روس بشارالاسد کے اقتدار کی مدت کو طول دینے کے لیے کوشاں

Bashar al-Assad

Bashar al-Assad

حلب (جیوڈیسک) شام کے شہر حلب پراسدی فورسز کے قبضے میں مدد کرانے کے بعد روسی صدر ولادی میر پوتن نے بشارالاسد سے ٹیلیفون پر بات کی اور انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ ماسکو شام میں باغیوں کے خلاف مہم جاری رکھے گا۔ مگر ساتھ ہی ایران، روس اور ترکی نے حلب میں مسلح باغیوں اور شہریوں کے انخلاء پر اتفاق کیا۔

اسی دوران ایران اور روس نے کازکستان کے صدر مقام ’آستانہ‘ میں شام کے تنازع کے حل کے لیے ایک کانفرنس کا بھی اعلان کیا۔ اگرچہ یہ کانفرنس ابھی ہونا ہے۔ اس میں کیا طے کیا جاتا ہے اور اس کانفرنس کے شام کے تنازع کے حل کے حوالے سے کیا نتائج سامنے آسکتے ہیں؟ اس پر کوئی تبصرہ قبل از وقت ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق مجوزہ آستانہ کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ کانفرنس بشارالاسد کو ’جنیوا‘ معاہدے کے بوجھ سے نکال کران کے اقتدار کو طول دینے کی ایک نئی کوشش ہے۔

روسی اپوزیشن کے مقرب سمجھے جانے والے دانشور اور ’ماسکو پلیٹ فارم‘ کےچیئرمین قدری جمیل کا کہنا ہے کہ ’آستانہ‘ میں مذاکرات کی کوشش جنیوا سمجھوتے کی ضد کو توڑنا ہے۔ تاہم قدری جمیل نے اس اصطلاح کی وضاحت نہیں کی۔

قدری جمیل کا کہنا ہے کہ آستانہ کانفرنس کا محض اختتام دوبارہ جنیوا سمجھوتے کی طرف لائے گا۔ تاہم یہ طے ہونا ابھی باقی ہے کہ آیا آستانہ کانفرنس میں کس نوعیت کے فیصلے ہوتے ہیں۔اس کانفرنس میں ایسا کیا ہوگا کہ شام کا معاملہ ایک بار پھر جنیوا میں زیربحث لایا جائے گا۔

روسی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ ’آستانہ‘ کانفرنس کے بعد ایسی ہی ایک اور کانفرنس بھی منعقد کی جائے گی کیونکہ ’جنیوا سمجھوتے کا راستہ زیادہ ضدی اور مشکل‘ ہے۔ بشارالاسد اور اس کے حامیوں کے لیے جنیوا کو ’بائی پاس‘ کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں ہوگا اور نہ ہی جنیوا سمجھوتے کو منسوخ کیا جاسکے گا۔ اس لیے جنیوا سمجھوتے کے بوجھ سے نکلنے کا راستہ نکالنا بھی ضروری ہے۔

رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ایران اور روس یہ چاہتے ہیں کہ جنیوا سمجھوتے کی ناقابل ترمیم شقوں کا معاملہ سے سے گول کردیا جائے۔ بالخصوص سنہ 2012ء میں ہونے والے جنیوا اجلاس میں شامی اپوزیشن پر مشتمل با اختیار عبوری حکومت کے قیام کے معاملے کو سرد خانے میں ڈالنے کی تجویز بھی شامل ہے۔

روس اور ایران اس شق کو بھی پس پشت ڈالنا چاہتےہیں۔ 2012ء میں منعقد ہونے والے جنیوا اجلاس میں سفارش کی گئی تھی کہ شام میں ایک ایسی با اختیار عبوری حکومت تشکیل دی جائے جس میں شامی اپوزیشن اور بشارالاسد دونوں کے مندوبین کو شامل کیا جائے۔

پہلے جنیوا اجلاس کے دوران مذاکرات کاروں نےاس بات سے اتفاق کیا تھا کہ عبوری حکومت میں شامل کیے گئے ناموں کو فریقین قبول کریں گے۔

اجلاس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ شام میں قائم کی جانے والی مجوزہ عبوری حکومت کو معطل کرنے کا صدر بشارالاسد کو کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ یہ حکومت عالمی نگرانی میں کام کرے گی۔

مگر اب روس اور ایران دونوں مل کر صدر بشارالاسد کو جنیوا میں منعقد ہونے والے اجلاسوں میں طے کردہ شقوں کی پابندی سے آزاد کرانا اور ان کے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ روس اور ایران کی طرف سے آستانہ کانفرنس کے اعلان کے بعد یہ بحث بھی زوروں پرہے کہ آیاس کانفرنس میں اپوزیشن کی کون سی قوتوں کو شامل کیا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کانفرنس میں ترکی اور روس کی مقرب سمجھی جانے والی شامی اپوزیشن کی نمائندہ تنظیموں کو شرکت کاموقع مل سکتا ہے۔ روس اور ترکی کے مخالف گروپ اس کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