جب لہو اپنا خراج مانگے گا

Democracy

Democracy

تحریر : ایم سرور صدیقی
ایک وقت آئے گا جب بے رحم تاریخ اپنا فیصلہ تحریر کرے گی تو حکمران، سیاستدان وڈیرے، جاگیر دار، بیوروکریسی، اشرافیہ سب کے سب قومی مجرم گردانے جائیں گے عوام سے بھی گلہ ہے جو حقیقت میں ذہنی طور پر غلام بنے ہوئے ہیں بہتر امیدوار کو ووٹ ہی دینا پسندنہیں کرتے۔ اظہار یا انکار دونوں صورتوں سوچ پر تو پہرے نہیں لگائے جا سکتے محرومیوں کے مارے عام پاکستانی کا دل دکھی ہے جناب یہ کون سی جمہوریت ہے ؟ کیسے جمہوری تقاضے؟ دل نہیں مانتا، ذہن تسلیم نہیں کرتا کہ سارے وسائل میں عام آدمی کیلئے کچھ بھی نہیں۔۔ لگتا ہے موجودہ قومی رہنمائوں میں سے کوئی بھی دل سے موجودہ سسٹم کو تبدیل کرنا نہیں چاہتا سب کی خواہش ہے۔

یہ موج میلہ ایسے ہی ہوتا رہے اب عوام اس نتیجہ پر پہنچی ہے انہیں ایسی جمہوریت۔۔ ایسا نظام ۔۔ ایسے لیڈر نہیں چاہییں جنہوںنے غربت کو عوام کیلئے بد نصیبی بنا کررکھ دیا اب لوگوں میں یہ بات عام ہوتی جارہی ہے انتخابات کا مروجہ طریقہ ٔ کاردرست نہیں اس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں جب تک موجود ہ استحصالی نظام موجود ہے بہتری کی کوئی امید نہیں ۔یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان کے سب کے سب حکمران اور موجودہ سیاستدانوں میں بیشتر فوجی اسٹیلشمنٹ کی پیداوار جن کی خواہشات کا نام جمہوریت۔ سیاست جن کیلئے کھیل اور جمہوریت عوام کیلئے سانپ سیڑھی والی گیم جب منزل قریب آنے لگتی ہے سانپ ڈس لیتاہے دھت تیرے کی۔

جمہوریت تو پاکستان میں بادشاہت ہوگئی یاپھر ، ملوکیت کی بدترین شکل ۔۔ دونوں صورتوں میں عوام کا پٹرا اور اشرافیہ کی پانچوں گھی میں۔ایک طرف ہمارا یہ حال ہماری حکومتیں قرض لے کر بھی اترتی پھرتی ہیں۔۔۔اکثروبیشترصدر اور وزیراعظم غیر ملکی دوروںمیں مصروف رہتے ہیںشایدانہوںنے حالات سے” فرار ”کا یہ اچھا طریقہ نکالاہے ایک بات فہم و ادرراک سے بالا ترہے ہمارے صدر یا وزیراعظم جب غیر ملکی دوروں پر جاتے ہیں وہاں کے حالات، عوام کو میسر سہولیات دیکھ کر بھی ان کے دل میں کوئی تڑپ پیدانہیں ہوتی کہ وہ اپنے عوام کیلئے بھی کچھ کریں۔

پاکستان جیسے ممالک جہاں ادارے کمزور اور شخصیات طاقتور ہیں یہاںکسی بھی وقت ان ہونی ہو سکتی ہے ہمارا کوئی حکمران آج تک اس خوف سے باہر نہیں نکلایہی وجہ ہے کہ موجودہ آرمی چیف اور ان کے پیش رو قوم کو یقین ہی دلاتے رہتے ہیں کہ جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں لیکن بیشتر لوگوںکا دل ہے کہ مانتا ہی نہیں اسی لئے جب حکومت کے خلاف احتجاج کی کوئی دھانسو تحریک چلانے کا اعلان ہوتاہے وسوسے ہیں کہ امڈتے چلے آتے ہیں ان سے جان ہی نہیں چھوٹتی ہر پاکستانی کے دل میں خیال ضرور آتاہے اس کے پیچھے یقینا فوج ہے جو وزیرِ اعظم کو فری ہینڈ نہیں دینا چاہتی ملک میں ایسے سیاستدانوںکی افراط ہے جو کسی بھی واقعہ ۔۔۔کسی بھی سانحہ پر ایڑیاں اٹھا اٹھا کردیکھتے ہیں فوج اب آئی کہ اب آئی پچھلے کئی سالوں سے ان کے من کی مراد بر نہیں آئی لیکن انہوں نے بھی امید کا دامن آج تک نہیں چھوڑا ۔۔اس کو کہتے ہیں استقامت۔۔۔آخر امیدپر دنیا قائم ہے۔۔

