راستوں میں قافلے کا نقشِ پا رہ جائے گا

راستوں میں قافلے کا نقشِ پا رہ جائے گا
سب مسافر چل پڑیں گے راستہ رہ جائے گا

زندگی محسوب کرتی ہی رہی رمزِ نہاں
آنکڑے مٹ جائیں گے اور ضابطہ رہ جائے گا

سینکڑوں آئے تو آئے چل دئے تو چل بسے
زندگی کی تشنگی کا سلسلہ رہ جائے گا

تجربوں کی مشوروں کی جنبشیں جتنی بھی ہوں
پیچ و خم کی اُسعتوں کا مرحلہ رہ جائے گا

مصلحت پنہاں رہی ہے گردشِ ایّام میں
روز و شب کی کشمکش کا رابطہ رہ جائے گا

تم جہاں پائو گے حسرت پائو گے ناکامیاں
یاس و حرماں کا ہمیشہ قافلہ رہ جائے گا

تم جہاں سے دیکھتے ہو رمزِ خیر و شر نثار
حیرتِ قلب و نظر کا آئنہ رہ جائے گا

Ahmed Nisar

Ahmed Nisar

تحریر : احمد نثار
Email: ahmadnisarsayeedi@yahoo.co.in