سرگودھا آستانے پر ٢٠ افراد کا قتل

Sargodha Killing

Sargodha Killing

تحریر : میر افر امان
نہ جانے انسان وحشی کیوں بن جاتے ہیں۔ خاص کر ایسی جگہوں کے متولی جہاں سے کبھی دکھی لوگ فیض حاصل کیا کرتے تھے۔ آج کل یہ جگہیں ظلم کی آماجگائیں بن گئی ہیں۔ سرگودھا کے قریب گائوں ٩٥ شمالی میں الیکشن کمیشن کے ١٩ گریڈ کے ریٹائرڈ افسر عبدالوحید جو درگاہ پیرمحمد علی گجر کا متولی ہے۔ اس نے اور اس کے ساتھیوں نے ٢٠ مریدوں کو پہلے نشہ آور چیز کھلا کر بیہوش کیا، برہنہ کیا اور پھر ڈنڈے اور خنجر مار کے قتل کر دیا۔مقتولین میں ٤ خواتین،ایک خاندان کے ٧ افراد جن میں پیر علی محمد گجر کا اکلوتا بیٹا بھی شامل ہے۔ پیر علی محمد گجر دو سال پہلے فوت ہو گیا تھا۔ وحشی متولی عبدلواحید نے بیان دیا کہ اس نے پیر کے قتل کا بدلہ لیا ہے۔

متولی سمیت ٧ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔تشدد کے بعد زخمی حالت میں درگاہ سے دو خواتین اور ایک مرد بھاگ کر ڈی ایچ کیو ہسپتال پہنچے۔زخموں سے چورخاتون نے اپنے اور ہونے والے تشدد کی لرزہ خیز روداد سنائی۔ واقعہ کی اطلاع ملنے پر پولیس حکام اور ریسکو١١٢٢ کے ڈسٹرک آفیر موقعہ پر پہنچے۔لاشیں پوسٹمارٹم کے بعد ورثا کے حوالے کر دیں۔پیر علی محمد گجر کا بیٹا وزیر اعظم کے سیکورٹی اسٹاف میں بھی شامل تھا۔ پولیس کے مطابق ملزم نے بیان دیا ہے کہ اسے شک ہے کہ اس کے پیر علی محمد گجر کو زہر دے کر مارا گیا تھا اور مجھے بھی زہر دے کر مارنے کا منصوبہ بنایا جا رہا تھا۔اس لیے میں نے اپنے پیر کا بدلہ اور اپنے آپ کو بچانے کے لیے ان تمام افراد کو قتل کر دیا۔

جبکہ مقامی لوگوں نے گدی کا جھگڑا قرار دیا ہے۔پولیس تفتیش کر رہی ہے۔ گائوں کے لوگوں کے بیان کے مطابق متولی ہر ہفتہ درگاہ پر آکر مخصوص روحانی درس دیتا تھا۔ حسب معمول صدر اور وزیر اعظم صاحبان نے واقعہ کی بھرپورمزاحمت کی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے مرنے والوں کے لیے پانچ لاکھ اور زخمیوں کے لیے دد لاکھ کی امداد کا اعلان کیا ۔ جبکہ ضلعی انتظامیہ نے واقعے کی رپورٹ وزیر اعلیٰ کو ارسال کردی۔ صاحبو! پہلے کی طرح پھر اس کے بعد معاملہ دب جائے گا اور لوگ بھی اس سفاکیت کو بھول جائیں اور اپنے اپنے روزگاردنیا میں مشغول ہو جائیں گے۔ حکومتیں بھی یوں ہی چلتی رہیں گے ایسے واقعات بھی پھر رونماء ہوتے رہیں گے۔برصغیر کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے بزگان دین مزارات میںدفن ہیں۔ ان برزگوں کے پاس غیر مسلم سکون کی تلاش میں آتے تھے۔ یہ ان کو اسلام کی پر امن دعوت دیتے تھے۔ ان نیک لوگوں کی محنت سے لاکھوں غیر مسلم لوگ مسلمان ہوئے تھے۔ تاریخ میں مزارات پر ایسے سفاک وقعات کی کوئی بھی مثال نہیں ملتی۔ معاشرے کے دوسرے حلقوں کے ساتھ آج کل ان مزارات پر دین مخالف سرگرمیاں ہوتی ہیں۔

