے ان کے اندر بے چینی،جارحیت اور غصہ جنم لیتا ہے جس سے وہ تشدد پر اتر آتے ہیں۔ان کو وہ عزت نہیں ملتی جس کے وہ حقدار ہیں۔

اور جب ان سے امتیازی سلوک برتا جاتا ہے اور انصاف کے دروازے بند کیے جاتے ہیں ،تو وہ بھی قانون کا احترام نہیں کرتے۔،، آگے چل کر کہتے ہیں۔٫٫ شہریوں کی اقتدار میں شرکت اور وابستگی انہیں تشدد سے دور رکھتی ہے۔،، اور جب محرومیوں اور حق تلفیوں کا تناسب ایک حد سے بڑھ جائے تو پھر وہ فرسودہ نظام اور تضادات کے خاتمہ کے لئے کسی بھی مروجہ قانون کا احترام نہیں کرتے اس لئے کہ ہر عہد میں ادارے موجودہ نظام حکومت کا تحفظ کر رہے ہوتے ہیں،ملک کے بالائی ڈھانچے کا تحفظ کرنا اداروں کی بنیادی زمہ داری ہوتی ہے۔

لیکن ہر عہد میں اقلیتی گروہ کے خلاف اکثریت مزاحمت کرتی ہے اور انقلاب برپا کرتی ہے۔جس طرح 1789کے انقلاب فرانس میں جاگیردار اشرافیہ کے خلاف متوسط طبقے اور کسانوں نے مل کر انقلاب برپا کیا،اسی طرح برطانیہ اور امریکہ میںمتوسط اور صنعتی اشراف نے چرچ اور جاگیر دار اشرافیہ کا تختہ الٹا۔چین میں کسانوں اورمزدوروں کا ثقافتی انقلاب اور روس میں پرولتاری انقلاب اس بات کے غماز ہیں کہ ہمیشہ اکثریتی غیر مطمئن طبقہ اقلیتی طبقہ کا خاتمہ کرتا ہے کیونکہ اکثریت کو اس بات کا بخوبی علم ہوتا ہے کہ اقلیت نے زرائع پیدا وار اور وسائل پر قابض ہو کر ان کے اقتدار پر قبضہ جما رکھا ہے۔سماج کا یہ حرکیاتی انقلابی تصور انسانی ارادے سے آزاد پنپتا اور پھلتا پھولتا رہتا ہے،اور معاشرے کی دو قوتوں کے مابین ٹکراتا ہے جس سے اکثریتی طبقہ اقلیتی طبقے کی جگہ لے لیتا ہے۔انقلاب کی آبیاری انقلابی نہیں کرتے وہ صرف انقلاب کے ذریعے طبقاتی شعور کو اجاگر کرتے ہیں۔انقلاب کا بیج مقتدر طبقہ نے آپنے زمانہ عروج میں بویا ہوتا ہے اور آپنی قبریں کھودی ہوتی ہیں،انقلابی صرف ان پر سلیں ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔انقلاب کا جواز ہمیشہ مقتدر استحصالی طبقہ فراہم کرتا ہے اور محروم طبقات رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔بقول کارل مارکس٫٫ایک حقیقی انقلاب معاشی ترقی کی مخصوص شرائط سے منسلک ہوتا ہے۔۔۔لوگ آپنی تا ریخ آپ بناتے ہیں۔

وہ ایسا اس لئے نہیں کرتے کہ وہ اس سے خوش ہوئے ہیں،اور نہ ہی اس کو ٫٫انقلاب،،حالات کے زیر اثر پروان چڑھاتے ہیں،جن کا انہوں نے انتخاب کیا ہے،بلکہ وہ ان حالات کے تابع رہ کر انقلاب بپا کرتے ہیں جو انہیں ورثے میں ملے ہیں،جن کا انہیں ان سے براہ راست سامنا ہوتا ہے۔،، انقلاب کا ہیولٰی ماضی میں تیار ہوتا ہے۔علمی وسائنسی ترقی،معاشرے میں مختلف طبقات کا ظہور پزیر ہونا،ذرائع پیداوار اور تعلقات پیداوار میں ترقی اور تضادات کا ابھرنا اور متوسط و بالائی متوسط طبقات کا شعور اور دولت سے مالا مال ہونا ،اقلیتی ماضی کے بر سر اقتدار طبقہ سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتا کیونکہ برسر اقتدار طبقہ آپنی پرانی روش پر قائم ہو تا ہے اور معاشرے کے نئے طبقات کا ظہور تبدیلی کا خواہاں ہوتا ہے دونوں آپنے آپنے مفادات کے لئے لڑتے ہیں اور تبدیلی کی دلہن کی ڈولی اکثریتی طبقہ کے آنگن میں اترتی ہے اور بوڑھا اشرافیہ ایک نامراد عاشق کی طرح خود کشی پر مجبور ہوتا ہے ،کیونکہ معاشرتی ترقی اور حرکت کا سفر اسی دن شروع ہوجاتا ہے جب کوئی نئی مشین ایجاد ہوتی ہے۔ونڈل فلپ کہتا ہے۔٫٫انقلاب تیار نہیں کئے جاتے خود بخود آجاتے ہیں،انقلاب کی نشو نما شاہ بلوط کے درخت کی طرح فطری ہوتی ہے۔یہ ماضی کے حالات و واقعات سے جنم لیتے ہیں۔

