حقوق ان کے بھی تو ہیں

Home Labor

Home Labor

تحریر: راصب خان، کراچی
پاکستان میں گھر مزدور پالیسی پر حکومت کی قانون سازی یا حکمت عملی پر کوئی توجہ نہ دینا گھر مزدوروں کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔ عوام کے لیے باعث تشویش ہے کہ اسلامی ریاست کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں گھروں میں مزدور پیشے سے وابستہ افراد کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا کہاں کا انصاف ہے۔

ایک طرف پاکستان میں عرصہ دراز سے جبری مشقت کا نظام رہا،اس کے باجود پاکستان کا نظام سنبھالنے والی متعدد حکومتیں چاہے وہ آمرانہ طرز کی ہوں یا جمہوریت کے طرز کی ،ان دونوں حکومتوں نے گھر مزدر پالیسی پر توجہ نہیں دی،جس کے سبب پاکستان کی عوام اپنے ملک اور بیرون ملک میں جبری مشقت تو کرہی رہی ہے،لیکن دوسری جانب گھر مزدور جس میں خواتین اور بچوں کی تعداد سرفہرست نظر آتی ہے،جس میں ظلم وستم کے واقعات بے شمارمنظر عام پر آئے دن نظر آتے ہیں۔ ،لیکن حکومتی حکمت عملی کچھ نہیں،جبکہ پاکستان کی تمام سیاسی ،ومذہبی جماعتوں کا یہ منشور ہی نہیں رہاکہ گھر مزدور پالیسی کو اپنے پارٹی منشور میں جگہ دی جائے ،لیکن اب پاکستان کے لاکھوں گھر مزدورروں کو لیبر قوانین کے زمرے میں لانا یقینی ہوگیا ہے۔

پاکستان کی عوام کے منتخب نمائندے جو پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں عوام کی نمائندگی کے لئے منتخب ہوتے ہیں اور ان کو عوام ہی اپنے حق رائے دہی سے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں نمائندگی کے لئے نامزد کرتے ہیں،اس کے باجود ،گھر مزدور پالیسی پر توجہ نہ دینا سراسر گھر مزدور کے ساتھ ظالمانہ پالیسی ہے،اگردیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی گھر مزدور توجہ دی جائے تو دیگر مزدور وں کی طرح سوشل سیکورٹی،پینشن ،یونین سازی،اجتماعی خودکاری اور تمام مزدور حقوق اور مراعات کے علاوہ تنازعہ کی صورت میں لیبر کورٹس انصاف کے لیے قانونی طور پر حق دار ہوجائیں گے، گھر مزدور پالیسی کو بناتے وقت آئین ،بین الاقوامی قوانین کا خاص خیال رکھا جائے جس میں ہر قسم کے استحصال کے خاتمے ،صف کی بنیاد تفریق نہ کرنے، منساب اجرت اور برابری شامل ہوں اور اس میں مزدور کے حقوق کو تسلیم کرنا اور ان کی رجسٹریشن کرنا اہم مرحلہ ہو،اس قانون کے ذریعے دیگر صنعتی مزدوروں کی طرح سماجی پالیسی کے تحفظ کوءتمام اداروں تک ممکن بنایا جاسکے،مہنگائی کی تناسب سے ان کی اجرتوں کا تعین بھی ممکن بنا جا سکتا ہے۔

Home Worker

Home Worker

گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی سے پاس کردہ گھر مزدور پالیسی کا بل منظور تو ہوگیا،لیکن دیگر صوبوں کے حوالے سے کئی سوالات چھوڑ گیا۔ جس میں سرفہرست یہ ہے کہ جس دن بل منظور کیا گیا اسی دن خبروں کی زینت بنی پنجاب کے ضلع گجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی کمسن رخسار جو گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی تھی ،اچانک وہی ہوا جو گزشتہ دنوں طیبہ کے ساتھ ہوا اور کمسن رخسار پر تشدد تو کیا ہی گیاپر زیادتی بھی کی گئی،یاد رہے کہ پاکستان میں وہ کونسا شعبہ ہے جس میں بچوں سے کام نہیں لیا جاتا ،چاہے وہ اینٹوں کی بھٹی ہو یا صنعت کاری کا شعبہ ،کپاس کی چنائی ہو یا کوئلے کی کان کی اور دیگر بہت سے کام جن میں پاکستان کے کمسن بچے ہی محنت کرتے نظر آئیں گے۔

جبکہ اس کے برعکس دیگر ممالک میں کمسن بچوں سے کام نہ کروانا اور دیگر حقوق کا خاص خیال اور قوانین بنائیں گئے ہیں،لیکن پاکستانی معاشرے میں ان ناسوروں کے خلاف کیا صرف ایکشن ہی لیا جائے گا یا کوئی عملی اقدامات بھی اٹھائیں جائیں گے ،جس کی اب ضرورت ہی نہیں، بلکہ سخت ضرورت ہے،طیبہ اوررخسار کے ساتھ ساتھ لاکھوں بچے خطرے میں ہیں۔

پورے پاکستان میں ہوٹلوں اور موٹر سائیکل اور گاڑیوں کی ورکشاپس میں دیکھے جہاں بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ کام سیکھنے کے لیے گالی سہنا لازمی ہے۔ لقب تو اس طریقے کے ہوتے ہیں کہ جا ذرا دودھ پتی کا آرڈر دے آ۔ دودھ پتی کا آرڈر دینے کے ساتھ وہ اپنے بچپن کو بھی وہیں رکھ آتا ہے کیوں کہ اسے بچپن میں بڑا ہونا ہے۔

Law

Law

ارے تو میسنی، کسی۔۔۔۔ کی اولاد۔۔۔ یہ جھاڑو لگانے کا طریقہ ہے؟ ہڈ حرام، تجھ سے اتنا سا کام نہیں ہوتا؟ ایسا کچھ ان ننھی کلیوں کے ساتھ ہر دوسرے گھر میں برتاو کیا جاتا ہے جنہیں ماں باپ یا تو مجبوری کی وجہ سے بڑے گھروں میں کام کاج کے لیے چھوڑ جاتے ہیں یا پھر لاوارث کلیاں ایسے گھروں کے کام کاج کے لیے پہنچتی ہیں،توجہ اس بات پر ہے کہ اگر پاکستان میں گھر مزدور پالیسی پر حکومت کی قانون سازی یا حکمت عملی پر کوئی توجہ دی جائے تو ایسے واقعات میں کمی آ سکے۔

تحریر: راصب خان، کراچی