اپنے حقوق پہچانیں ورنہ بسمہ مرتی رہے گی

Rights

Rights

تحریر: سید انور محمود
جب تک ہم اپنے حقوق کو نہیں پہچاینگےبسمہ مرتی رہے گی، ایک مرتبہ اور صرف ایک مرتبہ وی آئی پی کی آمد پر اُسکے پروٹو کول کی ساری رکاوٹیں توڑ دی جایں پھر دیکھیں بدلاو کیسے نہیں آتا، بغاوت تو کرنی پڑے گی کیونکہ ان ایک فیصد وی آئی پی نے پورے پاکستان کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھا ہوا ہے۔

سوال کیا گیا کہ تو جو پہلا قدم اٹھاے گا کیا وہ گولی کا نشانہ نہیں بنے گا؟ جی ایسا ہی ہوگا لیکن اُس سے تو بہتر ہوگا جوملتان کے علاقے شریف پورہ کے رہائشی اشفاق احمد نے 23 دسمبر 2015ء کو کیا۔ اشفاق احمد پاور لومز میں کام کرتا تھا، غربت اور گھریلو جھگڑوں سے تنگ آکر اس غربت کے مارے مزدورنےاپنی بیوی اورچاربچوں کوقتل کرنے کے بعد اپنے گلے میں پھندالگا کر خودکشی کرلی، بظاہر ان سب کا قاتل اشفاق احمد ہے لیکن اگر آپ غور کرینگے تو ان سب کی قاتل غربت ہے اور غربت کے ذمہ دار حکمراں ہیں۔ ایک گھر سے 6 افراد کی لاشیں ملی ہیں کیوں اس لیے کہ کب تک ظلم برداشت کرتا، اپنے پیاروں کو بھی مار دیا اور خود کو بھی مار لیا۔

یہ جو بچی بسمہ کراچی میں مری ہے یہ بھی غربت کا شکار تھی۔ دس ماہ کی بسمہ اپنے والدین کے ساتھ کراچی کے غریب علاقے لیاری کی رہائشی تھی، ایک کمرے کا چھوٹا سا گھر جو داخل ہوتے ہی ختم ہوجاتا ہے، نہ ہوا، نہ روشنی کا گزر، چاروں طرف غربت کا راج۔ کراچی میں ہسپتالوں اور اچھے ڈاکٹروں کی کمی نہیں لیکن بسمہ کے باپ فیصل بلوچ کے پاس پیسے ہی نہیں تھے، اگر ہوتے تو کسی بھی دوسرئے ہسپتال چلا جاتا، اس سرکاری ہسپتال میں نہیں آتا۔

Ten Month Child Died Due Bilawal Bhutto Protocol

Ten Month Child Died Due Bilawal Bhutto Protocol

سول ہسپتال کراچی میں بلاول زرداری کیلئے وی آئی پی پروٹوکول کے باعث راستے بند ہونے سے بروقت طبی امداد نہ ملنے پرلیاری سے تعلق رکھنے والی دس ماہ کی بچی بسمہ انتقال کرگئی۔بچی کے والد کا کہنا ہے کہ وی آئی پی سیکورٹی کے باعث سول ہسپتال آنے والے راستے بند تھے، جس کی وجہ سے تاخیر ہوئی اور میرے ہاتھوں میں بچی نے جان دے دی، ڈاکٹرزکہتے ہیں اگر 10منٹ پہلے ہسپتال پہنچ جاتے تو بچی کی جان بچ سکتی تھی۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے سول ہسپتال کراچی میں بینظیر بھٹو ٹراما سینٹر کا افتتاح کیا، اُن کی آمد کے موقع پر سیکورٹی سخت انتظامات تھے اور ہسپتال آنے والے راستے بند کردیئے گئے تھے۔ دوسری جانب ایم ایس سول ہسپتال کا بڑی بے شرمی کے ساتھ یہ کہنا ہے کہ پروٹوکول نےآنے نہیں دیا، اس کا میں ذمہ دار نہیں ہوں،ہسپتال کا مین گیٹ کھلا تھا اگر وہ شارٹ کٹ لینا چاہتا تو لے سکتاتھا۔