 French Revolution

French Revolution

اس کی جڑیں ماضی کے دور ازکار سلسلوں میں پیوست ہوتی ہیں۔،،توقیر انقلاب کی ماضی میں نشو نما ہونے کے بارے میں رقمطراز ہے۔٫٫اگر انقلاب تاریخ کے خود کار انجن ہیں،تو طبقاتی جدو جہد انقلاب کی خود کار مشینیں ہیں۔،،یعنی انقلاب کی پرورش ماضی میں لا شعوری طور پر ہوتی رہتی ہے ۔بقول شاعر وقت کرتا ہے پرورش برسوں ۔حادثہ ایک دم نہیں ہوتا ،فطرت اور سماج حرکت پزیری کے تحت اس کو پروان چڑھاتے رہتے ہیں اور معروضی حالات کی سنگینی طبقاتی شعور اجا گر کرتی ہے،اور طبقاتی شعور کی نشو و نما اور پروان چڑھانے میں متوسط تعلیم یافتہ طبقہ کا اہم کردار ہوتا ہے۔سوچنے کے لئے فرصت کے لمحات اور معاشی آسودگی کا ہونا ضروری ہے،غربت کی چکی میں پسے ہوئے کسان،مزدور اور دستکاروں کے پاس ایسا ماحول میسر نہیں ہوتا کہ انہیں طبقاتی شعور پیدا ہو کیونکہ غربت کی سنگینی انسان سے تنقیدی قوت چھین لیتی ہے اور وہ ایک حیوانی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس لئے طبقاتی شعور کے لئے فرد کا کم از کم ورکنگ کلاس یعنی صنعتی مزدور ہونا ضروری ہے اور پھر یونین کا قیام کیونکہ یونین سازی کے بغیر طبقاتی شعور،استحصال احساس بیگانگی اور فرد کو آپنی معاشرتی شناخت کا علم نہیں ہوتا وہ ایک غلام ہوتا ہے۔

کیونکہ انقلاب غربت اور پسماندگی میں جنم نہیں لیتے اس کے لئے معاشرے کا ایک با شعور طبقہ جو ایوان سیاست کی پہنچ سے دور اور لذائذ دنیوی سے کماحقہ عہدہ برا نہیں ہو سکتا لا سکتا ہے بقول توقی ول۔٫٫انقلاب فرانس کے بپا ہونے سے دس پندرہ سال پہلے سے عوام کے معاشی حالت بہتر ہو گئی تھی،،جس نے انہیں سوچنے اور بغاوت پر مجبور کیا تھا وہ کون لوگ تھے ملازم پیشہ ڈاکٹر، اساتذہ،وکلا، چھوٹے کاروبار ی، دیگر اداروں کے ملازمین صنعت کار اور دستکار وغیرہ۔ایڈورڈ سعید مارکسزم کی ہمنوائی کرتے ہوئے کہتے ہیں۔٫٫ انقلاب اس وقت بپا نہیں ہوتے،جب محروم طبقات افلاس کی اتھاہ گہرائیوں میں زندگی گذارنے پر مجبور ہوں۔انقلاب اس وقت بپا ہوتے ہیں جب یہ مجبور طبقات خوشحال زندگی کے زینے پر قدم رکھتے ہیں،جس میں سیاسی و سماجی شعور،طاقت،دولت، اور آگہی پیدا ہو جاتی ہے،ایسی صورتحال معاشرے میںانقلاب کی طرف راغب کرتی ہے۔۔۔روسی انقلاب ایک نظریہ کی وجہ سے نہیں بلکہ مختلف بحرانوں کی وجہ سے واقعہ ہوا۔،، لیکن ان بحرانوں کی نمائندگی ایک نظریہ بہرحال کر رہا تھا۔

