اِنقلابِ تندخو جس وقت اُٹھائے گا نظر

Roza Imam Hussain

Roza Imam Hussain

اِنقلابِ تندخو جس وقت اُٹھائے گا نظر
کَروٹیں لے گی زمیں، ہوگا فلک زیر وزبر
کانپ کر ہونٹوں پر آجائے گی رُوحِ بحرو بر
وقت کا پیرانہ سالی سے بھڑک اُٹھے گا سر
موت کے سیلاب میں ہر خشک و تر بہہ جائے گا
ہاں مگر نامِ حسین علیہ السلام ابن علی علیہ السلام رہ جائے گا
کون؟ جو ہستی کے دھوکے میں نہ آیا، وہ حسین علیہ السلام
سَر کٹا کر بھی نہ جس نے سر جھکایا ، وہ حسین علیہ السلام
جس نے مر کر غیرتِ حق کو جِلایا، وہ حسین علیہ السلام
موت کا منہ دیکھ کر جو مُسکرایا، وہ حسین علیہ السلام
کانپتی ہے جس کی پیری کو جوانی دیکھ کر
ہنس دیا جو تیغِ قاتل کی رَوانی دیکھ کر
ہاں نگاہِ غور سے دیکھ اے گروہِ مومنیں!
جارہا ہے کربلا خیرالبشر کا جانشیں
آسماں ہے لرزہ بر اندام، جنبش میں زمیں
فرق پر ہے سایہ افگن شہپرِ روح الامیں
اے شگوفو،السَّلام، اے خفتہ کلیو الوداع
اے مدینے کی نظر افروز گلیو الوداع
ہوشیار، اے ساکت و خاموش کُوفے! ہوشیار
آرہے ہیں دیکھ وہ اعدا قطار اندر قطار
ہونے والی ہے کشاکش درمیانِ نور و نار
اپنے وعدوں پر پہاڑوں کی طرح رہ استوار
صبح قبضہ کر کے رہتی ہے اندھیری رات پر
جو بہادر ہیں، اَڑے رہتے ہیں اپنی بات پر
لُو کے جھکّڑ چل رہے ہیں، غیظ میں ہے آفتاب
سُرخ ذرّوں کا سمندر کھا رہا ہے پیچ و تاب
تشنگی، گَرمی، تلاطُم، آگ، دہشت، اضطراب
کیوں مسلمانو! یہ منزل، اور آلِ بُوتراب علیہ السلام
کس خطا پر تم نے بدلے ان سے گن گن کے لیئے
فاطمہ سلام اللہ علیہا نے ان کو پالا تھا اسی دن کے لیئے؟
لو وہ مقتل کا سَماں ہے، وہ حریفوں کی قطار
بہ رہی ہے نہر لو وہ سامنے بیگانہ وار
وہ ہوا اسلام کا سرتاج مَرکب پر سَوار
دھوپ میں وہ برق سی چمکی، وہ نکلی ذوالفقار
آگئی رَن میں اجل، تیغ دو دَم تولے ہوئے
جانبِ اعدا بڑھا دوزخ وہ منہ کھولے ہوئے
دُور تک ہلنے لگی گھوڑوں کی ٹاپوں سے زمیں
کوہ تھرّانے لگے، تیورا گئی فوجِ لعین
زد پر آکر کوئی بچ جائے، نہیں، ممکن نہیں
لُو حسین علیہ السلام ابن علی علیہ السلام نے وہ چڑھالی آستیں
آستیں چڑھتے ہی خونِ ہاشمی گرما گیا
ناخدا! ہشیار، دریا میں تلاطُم آگیا
ظُہر کے ہنگام، کچھ جھکنے لگا جب آفتاب
ذوقِ طاعت نے دلِ مولیٰ میں کھایا پیچ و تاب
آکے خیمے سے کسی نے دوڑ کر تھامی رکاب
ہوگئی بزمِ رسالت میں امامت باریاب
تشنہ لب ذرّوں پہ خُونِ مشکبو بہنے لگا
خاک پر اسلام کے دل کا لَہُو بہنے لگا
آفرین چشم و چراغِ دُودمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
آفرین صد آفرین و مرحبا صد مرحبا
مرتبہ انسان کو تونے دوبالا کر دیا
جان دے کر، اہلِ دل کو تو سبق یہ دے گیا
کشتیء ایمان کو خونِ دل میں کھپنا چاہئے
حق پہ جب آنچ آئے تو یوں جان دینا چاہئے
اے مُحیطِ کربلا! اے ارضِ بے آب و گیاہ
جراتِ مردانہء شبیر علیہ السلام کی رہنا گواہ!
حشر تک گونجے گا تجھ میں نعرہ ہائے لاالہ
کج رہے گی فخر سے فرقِ رسالت پر کُلاہ
یہ شہادت اک سبق ہے حق پرستی کے لیئے
اک ستونِ روشنی ہے بحرِ ہستی کے لیئے
تُم سے کچھ کہنا ہے اب اے سوگوارانِ حسین علیہ السلام
یاد بھی ہے تم کو تعلیمِ امامِ مشرقین؟
تاکُجا بھولے رہو گے غزوہء بدروحنین؟
کب تک آخر ذاکروں کے تاجرانہ شورشین؟
ذاکروں نے موت کے سانچے میں دل ڈھالے نہیں
یہ شہیدِکربلا کے چاہنے والے نہیں
کہہ چکا ہوں بار بار، اور اب بھی کہتا ہوں یہی
مانعِ شیون نہیں میرا پیغامِ زندگی
لیکن اتنی عرض ہے اے نواسیرِ بُزدلی
اپنی نبضوں میں رواں کر خونِ سر جوشِ علی علیہ السلام
ابنِ کوثر! پہلے اپنی تلخ کامی کو تو دیکھ
اپنے ماتھے کی ذرا مُہرِغلامی کو تو دیکھ
جس کو ذِلّت کا نہ ہو احساس وہ نامرد ہے
تنگِ پہلو ہے وہ دل جو بے نیازِ درد ہے
حق نہیں جینے کا اُس کو جس کا، چہرہ زرد ہے
خود کشی ہے فرض اُس پر، خون جس کا سرد ہے
وقتِ بیداری نہ غالب ہو سکے جو نَوم پر
لعنت ایسی خُفتہ ملّت پر، تُف ایسی قوم پر!
زندہ رہنا ہے تو میرِ کارواں بن کر رہو
اس زمیں کی پستیوں میں آسماں بن کر رہو
دورِ حق ہو تو نسیمِ بوستاں بن کر رہو
عہدِ باطل ہو تو تیغِ بے اماں بن کر رہو
دوستوں کے پاس آؤ نور پھیلاتے ہوئے
دُشمنوں کی صف سے گزرو آگ برساتے ہوئے
دورِ محکومی میں راحت کفر، عشرت، ہے حرام
مہ وشوں کی چاہ، ساقی کی محبت ہے حرام
علم ناجائز ہے، دستارِ فضیلت ہے حرام
انتہا یہ ہے غُلاموں کی عبادت ہے حرام
کوئے ذلّت میں، ٹھہرنا کیا، گزرنا بھی ہے حرام
صرف جینا ہی نہیں، اس طرح مرنا بھی ہے حرام

Josh

Josh

جوش ملیح آبادی