قربانی ھمیں کیا سیکھاتی ہے

Qurbani

Qurbani

تحریر : وقار انسا
ہر سال مسلمان عیدالاضحی کے موقع پر سنت ابراھیمی پر عمل یيرا ہوتے ہوئے جانور اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں اور حضرت ابراھیم علیہ اسلام کے اللہ کے حکم پر سر تسلیم خم کرنے کی یاد تازہ کرتے ہیں – حضرت ابراھیم نے قربانی تو اس وقت بھی دی جب انہوں نے دعوت حق کا آغاز اپنے گھر سے کیا – ان کے والد آذر نے دعوت حق کو تسلیم نہ کیا بلکہ انہیں دھمکی دی کہ اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہیں سنگسار کروا دوں گا اورکہا کہ تو ھمیشہ ھمیشہ کے لئے مجھ سے الگ ہو جا -آپ نے جواب دیا کہ میں خدا کے سچے دین اور سچے پیغام کو نہیں چھوڑ سکتا – میں آج آپ سے جدا ہوتا ہوں یہ سبق تھا حق بات کے لئے کسی بھی صعوبت کا سامنا کرنے سے مت گبھرا ئیں یہ قربانی سبق ہے اللہ کی اطاعت گزاری کا اس کی فرمانبرداری کا اس کی رضا پر راضی رہنے کا اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کی زندگی میں اس کے بعد صبر شکر سکون اور اطمینان آ جاتا ہے

حضرت ابراھيم علیہ السلام کی زندگی میں صبر اور شکر بھی کمال درجے کا تھا –شیر خوارگی کے زمانے میں اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے حکم پر اپنی زوجہ کے ھمراہ جنگل اور ویرانے میں چھوڑ آئے یہ ان کی بہت بڑی قربانی تھی جو انہوں نے اطاعت گزاری کے لئے دی بعد میں اس جگہ مکہ کا شہر آباد ہوا اس وقت وہ بے آب و گیاہ ریگستان تھا اپنے بیٹے کی پیاس کو دیکھتے ہوئے حضرت ہاجرہ کوہ صفا اور کوہ مروہ پر بیقراری سے بھاگ بھاگ کر چڑھتی رہیں اللہ نے ان پہاڑوں کی سعی کو حج کا رکن بنا دیا کیونکہ اس قربانی میں انہوں نے اپنے خاوند کا ساتھ دیا- ننھے اسماعیل کی ایڑھیاں رگڑنے کے بعد وہاں اللہ نے فرشتے کے پر مارنے سے چشمہ جاری کر دیا

جو حج عمرہ اور خانہ کعبہ کا طواف کرنے والوں کے لئے بعد از طواف لازم قرار دیا گیا پھر اللہ کے حکم پر اپنے پیارے بیٹے کو قربان کرنے والے اللہ کے اطاعت گزار حضرت ابراھیم علیہ اسلام اور ان کے تابعدار فرزند حضرت اسماعیل علیہ اسلام کےقربانی کے جذبے کو مسلمانوں کے لئے سنت ابراھیمی کی پیروی کرنا لازم قرار دے دیا اللہ تعالی کا مقصود حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی نہ تھی بلکہ اصل مقصد حضرت ابراہیم کا امتحان تھا جس پر آپ پورے اترے حضرت اسماعیل ذبح ہونے سے بچ گئے لیکن اس کے صلہ میں قربانی کی یادگار قیامت تک کے لئے باقی رہ گئی اور آپ کی نسل سے ایک ایسے نبی مبعوث ہوئے جو پوری دنیا کے لئے نور و ہدایت کا سر چشمہ سرور انبیاء تھے ان ہی قربانیوں کا صلہ تھا کہ اللہ نے حضرت ابراھیم کو ساری دنیا کے لوگوں کا پیشوا اور امام بنایا قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے

Hazrat Ibrahim

Hazrat Ibrahim

یاد کرو جب ابراھیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب باتوں پر پورا اتر گیا تو اس سے کہا کہ میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ کی طرف سے آئی آزمائشوں پر ثابت قدم رہنا چاہیے اس امتحان سے سرخرو ہو کر اللہ کا قرب بھی ملتا ہے اور انعام بھی ! لفظ قربانی قرب سے ہے اس کا مطلب ہے نزدیکی یعنی اس سے مراد وہ عمل جس سے انسان اللہ کے قریب ہو جائے زندگی کے تمام معاملات میں بھی اس کا رنگ نظر آنا چاہیے-آج والدین اپنے بچوں کے رویے سے نالاں ہيی کہ وہ اطاعت گزار نہیں ہیں –اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ھم اللہ کے اطاعت گزار ہیں ؟ ھم اس کی راہ میں کیا قربان کر سکتے ہیں؟ کیا ھم دے سکتے ہیں! خواہشات کی قربانی محبت کی قربانی احساسات کی قربانی وقت کی قربانی

مال وزر کی قربانی یہی باتیں ھمیں زندگی کا مقصد ڈھونڈھنے کی ترغیب دلاتی ہیں کہ انسان دنیا میں آيا ہی اس خدائے واحدہ برحق کی عبادت کے لئے – نماز پنجگانہ ھم سے نیند کی آرام کی قربانی مانگتی ہے –صدقہ خیرات زکوۃ مال کی قربانی مانگتے ہیں یہ قربانی مثال تھی اس بات کی کہ اللہ کی راہ میں اپنی عزيز سے عزیز چیز قربان کرنے سے دریغ نہکیا جائے-اور اس کا صلہ بھی اللہ ضرور عطا کرتا ہے

ALLAH

ALLAH

جب انسان اللہ کی خوشی کو اپنی خوشی بنا لے تو پھر سارے کام آسان ہوجاتے ہیں زکوۃ بھی تو مال کی قربانی کا سبق ہے –اور جہاد اللہ کے دین کو بچانے کے لئے جان قربان کر دینے کا سبق ہے اس دنیا میں ہر رشتہ ہر واسطہ کسی نہ کسی قربانی سے ہی عبارت ہے اور یہ وہ تربیت ہے جو حضرت ابراھیم نے کی اور قربانی کی بنیاد رکھ کر انسان کواللہ کی رضا کے لئے دنیاوی قربانیوں کے بعد اس کے ثمرات سے مستفید ہونے کی مثال قائم کر دی

تحریر : وقار انسا