انقلاب صرف تخریب کا عمل نہیں یہ ایک عمل جراحی کے مماثل ہے جو قریب المرگ مریض کو حیات نو بخشتا ہے۔جب ملک کے سیاسی و سماجی حالات نا گفتہ بہ ہوں،معاشی عدم استحکام ہو اور ادارے کار کردگی اور معیاری خدمات فراہم کرنے میں نا کام ہو چکے ہوں ،ان کی خود مختاری دائو پر لگ چکی ہو۔مقتدر بدعنوان اشرافیہ اداروں میں مداخلت کر کے نظام حکومت چلا رہے ہوں،رشوت،سفارش، اور سیاسی وابستگی سربراہان ادارے کی تعیناتی کے لئے ضروری ہو،میرٹ اور معیار دائو پر لگ چکا ہوا،اہل قلم چند ٹکوں کے عوض بدعنوان اور نا اہل حکومت کی حمایت میں قصیدہ خواں ہوں اور عوام کا ان پر مکمل اعتماد اٹھ چکا ہو،تو ایسے حالات میں بغاوت اور عوامی رد عمل تیز ہو جاتا ہے،جس کا حل صرف و صرف عوام پرانے ڈھانچے کی مکمل تبدیلی میں دیکھتے ہیں۔٫٫بقول ڈن پھر٫٫ایک انسانوںکا جارحانہ جم غفیرسماجی تبدیلی کا باعث بنتا ہے،جو ایک نئے نظام کے ساتھ نئی سیاسی و سماجی اقدار متعارف کراتا ہے۔،،ماضی کی تلخیوں اور مستقبل کے سہانے خواب کے پیش نظر عوام تبدیلی کے لئے اندھے ہو جاتے ہیں۔

زیگو رین اس سلسلے میں کہتا ہے٫٫انقلاب ایک محروم طبقات کی اجتماعی کوشش ہوتی ہے۔جو تشدد کے ذریعے لایا جاتا ہے،جس میں حکومت اور اس کی پالیسیاں تبدیل ہوتی ہیں۔ایک نئے سماج کا قیام عمل میں آتا ہے،چاہے اس جدو جہد کی تصدیق ماضی کے حالات کرتے ہوں یا مستقبل کے سہانے خواب۔،،ہٹنگٹن انقلاب کو ایک مکمل تبدیلی سے تعبیر کرتے ہیں جس میں صرف حکومتیں تبدیل نہیں ہوتیں بلکہ سیاسی و سماجی قدریں تک تبدیل ہو جاتی ہیں۔٫٫ ایک تیز طوفان کی طرح مقامی سطح پر قائم سیاسی و سماجی اقدار اور اسا طیر کی بنیادی تبدیلیوں کا نام ہے۔جس میںسیاسی ادارے،،سماجی ڈھانچہ،حکمران،حکومتی سر گرمیاں اور اس کی پالیسیوں کا مکمل خاتمہ ہوتا ہے۔،،بیچلر کہتا ہے۔،،احتجاجی تحریک جو سیاسی قوت کو مکمل طور پر منجمد کر دیتی ہے انقلاب کہلاتی ہے۔

فریڈرک کا تصور انقلاب جارحیت کی نمائندگی کرتا ہے۔،،اچانک اور جارحانہ انداز میں قائم پرانے سیاسی حکمنامے کو اٹھا کر باہر پھنکنے کا نام انقلاب ہے۔،،انقلاب کے لئے نظر یے اور عمل میں جارحیت اور تشدد کا عنصر لازمی ہے اس کے بغیر صرف تقریر اور فلسفوں سے تبدیلی نہیں آتی ایک قوت کے ساتھ دوسری متحارب قوت کا ٹکرانا ضروری ہے اس نظریے کی نمائندگی سکوپل کرتا ہے۔،،سماجی انقلاب معاشرے کے بنیادی ڈھانچے میںبنیادی تبدیلی لاتے ہیں۔معاشرے کے کلچر،طبقات، اور حکومتی ڈھانچے میں معیاری تبدیلی لاتے ہیں۔اور یہ انقلاب معاشرے کے چھوٹے طبقات لاتے ہیں،جس میں نظریاتی اور عملی جارحیت کا عنصر شامل ہوتا ہے۔،،مقتدر طبقے کی حکومت ایک طویل دور تک قائم رہتی ہے مگر دوسری طرف چھوٹے طبقات میں محرومیوں کا سلسلہ جب بڑھ جاتا ہے جس کو مقتدر طبقات نے نظر انداز کیا ہوتا ہے اور طبقات میں خلیج بڑھ جاتی ہے تو بغاوت کا عمل شر وع ہو جاتا ہے بقول مسل٫٫جب بالائی طبقہ اور ادنیٰ طبقہ پرانے نظام کو قائم نہیں رکھ سکتا تو انقلاب بپا ہو جاتا ہے۔ ،،یعنی اس میں تضاد اور خلیج پائی جا تی ہے۔

