حساس جاسوسی آلات اور ہماری سادگی ؟

Student

Student

تحریر: شاہ بانو میر
زمانہ طالبعلمی میں جب کبھی چھٹیاں ہوتیں تو ہمارے گھر میں موجود لائبریری میں گویا کتابوں کی بہار آجاتی یا یوں کہئے کہ میلہ لگ جاتا ڈیڈی جان ہمیں ہر قسم کی معلوماتی اور ذہنی سوچ بلند کرنے والی کتابیں کثیر تعداد میں لا دیتے اور ہم سب بہن بھائی ایک دوسرے کے ہاتھ میں موجود کتاب کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے جیسے بھائی کو جو ملی وہ مجھ سے اچھی ہے ـ اور بھائی کا خیال ہوتا کہ جو اس کے ہاتھ میں ہے لگتا وہ زیادہ دلچسپ ہےـ یہ تو تھے بچپن کے دن ـ

کالج تک پہنچے تو کتابوں کا مزاج تبدیل ہواـ گھر میں ڈائجسٹ آنے لگے ـ انگلش میگزین ڈیڈی جان اپنے لئے لاہور سے خرید کر لاتے ـ اور اب بھائیوں نے جاسوسی رسائل پڑھنے شروع کر دیے ابنِ صفی کا نام پاکستان میں کون نہیں جانتا جاسوسی ناولوں کا الگ نام جن کی لکھی ہوئی کتابیں اور ان میں بیان کردہ جاسوسی کے انداز اور عمران ایکسٹو جولیا صفدر اور دیگر ٹیم کی مہم جو کہانیاں دلچسپ پیرائے میں بیان کی گئیں ـ ان کے طریقہ تفتیش میں شامل جاسِوسی آلات ان کے تنصیب کرنے کی جگہیں مکمل تفصیل سے بیان کی گئی جنہیں عام پاکستانی پڑھ کر بھی کچھ نہ کچھ معلومات حاصل کر چکا ان آلات کے متعلق ـ

مجھے آج کی خبریں سن کر اپنے ملک کے مایہ ناز حفاظتی اداروں کی معلومات اور وہ بھی موجودہ دہشت گردی کے موسم میں سادگی پر تعجب ہورہا ہے ـ خبر ہے کہ سابقہ وزیر داخلہ ملک رحمان صاحب نے آج پاکستان کے در و دیوار یہ بیان دے کر ہِلا دیے کہ آپ کے خفیہ اداروں کے ہونے کے باوجود جدید ٹیکنالوجی کو پاکستان میں واضح طور پے استعمال کر کے آپ کے حساس اداروں کی گفتگو جس میں ایوان ہائے اقتدار سے لے کر پارلیمنٹ سینیٹ اور دیگر حساس اداروں کی گفتگو کو ریکارڈ کیا جاتا ہے ـ اب یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے جو جنونیوں کی طرح ہر روز ایک نیا خلائی راکٹ خلا میں بھیجا جاتا ہے وہ کیا

Spy Satelllite Description

Spy Satelllite Description

سیرو تفریح کے نئے پک نک اسپاٹ بنانے وہاں جا رہے جی نہیں
یہ آسمان سے آپ کے ملک کے ایک ایک چپے کو آپ کی حساس حرکات و سکنات کو اور آپکی خفیہ گفتگو تک کو ریکارڈ کر لیتے ـ کئی دہائی قبل جب ہم ابن صفی کو پڑہتے تھے تو اس وقت وہ لکھتے کہ جاسوس یا سراغرساں کے پاس مائکرو چِپ ہوتی یہ مائکرو چِپ کیا ہے؟ یہ مائکرو چپ اس وقت جادو کی پڑیا لگتی کہ اتنی ننھی سی ہو کر اتنا بڑا ڈیٹا ـ لیکن یہ ٹیکنالوجی ہر ملک اپنے خاص حساس اداروں کو دیتا جس سے وہ جاسوسی اور حساس نوعیت کی معلومات اکٹھی کرلیتے ـ وقت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی مزید جدید اور مختصر ہوجائے تو پھر سابقہ چیزیں عوامی استعمال میں دے کر خوب کمائی کی جاتی ہے ـ اور دوسری طرف مزید سائز میں چھوٹی اور انتہائی مختصر جس کو کیمرہ ماننے کو کوئی تیار ہی نہ ہو جب تک کہ کوئی آپکو اس کا اندرونی حساس نظام کھول کر نہ دکھائے ـ

ایسے جاسوسی آلات بڑے ممالک ہمیشہ استعمال کرتے اور ہمارے جیسے کمزور ملک میں رہنے والے سفارتکار صرف سفارتی سطح پر کام نہیں کرتے بلکہ شائد آپ سب کو یاد ہو کہ ایک ملک کے سفارتخانے میں بنکر بنائے جانے کا معاملہ اٹھا تھا جس کے پاس انتہائی حساس ریڈار سسٹم سیلف کنٹرول ہے جس کے بارے میں پاکستانی حساس ادارے جانتے تو ہیں لیکن کچھ کر نہیں سکتے ـ ایسی بے بسی کا کھلم کھلا اظہار آج ایک سابقہ وزیر نے کر دیا ـ کہ ان کو دو بار وزراء کو مطلع کرنے کے بعد میٹنگ کو ملتوی کرنا پڑا وجہ؟ کہ حساس اداروں نے بتایا کہ انتہائی طاقتور شعاعیں جو پارلیمنٹ میں ہونے والی گفتگو کو من و عن کہیں دوسری جگہہ سنی جائے گی لہٰذا اس وقت میٹنگ کینسل کی جائے کیونکہ پاکستان کے اداروں کے پاس ایسے جدید حساس آلات نہیں جو ان کا تدارک کر سکیں ـ