Pakistan

Pakistan

یہ تو مشہور کہاوت ہے کہ سیاست بڑی بے رحم ہوتی ہے اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا اس لئے حکومت کو ہمارا مفت مشورہ ہے کہ انتہائی سوچ سمجھ کر فیصلے کریں وہ اقتدار میں ہیں ان کی ذمہ داری بھی زیادہ ہے آج پاکستان کی ایک نئی تاریخ لکھی جارہی ہے میاں نوازشریف کے ساتھی انہیں خوش کرنے کیلئے مظہرشاہ کے اندازمیں بڑھکیں نہ ماریں ۔۔۔میاں صاحب قدرت نے آپ کو ایک نادر موقع دیا ہے آپ کچھ تاریخ ساز کام کرکے تاریخ میں امر ہو سکتے ہیں کیونکہ ہمیں آج بہت سے مسائل کا سامناہے ۔۔۔کئی چیلنجز درپیش ہیں۔۔عالمی سطح کے معاملات مزید گھمبیر ہیں ۔۔قومی و علاقائی مسائل سے جان ہی نہیں چھوٹتی اس لئے زمینی حقائق کے مطابق ان کا حل تجویز کیا جائے بہترہے مستقل حل کو ترجیح دینا پہلی ترجیح ہونی چاہیے اسی میں موجودہ سسٹم کی بقاء ہے۔سیاست میں مخالف کوبرداشت کرنا جمہوریت کا حسن کہلاتا ہے۔

حکومت کے مخالفین طاہر القادری ، عمران خان،چوہدری برادران اور شیخ رشید سب پاکستانی ہیں سب کے سب محب ِ وطن۔۔ سیاست سب کا حق ہے اختلاف کو برداشت کریں اب کے بار حالات ماضی سے بہت مختلف ہو سکتے ہیں ضروری نہیں میاں نواز شریف اور ان کے وزیر مشیر جو سوچ رہے ہیں اسی انداز میں حالات ظہورپذیرہوں یا عمران خان، طاہرالقادری ،شیخ رشید یاچوہدری برادران جو امید لگائے بیٹھے ہیں ویسا ہی ہو جائے ۔۔۔اب تلک جو بھی ہوا غور کریں تو محسوس ہوگا میاں نواز شریف کی حکومت مضبوط ثابت ہوئی۔۔۔ حکومت کے خلاف دھرنے ناکام ہوگئے ۔۔ جوڈیشنل کمیشن کی رپورٹ نے عمران خان کی امیدوںپرپانی پھیردیا یقینا شدید دھچکا لگاہوگا بہرحال یہ سسٹم چلتے رہنا چاہیے ۔۔۔جمہوریت کے دم سے ہی الیکشن الیکشن کا دم غنیمت ہے ۔۔میاں نوازشریف کی حکومت نے بحران پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کی اور اس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوگئی تصادم کی سیاست ملک وقوم کے لئے انتہائی خطرناک ہے ملک کے کئی شہروں میں وقفے وقفے سے حکمران مسلم لیگ اور تحریک ِ انصاف کے کارکنوںکے درمیان تصادم کوئی اچھی بات نہیں۔۔جمہوریت اور پاکستان کی بقاء کیلئے ایسے واقعات کو روکناہوگاحکومت کو اپنے رویہ میں لچک پیدا کرنی ہوگی عمران خان بھی انپے حامیوںکو ضبط کی تلقین کریں تصادم کے نتیجہ میں خون جس کا بھی بہے وہ میرے ہم وطن کا لہو ہے۔۔سب کے خون کا رنگ ایک جیسا ہوتا ہے کراچی اور بلوچستان میں بے گناہوں کا قتل ِ عام روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

اسی طرح سانحہ ٔ ماڈل ٹائون کے قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہچانا بھی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے تاریخ بتاتی ہے لہو بولتاہے آج نہیں تو کل۔۔۔ایک دن ایساضرور آتاہے جب بے گناہوں کا لہو اپنا خراج مانگتاہے۔۔۔حساب مانگتاہے۔۔۔احتساب مانگتاہے۔۔۔لہو مانگتاہے اس دن سے سب کو ڈرنا چاہیے بالخصوص ان لوگوں کو جو بااختیارہیں ۔۔۔بے اختیار جن کے رحم و کرم پر ہیں۔۔۔ کہ سدابادشاہی اللہ تعالیٰ کی ہے یہ بات تو بھولنے والی نہیں۔

M Sarwar Siddiqui

M Sarwar Siddiqui

تحریر : ایم سرور صدیقی