روس ’’خطرے کا باعث‘‘ ہے: ٹلرسن

Rex Tillerson

Rex Tillerson

واشنگٹن (جیوڈیسک) منتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے نامزد وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا ہے کہ امریکہ کے لیے روس خطرے کا باعث ہے، ’’اور، اُس کی حالیہ سرگرمیاں امریکی مفادات کو نظرانداز کرنے کی مترادف ہیں‘‘۔

ٹلرسن نے یہ بات بدھ کے روز سینیٹ کی امورِ خارجہ کمیٹی کے روبرو اپنی نامزدگی کی توثیق کی سماعت کے دوران کہی۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’اپنے اقدامات پر روس کا احتساب ہونا چاہیئے‘‘، جیسا کہ، یوکرین پر چڑھائی کا معاملہ ہے۔

ٹلرسن نے قانون سازوں کو بتایا کہ ’’نیٹو کے ہمارے اتحادی پھر سے سر اٹھانے والے روس سے خوفزدہ ہونے میں حق بجانب ہیں‘‘، اور کہا کہ ٹرمپ نے روس کے ساتھ قریبی تعلقات پر زور دیا ہے ، تاکہ ’’امریکی قیادت کی غیر موجودگی‘‘ کے نتیجے میں، بڑھتی ہوئی روسی سرگرمیوں کا جواب دیا جا سکے۔

اُنھوں نے اِس بات کی ضرورت کی جانب توجہ دلائی کہ ’’روس کے عزائم کو دیکھتے ہوئے، اُس کے ساتھ کھلے اور برجستہ مکالمے کی ضرورت ہے‘‘، تاکہ امریکہ اپنے راستے کا تعین کر سکے۔

ٹِلرسن نے چین کی جانب سے بحیرہٴ جنوبی چین میں جزیرہ تعمیر کرنے کے معاملے پر بھی گفتگو کی۔ اُنھوں نے خطے میں چین کے اِس اقدام کے لیے کہا کہ یہ ’’بین الاقوامی ضابطوں کی پرواہ کیے بغیر، متنازع علاقوں پر قبضہ جمانے‘‘ کے مترادف ہے۔

گذشتہ ماہ، ٹِلرسن کو نامزد کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ ’ایکسون موبیل کارپوریشن‘ کے سابق چیف اگزیکٹو افسر (سی اِی او) ہیں، جو ’’عالمی امور کا انتظام چلانا جانتے ہیں، جو محکمہٴ خارجہ کو کامیابی سے چلانے کے لیے بہت اہم ہے‘‘۔

منتخب صدر نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ ’’ریکس ٹِلرسن کی جو بات مجھے اچھی لگتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ ہر طرح کی غیر ملکی حکومتوں سے کامیابی کے ساتھ معاملات طے کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں‘‘۔

چونسٹھ برس کے ٹِلرسن، ’ایکسون موبیل‘ سے مستعفی ہوچکے ہیں۔ سینیٹ میں اُن کی نامزدگی کی منظوری کے دوران، اُن کے روس کے ساتھ تیل کے شعبے میں ہونے والے سمجھوتے پیچیدگی پیدا کرسکتے ہیں، جہاں متعدد اہم قانون ساز پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ اُن کے قریبی تعلقات کے پیشِ نظر، وہ مشکل کا شکار ہیں۔ 2013ء میں ٹِلرسن کو روس کا ’آرڈر آف فرینڈشپ‘ کا ایوارڈ عطا کیا گیا تھا، جو غیر ملکیوں کے لیے مخصوص اعزازی تمغہ ہے۔

متعدد سینیٹر، جن میں جان مکین، جو سنہ 2008میں ری پبلیکن پارٹی کے ناکام صدارتی امیدوار تھے؛ اور مارکو روبیو، جنھوں نے 2016ء میں پارٹی کے صدارتی انتخاب کی پرائمری انتخابی مہم کے دوران اپنا نام واپس لے لیا تھا، شامل ہیں۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ اُنھیں ٹِلرسن کے روس اور پیوٹن کے ساتھ تعلقات پر تشویش ہے۔