لیزر شعاعوں کو پھینکا جاتا ہے اور پھر ان کی مدد سے کہیں دور بیٹھے لوگ تمام کی تمام میٹنگ بڑے سکون سے بغیر پاکستان میں داخل ہوئے پاکستان کے اندرِونی نظام کے خدو خال سمجھ کر اس کو کہاں زک لگانی ہے اسکا اہتمام کرتے ـ پاکستان آزاد خودمختار جس کی سالمیت ہمارا نصب العین ؟ اپنے ہمسایہ ملک کو پہلے آپ جہاد کے نام پر اس وقت کے فرعون سے نجات دلواتے ہیں اور بدلتے وقت کے ساتھ حاکم بدلتا ہے تو وہ اسی برادر ہمسایہ ملک پر دشمنوں کے جھنڈ کے جھنڈ بحفاظت اتارنے ان کے سامانِ رسد کی بحفاظت وہاں آمد کو بزریعہ پاکستان ممکن بنا دیتا ہے ـ اور اپنے ملک کو دشمنوں کے شکنجے میں جکڑ دیتا ہے ـ کئی سال پہلے کی یہ بات ہے جو آج میڈیا پر بتائی گئی

Transmitter

Transmitter

اتنے سال میں اور نجانے کیا کیا شعاعوں کی جادونگری میں چلا گیا ـ کیسی حساس تنصیبات کی باتیں حفاظتی منصوبہ بندیاں ؟ آخر اتنے سال بعد آج ہم نے کیا کیا؟ نازک ڈیٹیکٹر جو بآسانی کہیں بھی سہولت سے فِٹ کئے جا سکتے اور دوسری جانب سے کسی بھی ٹرانسمیٹر کے ذریعے خفیہ گفتگو سنی جا سکتی ـ میٹنگ سے پہلے حفاظتی اداروں کی ذمہ داری اور کارکردگی کس پیمانے سے جانچی جائے ؟
ابن صفی تو کئی دہائیوں پہلے یہ جاسوسی کے خفیہ لپ اسٹک فیس پاؤڈر لائٹر سگریٹ کیس سگار کف لنکس میں کیمروں اور مائکرو فونز کی ایڈجسٹمنٹ لکھ کر ہمیں آگاہ کر چکے تھے ـ ہم جو آج ایٹمی قوت کہلاتے کیسی قوت ہیں جو بنیادی حفاظتی حصار سے ہی عاری ہے؟

بڑی سرکاری شخصیات جب جب کہیں جاتیں تو ان کی حفاظت پر ان کے ملک کی جانب سے سخت نظام اپنایا جاتا جس میں ان کے کمروں میں چھوٹے چھوٹے ڈیٹیکٹرز کا لگانا اور ان کی مہمانوں سے ہونے والی گفتگو کو دور بیٹھ کر سننا سب عام فہم ہے ـ اتنی حساس خبر اور اتنا عام رد عمل؟ سبحان اللہ حکومتِ وقت جوابدہ ہے کہ اس وقت آسمانی شعاعوں کو زائل کرنے اور زمینی سفارت خانوں سے بھیجی جانے والی شعاعوں سے اپنے اداروں کو وہ کیسے محفوظ بنائے ہوئے ہے؟ کیونکہ کئی سال بعد اب تو مزید کئی اور ممالک جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھا چڑھا کر کر رہے ـ اسامہ بن لادن کو انہی سٹلائٹ کے ذریعے ٹریس کیا گیا اور پھر مکمل چھان بین تحقیق اور سو فیصد تصدیق کے بعد وہاں جا کر اسکو مارا گیاـ

آزاد خودمختار پاکستان کا دارا لخلافہ خود محصور ہے ـ ایسے سفارت خانوں کا نام بتانا چاہیے اور عوامی سطح پر احتجاج کرکے اپنی داخلی سلامتی کو محفوظ بنانا چاہیے ـ حیرت یہ ہورہی کہ ان جاسوسی آلات کے متعلق جو معلومات ٹی وی دے رہا وہ انتہائی بچگانہ اور زمانہ قدیم کی ہیں ـ ابن صفی کے ناولوں میں جوآلات کی پیمائش تھی اب اس سے کئی گنا مزید چھوٹے آلات آچکے جو ان ؛کے ہاتھ میں ہوں انگوٹھیوں کی صورت انگلی میں ہوں یا کسی ہئیر پن کی صورت جوڑے میں لگی ہوگی اور آپ کے درمیان رہ کر وہ مسلسل آوازیں اور تصاویر اپنے ہیڈ کوارٹر بھیج رہے ہوں گے ـ آج جب ہمارے خفیہ ادارے ان حساس آلات کی ساخت استعمال اس کی رینج نہیں جانتے تو یہ تشخیص کیا کریں گے؟
مرض کا علم ہی نہیں تو اس کا علاج کون کرے؟

Shahbano Mir

Shahbano Mir

تحریر: شاہ بانو میر