انسانیت کے ناطے کہہ رہا ہوں کہ جس شخص میں تھوڑی بہت انسانیت باقی ہوگی اور اُس نے ٹی وی پر فیصل کو اپنی بچی کو گود میں اٹھاے بھاگتے ہوے دیکھا ہوگا اور بعد میں فیصل کی زبانی یہ سناہوگا کہ ڈاکٹر کہہ رہا تھا ” اگر بچی دس منٹ پہلے آجاتی تو بچ جاتی” یقیناً ہرصاحب اولاد اس واقعہ پر غمزدہ ضرورہوا ہوگا۔ لیکن جناب ہمار ئے صاحب اقتدار تو یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ بلاول کا پروٹوکول تو ایک کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ ایک بات جو میری سمجھ میں نہیں آرہی وہ یہ ہے کہ بلاول کو کس حیثیت کی وجہ سے سرکاری پروٹوکول دیا جاتا ہے، نہ تو وہ اپنے والد آصف زرداری کی طرح سابق صدر ہے اور نہ ہی صوبے کا وزیراعلیٰ، بلاول کو سرکاری پروٹوکول اگر اس لیے دیا جارہا ہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کا سربراہ ہے تو سراج الحق ، مولانا فضل الرحمان اور دوسرئے بہت سوں کو جو اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے سربراہ ہیں اُنکوبھی وہی پروٹوکول دیا جائے جو بلاول کو دیا جارہا ہے، یہ ملک بلاول کی ذاتی جاگیر نہیں ہے۔ بلاول اور اُسکے والدنے تو دس ماہ کی بسمہ کےلیے تھوڑا بہت افسوس کا اظہار کربھی لیا، مگر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کی قطعی کوئی ہمدردی اُس بچی کے لواحقین کے ساتھ نہیں۔

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ بچی کے انتقال پر افسوس ہے، اگرسکیورٹی کی وجہ سے بچی کا انتقال ہوا ہے تو والدین سے معذرت خواہ ہوں۔ ان کا مزید کہناتھا کہ ہمیں سب سے زیادہ بلاول بھٹو عزیز ہیں، ان کی فیملی کو سیکورٹی خدشات ہیں۔ننھی بسمہ جان سے گئی، ذمے داروں کا تعین کرنے یا غلطی سے سبق سیکھنے کے بجائے پیپلزپارٹی نے واقعے کا سارا ملبہ ڈاکٹر اور پولیس افسر پر ڈال دیا۔ پارٹی رہنما نادیہ گبول لیاری پہنچیں تو ’’گو نادیہ گو‘‘ کے نعروں سے ان کا استقبال ہوا۔ بجاے شرمندہ ہونے کے انہوں نے بڑی بےشرمی سے فرمایا کہ اس ڈاکٹر کے خلاف انکوائری ہوگی جس نے کہا ہے کہ بچی کودس منٹ پہلے لاتے تو وہ بچ سکتی تھی۔ سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا نادیہ گبول سے ایک قدم آگے بڑھ گئیں۔ جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میڈیا کو تقریب میں جانے نہیں دیاگیا اس لیے بلبلا اٹھا۔ جبکہ صوبائی وزیر صحت جام مہتاب نے عجیب منطق پیش کی ہے کہ بسمہ کے مرنے کو خوامخواہ کا اشو بنایا گیا ہے، مرنا انسان کے بس میں نہیں ہے۔

کسی نے کہا موت زندگی کا فیصلہ اللہ کرتا ہے، کوئی بولا ہمیں بلاول کی جان سب سے زیادہ عزیز ہے اور کسی نے فرمایاایسا تو ہر روز ہوتا ہے، ایک ڈاکٹر کو کوس رہی ہیں جبکہ دوسری میڈیا کو۔صوبائی وزیرصحت جام مہتاب نے تو سیدھا سیدھا بچی کی موت کا الزام اللہ تعالی پر ڈال دیا چلیں مان لیتے ہیں کہ دس ماہ کی بسمہ کی موت کا فیصلہ اللہ تعالی کا ہے تو جام مہتاب صاحب ہر سال 4 اپریل اور 27 دسمبر کو گڑھی خدا بخش میں جاکر کیوں روتے ہو، کہو کہ بھٹو اور بےنظیرکی موت کا فیصلہ بھی اللہ تعالی نے کیا تھا، نہ بھٹو کی موت کا ذمہ دار ضیاءالحق تھا اور نہ ہی بینظیر کے قاتل طالبان ہیں۔ نثار کھوڑو، نادیہ گبول اور شہلا رضا کوپارٹی میں اپنی حیثیت کا اندازہ ہے، لہذا ان کے نزدیک بلاول کی حفاظت سے سب سے زیادہ ضروری ہے چاہے کوئی مرئے لیکن مرنے والوں میں ان میں سے کسی کا بچہ نہ ہو۔ کہہ رہے کہ خواہ مخواہ بات کا بتنگڑ بنایا جارہا ہے، کسی ماں کی گود اجڑگئی آپ اپنی سیاست چمکارہے ہیں۔ یہ حکومتی درباری جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ صرف بادشاہ صاحب کو خوش کرنے کےلیے کہہ رہے ہیں، لیکن جو کچھ دس ماہ کی بسمہ کی ماں اور اُس کے باپ اور اُس کے رشتے داروں نے کہا، بس وہی سننے کے لائق ہے۔

Bisma Father

Bisma Father

بسمہ کا والد فیصل بلوچ جس کی بے بسی اور آنسوئوں کا سیل رواں پوری قوم نے دیکھا لیاری کے اس علاقے کا رہنے و الا ہے جسے سندھ حکومت پر فائز پیپلزپارٹی کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے ۔ وزیراعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ نے پہلے پیپلزپارٹی کے منتخب رکن قومی اسمبلی محمد شاہ جہان بلوچ کو بسمہ کے گھر بھیجا، انہوں نے اہلخانہ سے تعزیت کے علاوہ تمام معاملات طے کیے جس کے بعد سیدقائم علی شاہ لیاری پہنچے لیکن پھر بھی بسمہ کے گھر جانے کی ہمت نہ کرسکے اورنادیہ گبول کے گھر پہنچ گئے اوربچی کے والد فیصل کووہاں بلوالیا۔ چند منٹ میں ہی سندھ کی حکومت دودھ کی دھلی ہوئی ہوگئی اور سارے معاملات طے ہوگے۔ یہ سب اسقدر تیزی سے یوں کیا گیا کہ کراچی سے پیپلز پارٹی کا خاتمہ ہوچکا ہے، صرف ایک لیاری بچاہوا ہے جہاں بیچارا بھٹو بھی آخری سانسیں لے رہا ہے، اس لیے زرداری پریشان تھے ورنہ آصف زرداری ایک غریب بچی کے لیے اسقدر پریشان نہ ہوتے۔

فیصل بلوچ اپنی بیٹی کو دفن کرکے گھر پہنچا ہی تھا کہ اسے پولیس کے چاق و چوبند جوان اٹھا کر نادیہ گبول کے گھر لے گئے اور اس کے گھر کو پولیس کمانڈوز نے چاروں طرف سے گھیر لیا اور علاقے میں نیا پروٹوکول نافذ کردیاگیا کہ کوئی اہم شخصیت اسے پرسہ دینے کے لیے آرہی ہے اور وہ اہم شخصیت تھی وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ۔ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے مرحومہ بسمہ کے والد فیصل سے لیاری میں پیپلزپارٹی کی رہنما نادیہ گبول کے گھر پر ملاقات کی ۔ ملاقات کے موقعے پر وزیراعلیٰ سندھ نے فیصل بلوچ سے بچی کی موت پر تعزیت کی اور سرکاری نوکری کا اعلان کیا ۔ بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کہنا تھا کہ واقعہ افسوس ناک ہے تاہم بچی کی طبیعت پہلے سے خراب تھی ۔ جس راستے سے بچی کو ہسپتال لایا جانا تھا وہ راستہ بالکل کلیئر تھا ۔

اس موقعے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جاں بحق ہونے والی بچی کے والد فیصل بلوچ کا کہنا تھا کہ میری بچی پہلے سے بیمار تھی مگر وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے ہسپتال لانے میں دیر ہوئی ۔ وزیراعلیٰ سندھ میرے گھر آئے اُن کا شکرگزار ہوں ان کی یقین دہانی پر مطمئن ہوں ۔کسی غریب سے صوبے کا وزیر اعلیٰ علیحدگی میں بات کرے اور اس کا اثر نہ ہو، یہ ہوہی نہیں سکتا، سائیں نے مرنے والی بچی کے باپ کی مجبوریوں کا سودا کیا اور جو باپ چند گھنٹے پہلے تک واقعے کا ذمے دار سندھ حکومت کو قرار دے رہا تھا، وہ کچھ اور کہتا نظر آیا، ہائے غربت ، ہائے مجبوری۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے اس واقعے کی مذمت کی ہے، عوام بھی مذمت کررہے ہیں ، انہی عوام میں ایک مبشر علی زیدی بھی ہیں جنہوں نے فیس بک پر صرف ایک جملہ لکھ کرحکمرانوں کو اُن کی اوقات یاد دلائی ہے ، وہ کہتے ہیں “بادشاہ سلامت! جس دن آپ کے سینے میں سانس اٹکے گی، بسمہ یاد آئے گی۔

Syed Anwer Mahmood

Syed Anwer Mahmood

تحریر: سید انور محمود