سعودی عرب میں اسلامی سربراہی کانفرنس اور دہشت گردی کا فتنہ

Saudi Arabia-Islamic Summit Conference

Saudi Arabia-Islamic Summit Conference

تحریر : منذر حبیب
سعودی عرب میں اسلامی سربراہ کانفرنس میں وزیر اعظم نواز شریف سمیت دیگر اسلامی ملکوں کے سربراہان شریک ہوئے ہیں اور باہم رابطے و ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ قبل ازیں امریکہ اور سعودی عرب میں 380 ارب ڈالرز کے معاہدے طے پائے ہیں۔ عرب ٹی وی کے مطابق شاہ سلمان اورامریکی صدر ٹرمپ نے ان معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔ امریکہ اور سعودی عرب میں دفاع و دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیاہے۔ دونوں ممالک کے وزراء دفاع میں عسکری تعاون بڑھانے کے معاہدے کی یادداشتوں کا تبادلہ ہوا۔ سعودی عرب میں بلیک ہاک ہیلی کاپٹرز کی تیاری سے متعلق معاہدے کی یادداشت کا تبادلہ بھی کیا گیا۔اس معاہدے کے تحت امریکہ سعودی عرب کو میزائل اور دیگر عسکری سامان دے گا۔ سعودی عرب کے وزیرخارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ اسلامی اور امریکی سربراہ کانفرنس کے اختتام پر سعودی عرب کی میزبانی میں انسداد دہشت گردی مرکز قائم کیا جائے گا۔ ہفتے اور اتوار کو ریاض میں تین سربراہ کانفرنسیں ہوئی ہیں۔ سعودی ”ارامکو” کمپنی نے امریکہ کے ساتھ 50 ارب ڈالر یعنی 180 ارب ریال مالیت کے 13 معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔ ارامکو کمپنی کے چیف ایگزیکٹو امین الناصر کے حوالے سے بتایا معاہدوں پر فوری عملدرآمد ہوگا اور یہ چند برس کے دوران مکمل کرلیے جائیں گے۔

سعودی عرب نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ایک آن لائن مرکز کے بھی قیام کا اعلان کیا ہے۔رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل محمد العیسیٰ نے کہا ہے کہ سرزمین حرمین شریفین میں داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے ڈیجیٹل مرکز قائم کیا جا رہا ہے۔ رابطہ عالم اسلامی جنگی بنیادوں پر اسلام کی اعتدال پسندانہ تعلیمات کو عام کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ دنیا بھر میں اس کے ادارے اور افراد انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے کام کررہے ہیں۔ریاض میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ رابطہ عالم اسلامی نے دنیا بھر میں کئی مبلغین کو کام سے روک دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کی بعض ذمہ دار تنظیموں اور اداروں کے قانونی پہلو پرنظرثانی کی جا رہی ہے۔ ایسا کرنا رابطہ عالم اسلامی کا اختیارات میں شامل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ داعش میں 101 ملکوں کے 45 ہزار جنگجو شامل ہوئے۔ یورپی ملکوں سے 1500 داعشی سامنے آئے۔ ان سب کو مذہبی تعلیمات کی آڑ میں ورغلایا گیا ہے۔

دہشت گرد تنظیمیں اسلامی تعلیمات اور مذہب کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی روک تھام میں سعودی عرب کی خدمات غیرمعمولی ہیں۔ مملکت نے نہ صرف اندرون بلکہ بیرون ملک بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے دنیا بھر میں تین ایسے مراکز کے قیام میں مدد کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ، سعودی عرب ، ترکی اور دیگر کئی ملک تکفیری گروہوں کی دہشت گردی کا شکار ہیں اور یہ سب ملک مل کراس فتنہ کے خاتمہ کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف نے اسلامی فوجی اتحاد کی قیادت سنبھال لی ہے جس کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات مزید مضبوط ہوئے ہیں اور یہ دونوں ملک خاص طور پر پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ جنرل (ر) راحیل شریف جب آرمی چیف تھے تو اس وقت بھی انہوں نے سعودی عرب کے کئی دورے کئے، تکفیری گروہوں کی دہشت گردی کچلنے کے لئے مفید مشورے دیئے اور عملی تعاون بھی کیا، جس سے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات نہ صرف مزید مستحکم ہوئے، بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون بڑھا ۔اس دوران پاکستان، سعودی عرب اور ترکی کی فوجوں کی طرف سے مشترکہ مشقیں بھی کی جاتی رہی ہیں۔

اسلامی فوجی اتحاد کا کمانڈ سنٹر سعودی دارالحکومت ریاض میں ہو گا۔ اتحاد میں شامل مسلمان ملکوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں وہ مسلم ممالک ہوں گے ،جن کے پاس باقاعدہ فوجی سٹرکچر موجود ہے۔ جیسے سعودی عرب،پاکستان، ترکی، بحرین، بنگلہ دیش، مصر، اردن، نائیجریا، عمان اور متحدہ عرب امارات ہیں۔ دوسری صف میں وہ ممالک شامل کئے جائیں گے جن کی باقاعدہ تربیت یافتہ فوج اور کمان ابھی مکمل نہیں ہے، جیسے اریٹیریا، گیبون، کینیا، کویت، لبنان، مالدیپ، مالی، موریطانیہ، مراکش، نائیجیریا، سینیگال، سری لیون، صومالیہ، سوڈان، ٹوگو، یمن اور تیونس وغیرہ۔۔۔ تیسری صف میں وہ ممالک ہوں گے جن کی رکنیت زیر غوراور زیر تکمیل ہے۔ ان ملکوں میں افغانستان آذر بائیجان، انڈونیشیااور تاجکستان وغیرہ شامل ہیں۔دہشت گردی کے خلاف مسلم ممالک کے جوائنٹ کمانڈ سنٹر کو پاکستان کے جی ایچ کیو کے رول ماڈل پر بنایا جارہا ہے۔دہشت گردی کے خلاف اسلامی فوجی اتحاد کے قیام کا اعلان پندرہ دسمبر 2015ء کو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف کی جانب سے کیا گیا،اس اعلان میں پاکستان، سعودی عرب اور بعض دیگر اہم ملکوں کی مسلسل مشاورت شامل تھی۔

اسلام دشمن قوتوں کی جانب سے پچھلے کچھ عرصے میں مسلم ملکوں کے خلاف جنگ کا انداز تبدیل کرتے ہوئے تکفیری گروہوں کو پروان چڑھایا گیا، فرقہ واریت میں تشدد او ر شیعہ سنی لڑائی جھگڑے کھڑے کئے گئے ،تاکہ مسلمان باہم ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان رہیں اور آپس میں لڑ کر ہی اپنے وسائل برباد کرتے رہیں۔ ان کی اس تخریب کاری کے باعث سارا مشرق وسطیٰ لپیٹ میں آگیا، جس طرح پاکستان میں خودکش حملوں اور کفرکے فتوے لگا کر قتل و غارت گری سے دشمن قوتوں نے ملک کو بے پناہ نقصان پہنچایا تھا، اسی طرح سعودی عرب ، ترکی اور دوسرے اسلامی ملکوں میں بھی تکفیری گروہوں کی آبیاری کی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہاں بھی ایسی کارروائیوں کا آغاز ہو گیا۔اس وقت مسلمان ملکوں کو جہاں بیرونی قوتوں کی جارحیت کا سامناکرنا پڑ رہا ہے، وہیں اندرونی طور پر بھی سخت خطرات درپیش ہیں۔ یہ جنگ کی ایک نئی شکل ہے جو مسلمانوں پر مسلط کی گئی ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے جب کبھی میدانوں میں اسلام دشمن قوتوں کے خلاف کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

دشمن قوتوں نے ہمیشہ مسلم معاشروں ا ور خطوں میں فتنہ تکفیر کو ہوا دی گئی اور کفر کے فتوے لگا کر قتل و غارت کے راستے ہموارکئے گئے۔ آج بھی یہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔مسلم معاشروں میں ایسے گروہ کھڑے کر دیئے گئے ہیں جن میں شامل درندے مسجد نبوی پر خودکش حملہ اور بیت اللہ شریف پرمیزائل حملوں کی مذموم سازشوں سے بھی بازنہیں آتے اور سرزمین حرمین شریفین پر حملوں کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔موجودہ صورت حال یہ ہے کہ دشمنان اسلام کی پروردہ شدت پسند تنظیمیں، چاہے وہ کسی بھی ملک میں ہوں، انہیں بڑے پیمانے پر اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے، کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں، لیکن دوسری جانب انہی بیرونی قوتوں کی طرف سے دنیا بھر میں یہ ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ وہ تکفیری گروہوں کے خاتمے کے لئے کردارا دا کر رہے ہیں،جبکہ یہ بہت بڑا جھوٹ اور دھوکہ ہے۔

King Salman bin Abdul Aziz

King Salman bin Abdul Aziz

ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے یہ تجویز دی گئی تھی کہ مسلمان ملکوں کو نیٹو طرز پر اسلامی ملکوں کا فوجی اتحاد بنانا چاہیے، بنیادی مقصد یہ ہو کہ مشترکہ طور پر پالیسیاں ترتیب دے کرمسلمان ملکوں سے فتنہ تکفیر اور خارجیت کی بیخ کنی کی جائے اور اسی طرح مظلوم مسلمانوں کی بھی داد رسی کی جاسکے۔ سعودی عرب کی زیر قیادت فوجی اتحاد میں شامل ملکوں کی دلی خواہش تھی کہ مسلم امہ کا دفاعی مرکز پاکستان ہو ،جس نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے ملک میں تکفیری گروہوں اور بیرونی ایجنسیوں کے پھیلائے گئے نیٹ ورک کو ختم کرنے میں شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں، اگر اس کی فوج اس اتحاد کی سربراہی کرتی ہے تو اس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو حوصلہ ملے گا اور افواج پاکستان کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے اسلامی ملکوں کو بھی اپنے معاشروں سے فتنہ تکفیر اور خارجیت کے خاتمے میں کامیابی حاصل ہوگی۔اللہ کا شکر ہے کہ جنرل (ر) راحیل شریف کی قیادت سنبھالنے سے یہ اسلامی فوجی اتحاد دن بدن مزید مضبوط ہو رہا ہے۔سعودی عرب میں ہونے والی حالیہ سربراہ کانفرنسوںاور مسلمان ملکوں کی باہمی ملاقاتوں سے بھی اس اتحاد کو بہت زیادہ تقویت ملے گی۔ آنے والے دنوں میں اس اتحاد کی زیر قیادت فتنہ تکفیر اور دہشت گردی کے خاتمہ میں ان شاء اللہ مدد ملے گی اور مسلمان ملک امن و سکون کے گہوارے بن سکیں گے۔

تحریر : منذر حبیب