Change

Change

سرکاری محکموں میں سیاسی وابستگی،اقربا پروری،رشوت اور سفارش کی بنیادوں پر تقرریاں کی جائیں تو حسن کار کردگی اور بہترین خدمات کا معیار متاثر ہوتا ہے۔ اداروں کی ناقص کار کردگی اور سروس کی عدم فراہمی عوام میں مایوسی اور بغاوت پیدا کرتی ہے۔جہاں عوام سانس لینے کا بھی ٹیکس دیتے ہیں انہیں حکومت کی طرف سے کوئی ریلیف نہیں ملتا،اس کی بڑی وجہ نا اہل کام چور سیاسی و خاندانی وابستگی رکھنے والے افراد کی اعلیٰ عہدوں پر تقرر یاں ہوتی ہیں،جس سے اداروں کی کار کردگی پر سے عوام کا اعتبار اٹھ جاتا ہے۔یہ نا اہل افسران نہ صرف نچلی سطح بلکہ حکومت اور معاشرے کے بالائی ڈھانچے کی بنیادیں کھودنا شروع کر دیتے ہیں۔مگر انہیں سیاسی سطح پر بالائی حکمران طبقے کی اشیر باد بھی حاصل ہوتی ہے،جس سے ملک کا سماجی و سیاسی ڈھانچہ کمزور ہوتا ہے اور بر سر اقتدار طبقہ ان اداروں میں منظور نظر تعینات افسران پر انحصار کر رہا ہوتا ہے۔مگر دوسری طرف عوام کی بے چینی میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ ان دونوں کی ملی بھگت سے عوام کے حقوق غصب ہوتے ہیں۔ان نا اہل سفارشی تقرریوں کی وجہ سے حکومتوں کو زوال بھی آتے ہیں۔

پیٹرو اس حوالے سے رقمطراز ہے۔٫٫جب نا اہل اور سفارشی افسران اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہو جائیں اور آپنی خدمات ایمانداری اور تندہی سے سر انجام نہ دے سکیں تو بر سر اقتدار بالائی طبقہ کو زوال شروع ہو جاتا ہے اور انقلاب کی فضا ہموار ہو جاتی ہے۔،،مزید آگے چل کر رقمطراز ہے٫٫ انقلاب اس وقت رونما ہوتا ہے۔جب تمام ادارے آپنے فرائض منصبی دیانتداری سے ادا کرنے سے قاصر ہوں،اور عوام کا ان پر اعتماد اٹھ چکا ہو اور تبدیلی و انقلاب کے لئے چلنے والی تحریکات کے راستے میں اشرافیہ رکاوٹ ہو۔،،جانسن اس بات پر زور دیتا ہے جب معاشرے کا اجتماعی توازن بگڑ جاتا ہے بالخصوص طبقات میں غربت اور محرومی کی وجہ سے وسیع خلیج حائل ہو جاتی ہے تو انقلاب واقع ہوتے ہیں۔٫٫ تمام سیاسی و سماجی تبدیلیوں کی بنیادی وجہ توازن کا بگڑنا ہے،لوگوں کے کردار اور رویے میں یک لخت تبدیلی کا آنا اس امر کی شہادت ہے کہ کچھ معاشرے میں بگڑ گیا ہے۔،،تاریخ عالم میں بپا ہونے والے تماتر انقلابات چاہے وہ مذہبی نوعیت کے ہوں یا سیاسی و معاشی اصلاحات کے حامل اس بات کی گوا ہی دیتے ہیں انسانوں کی عملی شرکت تبدیلی کا سبب بنی ہے ۔لینن تبدیلی کے لئے تفکر سے زیادہ انقلاب کے لئے فرد کی عملی شرکت کو ضروری قرار دیتے ہیں۔٫٫انقلاب کے لئے زیادہ مفید اور خوشگوار عمل اس کے بارے میں لکھنے سے زیادہ عملی شرکت ہے۔،،علامہ اقبال کا تصور انقلاب متحرک سماج کی نمائندگی کرتا ہے وہ فرد اور سماج کی بقا مسلسل حرکت میں دیکھتا ہے،اس کو تغیر میں اثبات نظر آتا ہے،جس کی رو میں ہر شے بہے جا رہی ہے،بلکہ مارکسی نقطہ نظر کی نمائندگی کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ فرد کو ہر حال میں حالت انقلاب اور انقلاب مسلسل کی کیفیت میں رہنا چائیے۔ہو نہ جس میں انقلاب موت ہے وہ زندگی ۔روح امم کی حیات کشمکش انقلاب فرائڈ جنس میں انقلاب کا خواب دیکھتے ہیں۔

