سکینڈل۔۔۔۔سازش یا حقیقت ۔۔۔۔چند سوالات ۔۔۔۔ایگزیکٹ

Axact

Axact

تحریر : حسنین لیاقت عباسی
ویسے نیویارک ٹائم کی رپورٹ کو قرآن و حدیث سمجھ کر مان لینا بڑی بے وقوفی ہوگی پچھلے کچھ عرصے میں وہ بہت سی رپورٹس کو شائع کر کے ان کے اوپر اپنا موقف تبدیل بھی کر چکے ہیں اور اس کے بعد معذرت بھی کر چکے ہیں۔مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ایگزیکٹ سکینڈل کے بعد پاکستانی میڈیا اور ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پھرتیاں قابل دید ہیں اور ان اداروں کی پھرتیاں اپنے ساتھ بہت سے سوالات پیچھے چھوڑ جاتی ہیں۔اس سے پہلے بھی نیویارک ٹائمز نے پاکستان کے حوالے سے بہت سی خبریں اور رپورٹس شائع کی لیکن اس قدر تیزی نہ تو ہمارے میڈیا نے دیکھائی اور نہ ہی ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ۔فرض کریں کہ ایگزیکٹ جعلی ڈگریاں فروخت کرنے کا کاروبار کرتی ہے اور یہ کاروبار ایگزیکٹ کمپنی پچھلے کئی سالوں سے کر رہی ہے کیا

اس وقت نیویارک ٹائمز کے رپورٹر یہ رپورٹ شائع کرتے تو شاید ہمارا میڈیا اس حوالے سے ایک چھوٹی سی رپورٹ چلا کر معاملے کو بھول جاتا لیکن اب مسئلہ نہ ہی جعلی ڈگریوں کا ہے اور نہ ہی نیویارک ٹائم کی اس رپورٹ کا۔مسئلہ ہے میڈیا گروپس کے کے مفادات کا جن کے تحفظ کیلئے وہ آج کل ٹوٹ کر ایگزیکٹ کمپنی کے پیچھے پڑھ چکے ہیں۔ایگزیکٹ کمپنی پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک ایسا میڈیا گروپ متعارف کروا رہی ہے جو کہ پاکستان میں اپنی نشریات شروع کرنے سے پہلے ہی اپنا نام بنا چکا ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایگزیکٹ کمپنی جو کہ بول گروپ چلا رہی ہے اس نے تاریخ میں پہلی دفعہ صحافی برادری کے حقوق کی آواز اٹھائی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تمام میڈیا گروپس کے نامور صحافی اس وقت آپ کو بول کی ٹیم میں نظر آئیں گے۔بول ابھی تک اپنی نشریات تو شروع نہیں کر سکا لیکن پچھلے دو سال سے جو جو صحافی اس گروپ میں کام کر رہے ہیں

ان سب کی تنخواہیں اور مراعات ان کو بروقت ادا کر رہا ہے۔حالانکہ ہمارے میڈیا کی روایات کے مطابق یہاں پر صحافی کو تین یا چار مہینے کے بعد تنخواہیں دینے کا رواج ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بول پاکستان کا وہ واحد میڈیا گروپ بننے جا رہا ہے جس کے پاس ہر وہ ٹیکنالوجی موجود ہو گی جو کہ دنیا کے کسی بڑے گروپ کے پاس موجود ہے۔صحافی برادری کا یہ بھی خیال ہے کہ بول نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے ناظرین کی توجہ کا مرکز بنے گا

Pakistan

Pakistan

اس کے آنے کے بعد باقاعدہ سے سے پاکستان کی خبر کو بھی پوری دنیا میں پذیرائی مل سکے گی اور شائد یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا بول کی اس کامیابی کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور ایگزیکٹ کے اس سکینڈل کو پوری دنیا میں جو کوریج مل رہی ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ایگزیکٹ کپمنی اگر یہ جعل سازی کر بھی رہی تھی تو کم از کم اس وقت بھی ہزاروں لوگ ان کے ادارے میں اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ان میں سے کبھی کسی نے اس جعل سازی کی کوئی شکایت نہی کی۔آخر کیوں؟؟رپورٹ کے مطابق تین سو سے زائد ایسی ویب سائٹس ہیں جن کو مبینہ طور پر ایگزیکٹ کمپنی چلا رہی ہے ۔ اور لوگوں سے پیسے لے کر جعلی ڈگری کا کاروبار کر رہی ہے ۔ ایک لمحے کیلئے ہم اس بات کو مان بھی لیتے ہیں ۔ لیکن پھر یہ سوال پیدا ہو گا کہ ایگزیگٹ کمپنی ابھی تک لاکھوں افراد کی جعلی ڈگری جاری کر چکی ہے کیونکہ وہ یہ کاروبار سے پچھلے کئی سالوں سے کر رہی ہے۔

کیا کبھی کسی فرد کی طرف سے کوئی ایسی شکایت سامنے آئی ؟؟؟ کیا کبھی کسی نے ایگزیکٹ کے خلاف کسی بھی کورٹ میں کوئی درخواست دائر کی ؟؟؟کیا حکومت پاکستان کو اس جعل ساز کمپنی کا علم پہلے سے تھا ؟؟؟؟ کسی ایگزیگٹ ملازم نے پہلے سے کسی میڈیا والے کو یہ رپورٹ کیوں نہ دی ؟؟؟ کیا جعل سازی صرف ڈائریکٹرز کرتے تھے اور وہ بھی اتنے بڑے پیمانے پر ؟؟؟ جعلی ڈگری کے بعد کتنے ملازمین پکڑے گئے ؟؟؟ جعلی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کتنے لوگ ڈاکٹرز یا انجینئرز بن گئے ؟؟؟ اور یہ لوگ کن کن اداروں میں کام کر رہے ہیں ؟؟؟ یہ وہ چند سوالات ہیں جس کا جواب بالخصوص نیو یارک ٹائم اور بالعموم پاکستانی میڈیا کو تحقیقات کر کے سامنے لانا ہوں گے۔

رپورٹ کے مطابق تین سو سے زائد ایسی ویب سائٹس ہیں جن کو مبینہ طور پر ایگزیکٹ کمپنی چلا رہی ہے ۔ اور لوگوں سے پیسے لے کر جعلی ڈگری کا کاروبار کر رہی ہے۔ ایک لمحے کیلئے ہم اس بات کو مان بھی لیتے ہیں ۔ لیکن پھر یہ سوال پیدا ہو گا کہ ایگزیگٹ کمپنی ابھی تک لاکھوں افراد کی جعلی ڈگری جاری کر چکی ہے کیونکہ وہ یہ کاروبار سے پچھلے کئی سالوں سے کر رہی ہے ۔ کیا کبھی کسی فرد کی طرف سے کوئی ایسی شکایت سامنے آئی ؟؟؟ کیا کبھی کسی نے ایگزیکٹ کے خلاف کسی بھی کورٹ میں کوئی درخواست دائر کی ؟؟؟

Hasnain Abbasi

Hasnain Abbasi

تحریر : حسنین لیاقت عباسی