سعادت حسن منٹو

Saadat Hassan Manto

Saadat Hassan Manto

تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری
منٹو 11 مئی 1912 کو سمرالہ ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھےانہوں نے ابتدائی تعلیم امرتسر میں حاصل کی پھر کچھ عرصہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گزارا مگر تعلیم مکمل نہ کرسکے اور واپس امرتسر آگئے ابتداءمیں انہوں نے لاہور کے رسالوں میں کام کیا پھر آل انڈیا ریڈیو دہلی سے وابستہ ہوگئے جہاں انہوں نے بعض نہایت کامیاب ڈرامے اور فیچر لکھے۔ بعدازاں بمبئی منتقل ہو گئے جہاں متعدد فلمی رسالوں کی ادارت کی اس دوران متعدد فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی تحریر کئے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور چلے آئے اور اپنی عمر کا آخری حصہ اسی شہر میں بسر کیا۔منٹو کے موضوعات میں بڑا تنوع ہے۔ ایک طرف تو انہوں نے جنس کو موضوع بنایا دوسری طرف ہندوستان کی جنگ آزادی سیاست، انگریزوں کے ظلم وستم اور فسادات کو افسانوں کے قالب میں ڈھال دیا۔

انہوں نے بیس برس کی ادبی زندگی مین دو سو سے زیادہ کہانیاں تحریر کیں ان کی حقیقت پسندی، صداقت پروری، جرات و بے باکی اردو ادب میں ضرب المثل بن چکی ہیں۔سعادت حسن منٹو ایک عظیم فن کار ہیں ۔ ان کی عظمت کا ایک زبردست ثبوت یہ ہے کہ ان کی شخصیت اور فن اپنے معاصرین اور متاخرین کے لئے بے حد متنازعہ فیہ رہا ہے ۔ انکے بیشتر افسانوں نے بحث و تمحیص کے دفتر کھول دئے ہیں بعض نقاد ان فن نے ان کو محض عریاں نگار اور فحش نگار قرار دے کر رد کر دیا ہے۔ لیکن اکثر نے ان کے ہاں فن کاری کے اعلی نمونے تلاش کئے ہیں۔

اصل میں انہوں نے ہندوستانی تہذیب کے پس منظر میں سماجی ، ذہنی اور فکری زندگی کی عکاسی کی ہے ۔اور سماج میں رستے ہوئے ناسوروں پر نشتر رکھ دیئے ہیں۔معروضی طور پر ان کے موضوع محدود تھے لیکن جس طرح انہوں نے ان موضوعات کو برتا اردو کے سارے افسانوی ادب میں شاید ہی اس کی مثال مل سکے۔ منٹو کا فن پروپیگنڈے اور صحافت کا فن نہیں۔

Saadat Hassan Manto

Saadat Hassan Manto

ان کے ہاں نہ نثر کی شاعری ملتی ہے اور نہ ہی الفاظ کا گورکھ دھندا ۔ وہ جچے تلے انداز میں کم سے کم الفاظ کے ساتھ نہایت احتیاط سے اپنے موضوع کی تخلیق بازیافت کرتے ہیں ۔ انکا فن یقینآ شیشہ گری کا فن ہے ۔ وہ اپنی روایات کو گھما پھرا کر الفاظ کے حسن میں ڈھالتے اور دور از کار تشبیہات کی بیساکھیوں کے سہارے اپنے قارئین تک پہنچاتے ہیں ۔ وہ لفظ اور معنی کے جوہری ہیں اس لئے الفاظ کا بے جا اسراف نہیں کرتے بلکہ اپنے موضوع کو اس ڈھنگ دے پیش کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کے ضمیر کی جڑیں ہلتی ہیں۔

سعادت حسن منٹو بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں اور اس فن میں بہت کم لوگ انکے مد مقابل ہیں لیکن انہوں نے نثر کے دوسرے شعبوں میں بھی کارنامے سر انجام دئے ہیں ۔ انک مضامین اور انشائیے ان کے مکتوبات اور خاکے ، ریڈیائی ڈرامےاور ترجمے بھی ایک امتیازی شان رکھتے ہیں ۔سعادت حسن منٹو نے 18 جنوری 1955 ءکو جگر کی بیماری میں وفات پائی۔ وہ لاہور میں آسودہ خاک ہیں۔

Dr. Muhammad Riaz Chaudhry

Dr. Muhammad Riaz Chaudhry

تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری