ان کہا دکھ

Sad Girl

Sad Girl

تحریر : امنہ مسعود جنجوعہ
کیا آپ کو اندازہ ہے کہ میں کتنی دکھی ہو چکی ہوں۔۔۔۔ نہیں نا۔۔۔۔میں آپ کو ایک واقعہ سْناتی ہوں شاید یہ واقعہ سننے کے بعد اندازہ ہو جائے۔۔۔ حضرت سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ ،آپ کا مقام اور آپ کی فہم و فراست یہ سب آپ ہی کے حصے میں آنا تھا کہ اتنی باریکی ، رحمدلی اور دوراندیشی سے محسوس کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ رات کے وقت پہرہ دے رہے تھے کہ ایک عورت کی آواز آئی جو نہایت دکھی انداز میں اشعار پڑھ رہی تھی اور اپنی تنہائی کا اظہار کر رہی تھی۔ اگلے ہی دن آپ نے پتہ لگایا کہ یہ فلاں عورت ہے اور اسکا شوہر اللہ کے راہ میں جہاد کرنے گیا ہوا ہے۔ آپ نے اسکی دلجوئی کرنے کے لیے فوری طور پر ایک عورت کو اسکے پاس بھجوا دیا اور اسکے شوہر کی فوری واپسی کا خط لکھوا دیا اور اپنی بیٹی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ اے بیٹی بتاؤ کوئی عورت کتنا عرصہ تک اپنے شوہر کے بغیر رہ سکتی ہے۔

وہ حیرت زدہ ہو کر پوچھنے لگی اے والد محترم خلیفہ رسول آپ جیسی شخصیت یہ مجھ سے پوچھ رہی ہے؟آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہارے ذریعے میں اپنی رعایا کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہوں اور ان کو مراعات دینے کے لیے ایسے فیصلے کرنا چاہتا ہوں جن سے سب کو فائدہ پہنچے۔ حضرت حفصہ نے فرمایا 4 ماہ یا 5 ماہ یا حد سے حد 6 ماہ۔ (سنن اب منصور 2663 روایات کیا گیا زین بن اسلم رضی اللہ عنہ سے)اسکے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے جہاد پر جانے والی افواج پر پابندی لگا دی کہ کوئی شخص بھی 6 ماہ سے زیادہ اپنے گھر سے دور نہیں رہے گا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حد مقرر فرما دی۔ دو ماہ کا سفری راستہ اور چار ماہ کی جہادی سرگرمی۔ کل ملا کر 6 ماہ میں ہر سپاہی کو واپس اپنی بیوی کے پاس آجانا ہو گا۔

مختلف روایات میں کم و بیش یہ ہی مضمون آیا ہے۔ کچھ میں 2 ماہ اور 4 ماہ کی مدت میں مرکوز ہے۔۔۔ وللہ اعلم( تلخیص الحبر 474/3 یہ روایات عبداللہ ابن دیناز) سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو حد مقرر کر دی مگر کیا آج کے حکمرانوں نے ، آج کے علماء نے، آج کے سپہ سالاروں نے بھی کی۔۔۔؟ انسانی فطرت اور برداشت کا تقاضا ہے کہ 6 ماہ سے ذیادہ بیوی کو شوہر سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔مگر پاکستان میں یہ حال ہے کہ بیویوں کوشوہر کی جدائی برسوں تک برداشت کرنی پڑتی ہے۔ انھیں نہ جانے کتنے عرصے تک مجبور کیا جاتا ہے کہ زندہ رہو۔۔۔! صبر کرو۔۔۔ ! انتظار کرو۔۔۔! حالانکہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 1400 سال پہلے حد مقرر کر دی تھی۔۔۔

ALLAH

ALLAH

ام المومنین نے خواتین کے دلوں کی ترجمانی کی تھی اور نہایت و ضاحت سے بتا دیا تھا۔۔۔کہ 6 ماہ سے زیادہ اسکو کسی حال اور کسی قیمت پر شوہر سے جدا نہ کیا جائے ۔یہ واقعہ ایک سند اور فتویٰ کا درجہ رکھتا ہے۔۔۔ پھر علماء نے کیوں نہ اسکو مشعل راہ بنا کر حکمرانوں کو تنبیہہ کیا۔۔۔؟ کیوں نا اسکی روشنی مین آج کے حالات و واقعات کے بارے میں فتوے دئے۔۔۔۔ ؟ کیوں نہ آج کی مسلمان عورت کے دکھ کو سمجھا۔۔۔؟ کیوں نہ اْسکے دل کی ترجمانی کی۔۔۔ ؟ میرے آنسوؤں کی نہ ختم ہونے والی لڑیوں اور بے چین راتوں کی آہوں، بے قرار دل کا کیا کوئی ایک شخص تو ذمہ دار نہیں۔۔۔۔ کون کون ہے ، کہاں کہاں ہے کب سے ہے سب کو پتہ ہے۔ جب جتنا اور جیسے میں نے اور مجھ جیسی خواتین نے اپنے پیاروں کے لیے تڑپ کر اپنے رب کو پکارا تو وہ رب تو اپنی بندی کے حال سے نا واقف نہیں۔

وہ رب تو اپنی بندیوں کے دل پر گزرنے والی قیامت کو بھولنے والا نہیں۔ وہ تو گھڑی کے ہزاروے حصے میں ہماری فریاد کو سْن کر ظالم کو ایک سیکنڈ میں تہس نہس کر دینے کی طاقت رکھنے والا ہے۔مگر اپنے رب سے میں بھی وہی کہوں گی جو میرے پیارے بنی آخرزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی دکھ اور اضطراب کے وقت فرمایا۔ آپ نے بھی تو ایذا پہنچانے والے بد ترین دشمنوں کو معاف فرما دیا تھا۔۔۔ طائف کے واقعہ میں ۔۔۔۔ اورفرمایا تھا۔اے اللہ اگر تو مجھ سے راضی ہے تو مجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں۔۔۔

Hazrat Mohammad PBUH

Hazrat Mohammad PBUH

میں بھی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں یہی کہوں گی۔۔۔ اے اللہ ،یہ حکمران کم فہم ہیں یہ نادان ہیں سمجھتے نہیں انکو معاف کر دے ، شاید انکی آئندہ نسلوں میں سے ایسے لوگ پیدا ہونگے جو احساس رکھنے والے ہوں گے اور ظلم سے توبہ کر لیں گے۔ اے اللہ اگر تو اور تیرا رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے راضی ہیں تو مجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں۔۔۔ میری دکھی ماوؤں ، بہنوں اور بیویوں کے لیے یہ خوشخبری بہت بڑی ہے جب وہ رب فرماتا ہے ،
لا تحزن ان اللہ معنا۔
غم مت کرو۔ اللہ تمارے ساتھ ہے۔

تحریر : امنہ مسعود جنجوعہ
mrsjanjua@gmail.com