ضعیف عقیدے ، کم علم لوگ اور خاص کر دین کا صحیح علم نہ رکھنے والے ان جعلی پیروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ اس جیسے واقعات پاکستان میں کہیں نہ کہیں رونماء ہوتے رہتے ہیں۔ صاحبو! ہماری حکومتیں جن کے فرائض منصبی میں عوام کی دینی معلومات میں اضافہ کرنا بھی شامل ہے ۔ وہ عوام کو کھیل تماشے اور فیشن شو اور دیگر غیر ضروری افعال تو بتا تے ہیں۔ نہیں بناتے تو دین کا صحیح علم نہیں بناتے۔ گو کہ میڈیا ہے آزاد ہے لیکن پھر بھی اس پر حکومت کا قانون لاگو ہوتا ہے۔ حکومت کے تحت چلنے والے الیکٹرونک پر نہیں ہوتے تو امر و نہی الامنکر کے پروگرام نہیں ہوتے۔اسی طرع ہمارے دینی علما کا بھی یہ کام ہے کہ لوگوں کے دینی عقائد قرآن اور حدیث کے علم کے ذریعے سے صحیح کریں۔ ہمارے بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کی بھی اخبارات میں خبریں لگتی رہی ہیں کہ فلاں وزیر اعظم نے فلاں جگہ پر مزار گئیں اورپیر صاحب نے انہیں ڈنڈا مارا۔ اس سے جاہل لوگ سمجھتے ہیںکہ ڈنڈے میں کوئی کرامات ضرور ہے جو بڑے لوگ بھی ڈنڈے مروانے پیروں کے پاس جاتے ہیں۔

عوام کو یاد رکھنا چاہیے کہ سکون تو اللہ سے دل لگانے اسے یاد رکھنے اور نماز ادا کرنے سے ملتا ہے۔ پیر کے کسی مزار پر ڈنڈے کھانے سے نہیں ملتا۔ ایک بہت ہی اچھی بات کہ میڈیا پر معاشرتی برائیوں کے خلاف پر پروگرام ہو رہے ہیں حکومت میڈیا کی طرف سے کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کے خلاف مہم چل رہی ہے۔ اس سے لوگوں میں بھی آگاہی اور شعورپیدا ہوا ہے۔ اور ملاوٹ کرنے والوں کو حکومت سزائیں بھی دے رہی ہے۔ لوگ کھانے پینے کی چیزوں کی خرید میں احتیاط بھی برت رہے ہیں۔ جعلی ادویات بنانے والے انسانیت دشمن لوگوں کے پیچھے بھی الیکٹرونک میڈیا لگا ہوا ہے۔ کچھ کیسز سامنے آنے پر ایسے لو گوں کو سزائیں بھی سنائی گئی ہیں۔ حکومت نے قانون سازی بھی کی ہے اور جرمانے اور قید کی سزا بھی رکھی گئی ہے۔

اسی طرع الیکٹرونک میڈیا کی ٹیمیں قانون نافذ کرنے والے حکومتی اہل کاروں کے ساتھ جا جا کر جعلی پیروں کے آستانوںپر غریب عوام کے ساتھ ان کے غلط رویوں کے خلاف بھی پروگرام ہو رہے ہیں ۔ الیکٹرونک میڈیا کی ٹیمیں پہلے مصنوی مرید بن کر مزاروں پر جاتے ہیں۔ غریب عوام کے ساتھ جعلی پیروں کے رویہ کے خودچشم دید گواہ بن کر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے ساتھ مل کر ان کو قانون کے حوالے کر رہے ہیں۔ ان کو عوام کے سامنے ننگا کر رہے ہیں تاکہ غریب عوام ان کے جھانسوں میں نہ آئیں۔ ان پروگراموں سے عوام میں جعلی پیروں کے خلاف نفرت اور آگاہی پیداہو رہی ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ ان کے خلاف سخت سے سخت قانون بنا کر ان کو قرار واقع سزا دیں۔

معاشرے کی اصلاح کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ حکومت کو قانون سازی اور جعلی پیروں کو قانون کی گرفت میں لانا چاہیے۔عوام کو بغیر تحقیق کے کسی جعلی پیر کی مریدی نہیں کرنا چاہیے۔علماء کا ممبر و مہراب سے عام لوگوں کے عقائد درست کرنے کی مہم شروع کرنی چاہیے۔ اس میں سب سے اہم کام ا لیکٹرونک میڈیاکا ہے جو وہ کر رہاہے۔ اس میں اسلام دشمن عناصر پر بھی حکومت کی نظر ہونی چاہیے۔ کہیں وہ تو اسلام کو بدنام کرنے کی مہم تو نہیں چلا رہا۔ کچھ بھی ہو پاکستان کے پورے معاشرے جس میں حکومت، علمائ، میڈیا اور عوام شامل ہے مل کر اس عذاب سے عوام کی جان چھڑانا چاہیے۔ ساتھ ساتھ اللہ سے دعا بھی کرنی چاہیے کہ اللہ ہمارے عوام کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان