یہ میرا ملک ہے پاکستان حصہ دوئم

Poilice

Poilice

یہ میرا ملک ہے حصہ اول

تحریر: شاہ بانو میر
منظر بدلتا ہے اندرون شہر کا ایک محلہ اینٹوں سے تعمیر شدہ گھر وہاں کے رہائشیوں کی کمزور مالی حالت کے عکاس ہیں آدھی رات کا وقت ہے اور پولیس کا چوکس دستہ دروازہ کھڑ کھڑا کے دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہے دکھائے جانے والے منظر میں عقب سے آذان فجر کی مسحور کن آواز فضاؤں کو سحر زدہ کر دیتی ہے دروازہ کھلتا ہے فرشتہ صورت وہی باریش بزرگ دکھائی دیتا ہے جس کے چہرے پے اس بے وقت مداخلت پر تعجب کے گہرے سائے دکھائی دے رہے تھے اسکو پرے دھکیلتے ہوئے لیڈی کانسٹیبل اندر داخل ہوتی ہیں اور اسی ادھیڑ عمر خازتون کو جو زچہ بچہ کے ایک محلے میں موجود مرکز سے وابستہ ہے ان دونوں کوپولیس وین میں بٹھا کر ساتھ لے جاتی ہے۔

پھر منظر تبدیل ہوتا ہے اور اب مندرجہ بالا دوسرے مںظر والی خاتون کا گھر ہے
اس کا تعلق اس خاتون سے تھا جس کو پہلے گرفتار کیا گیا یہ عورت گھروں میں روابط پیدا کر کے زچہ کے ہسپتال جانے کے وقت کی اطلاع حاصل کر کے دوسری خاتون کو مطلع کرتی تھی ۔ پھر ایک مرد پھر دوسرے شہر سے دوسرا تیسرے شہر سے تیسرا
یوں بچہ مافیا اکٹھا کر کے مزید تفتیش کا دائرہ وسیع کر کے مفصل خوفناک بیانات قلمبند کئے گئے ۔

Pakistan

Pakistan

اللہ اکبر کیا یہ پاکستان ہے؟ شیرخوار بچوں کی درجنوں تصاویر سے بھری یہ البم وہ تھی جس میں ان نومولود بچوں کی تصاویر تھیں جو اس خاتون اور باریش بزرگ نے نرسوں کے ذریعے ہسپتالوں سے اغواء کروائے بچوں کی تھیں – یہ بچے جن کی مائیں آج بھی اداس ہیں اور یہ ہیں جو ان بچوں کو جنس ارزاں کی طرح بولیاں لگا کر لڑکی کو چالیس سے پچاس ہزار میں اور لڑکے کو 1 لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ تک میں فروخت کر کے عرصہ دراز سے دنیا کے سامنے ایک نیک صلوۃ و سنت کے پابند محترم جوڑے کی صورت زندگی گزار رہے تھے ۔

دیگر خواتین معاشرے میں عام سفید پوش گھرانے کی خواتین تھیں – پرسکون نڈر بے خوف دوسری جانب انتہائی رقت آمیز مناظر تھے ایک خاتون کے انکشافات نے جیسے اس ملک کے کھوکھلے نظام کو کھول کر رکھ دیا – مندمل زخم پھر ہرے ہو گئے داستانوں کو سن کر ماؤں کو وہ صدمہ پھر سے یاد آگیا کئی بچے ایسے تھے جو بے وقت جانے کی وجہ سے ان میں سے کسی کی مطلوبہ شخص سے ملاقات نہ ہو سکی تو دسمبر کی یخ بستہ رات مین اس بچے کو عام سے کمبل میں وہیں صحن میں کھلی جگہہ پے رکھ کر رقم پھر وصول کرنے کا سوچ کر واپس چلا گیا ۔ اور مزید مشکوک سرگرمیوں میں مصروف ہونے کی وجہ سے مطلوبہ شخص بھی گھر واپس نہیں آیا – دوسرے روز جب اسکی واپسی ہوئی تو اس نے دیکھا کہ بھوک سردی سے ٹھٹھرکر بچے کی اکڑی ہوئی لاش اسکی منتظر تھی بچوں کو کسی نے کہیں بیچا تو کسی نے کہیں جیسے زندہ وجود نہ ہوں بلکہ بے جان کھلونے ہوں ۔

Dance girl wearing Agony

Dance girl wearing Agony

لڑکیوں کے بارے میں روح فرسا انکشافات کہ انہیں بازار حسن سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے آگے بیچ دیا گیا اور جب بازار حسن پہنچے تو سامنے دس گیارہ برس کی بچی گھنگرو پہنے ڈانس اسٹیپس سیکھ رہی تھی وہ بچی نجانے کن کن گھروں کو اس دن تڑپا گئ کہ جن کے گھروں سے بچیاں اغواء ہوئیں اس ملک کا دردناک انجام یہ دیکھا کہ اس مافیا نے بڑی شخصیات تک رسائی کا دعویٰ کیا جن کے فراہم کردہ تحفظ کے باعث ان کا مکروہ دھندا مکمل طور سے محفوظ چل رہا تھا۔

ان کے ساتھ ان کے مضبوط روابط کی طاقت کا انداذہ اگلے منظر میں ہوا
ایسی گھناؤنی وارداتوں میں ملوث خواتین کو دوسرے روز علاقے کا با اثر آدمی کسی اوپر بیٹھے بڑے کی ایماء پر مغلظات بکتے ہوئے پولیس پر یوں برس رہا تھا گویا سامنے پولیس نہیں کھڑی کوئی عام سی چیز ہے – پولیس کا اپنا کمزور دفاع اس ملک کے نظام پر تمانچہ تھا – وہ تابڑ توڑ سوالات پر سوالات کر رہا کہ پولیس کی گرفتاریوں کا طریقہ کار غیر قانونی ہے – یوں وہ تمام کی تمام خواتین کو اس باریش کو بآسانی چھڑا کر دکھی خاندانوں اور معاشرے کیلئے کئی سوالات چھوڑ گئے –
کہ یہ میرا ملک ہے پاکستان

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر: شاہ بانو میر