ان کے نزدیک ا نقلاب کے لئے کردار اور رویوں میں تبدیلی اور جارحیت بھوک ونہنگ ،محرومیوں اور نا آسودہ جنسی خواہشات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔بھوک کی وجہ سے جو جارحیت پیدا ہوتی ہے اور انسان کو انقلاب کی طرف مائل کرتی ہے اور وہ محرومی پیدا کرنے والی قوتوں کے خلاف لڑتا ہے ،اسکے بر عکس جنسی بھوک اور محرومی کی وجہ سے انسان کے اندر جارحیت اور تصادم کی طاقت پہلے یعنی پیٹ کی بھوک کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔پیٹ کی اشتہا بجھانے کے بعد انسان کے اندر قوی جذ بہ جنسی بھوک مٹانے کا آتش فشاں کی شکل اختیار کرتا ہے۔اگر اس جذبے کی تسکین نہ ہو تو فرد اعصابی مریض بن جاتا ہے۔پسماندہ معاشروں کی پسماندگی کی وجہ جذ بات کا تزکیہ نہ ہونا بھی ایک بڑی وجہ ہے۔نا آسودہ خواہشیں احساس محرومی شہریوں کو بغاوت پر مائل کرتی ہیں۔معاشی پسماند گی اور کرپشن ایسی صورتحال پیدا کرتے ہیں۔مذہبی تعلیمات ضبط و صبر کا درس دیتی ہیں،مگر مسئلہ پھر بھی حل نہیں ہوتا اس بنا پر بقول فرائڈ ٫٫سماجی تحریکوں میں حصہ لینے والے اعصابی مریض ہوتے ہیں اور بالخصوص مذہبی تحریکوں میں لوگ اس لئے حصہ لیتے ہیں کہ انہیں پر فر یب نجات کا راستہ دکھا یاجاتا ہے۔فرائڈ انقلاب کی افادیت کا قائل ہے اس کے نزدیک٫٫اگر ہم سارے مسائل حل نہیں کر سکتے تو انقلاب سے کچھ مسائل ضرور حل ہو جاتے ہیں اور باقی کو قانونی جواز بھی مل جاتا ہے۔،،جنس کا سیاست اور انقلاب سے تعلق ہو یا نہ ہو لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ معاشرے کی ہیت اجتماعی میں بدعنوانی ،لوٹ ومار کمیشن کلچر ،معاشی نا آسودگی اور بے روزگاری عام ہو۔انسان کی بنیادی ضروریات زندگی محنت کرنے کے با وجود بھی پوری نہ ہوتی ہوں تو وہاں پیٹ کی بھوک کے ساتھ ساتھ جنسی بھوک بھی پیدا ہو جاتی ہے۔افراد کے اعصابی تنائو میں اضافہ ہو جاتاہے۔ پھر خالی پیٹ اور شہوت بھرے جذبات ملکر انقلاب کا ماحول پیدا کرتے ہیں ، نا آسودہ خواہشیں،احساس محرومی و احساس بیگانگی ،طبقاتی تفریق،حق تلفیوں کا اجتماعی احساس ملکر ایک بغاوت کی فضا مراعات یافتہ طبقات کے خلاف پیدا کرتا ہے جو انہیں اس پسماندگی و جارحیت تک پہنچانے کا سبب بنے ہیں۔ اس وقت دنیا کی آدھی آبادی سیاسی و سماجی انقلابات سے گذر چکی ہے اور دنیا کا ایسا کوئی ملک نہیں ہے جو انقلاب سے گذرا ہو اور وہاں کے حالات بہتر نہ ہوئے ہوں۔ناکام انقلاب بھی تبدیلی کی راہ ہموار کر دیا کرتا ہے۔کسی قوم کا سب سے بڑا جرم یہ ہوتاہے کہ ظلم و انصافی کے خلاف وہ خا موش تما شائی بنی رہے۔یہ کتنے ہی صاحب ایمان کیوں نہ ہوں خدا بھی ان کی مدد نہیں کرتا۔

فطرت افراد سے تو اغماض کر لیتی ہے کبھی کرتی نہیں ہے ملت کے گناہوں کو معاف ماخوز کتاب انقلاب کا سماجی مطالعہ 2 میگزین فلاسفی نو شمارہ ١١٦ اکتوبر ٢٠١٦

Professor M Hussain Chohan

Professor M Hussain Chohan

تحریر : پروفیسر محمد حسین چوہان

mh-chohan@hotmail.co.uk