24 ستمبر اور رائیونڈ

Parliament

Parliament

تحریر : صباء نعیم
پارلیمینٹ کی بالادستی کی بات کرنے والے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف گزشتہ روز ایوان سے خطاب کرتے ہوئے غمزدہ لہجے میں کچھ اور ہی کہہ گئے، وہ کہتے ہیں، کہاں کی جمہوریت، کہاں کا آئین، یہاں تو بادشاہت ہے، وہ دیر بعد بولے، لیکن عام آدمی کو درپیش مسائل پر بات کی۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی نہ کر کے عوام کی جیبوں سے 10 لاکھ ڈالر نکلوا لئے ہیں۔ قائد حزب اختلاف نے یہ بھی کہا کہ حکمران عوامی مسائل پر توجہ نہیں دیتے اور ووٹ لینے، الیکشن جیتنے کے جتن کرتے رہتے ہیں۔

پارلیمینٹ کے حوالے سے جو نئی بات سامنے آئی وہ سینیٹ میں وزیر قانون زاہد حامد کی تحریک کی منظوری ہے۔انہوں نے احتساب بل پر غور کے لئے بیس رکنی کمیٹی بنانے کی تجویز پیش کی کہ دونوں ایوانوں پر مشتمل ایک بیس رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے، جو احتساب بل کی شقوں کو زیر غور لا کر متفقہ بل تیار کرے اور ایوان میں پیش کر کے منظور کرایا جائے، اس تحریک کی منظوری کی خبر سے ہمیں حیرانی ہوئی کہ یہ پھر سے ریس شروع کرنے والی بات ہو گئی۔

ہمیں یاد ہے اور ہم قارئین کو بھی آگاہ کرتے اور پارلیمانی اراکین سے یہ درخواست کرتے رہے کہ احتساب بل کو منظور کرا لیا جائے، جس بل کا ذکر ہم اِن سطور میں کرتے رہے وہ سابقہ دور(پیپلزپارٹی) میں پیش کیا گیا۔ اس احتساب بل کا مقصد موجودہ احتساب بیورو کی جگہ ایک آزاد، خود مختار اور بااختیار احتسابی ادارہ بنانا تھا، اس بل کو کمیٹی کے سپرد کیا گیا، پھر پارلیمانی کمیٹی بنی اور اس میں غور کیا گیا۔

PML-N

PML-N

یہ خبریں شائع ہوئیں اور اراکین نے تصدیق بھی کی کہ قانون کی تمام شقوں پر اتفاق ہو گیا، صرف دو پر اختلاف ہے ان میں ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اراکین کی اہلیت اور دوسرے چیئرمین کی نامزدگی ہے۔ مسلم لیگ(ن) حاضر سروس ججوں کی تجویز پر قائم تھی، جبکہ پیپلزپارٹی عدالت عظمیٰ کے فاضل جج حضرات کی اہلیت کے برابر سویلین، ریٹائرڈ جج یا بیورو کریٹ کی نامزدگی یا چناؤ کی حامی تھی۔ اس پر اس پورے دور میں اتفاق رائے نہ ہوا اور بل ایجنڈے پر رہتے ہوئے اگلے ایوان میں آ گیا۔ مسلم لیگ(ن) نے برسر اقتدار آ کر اور اکثریت ہوتے ہوئے بھی بل منظور نہ کرایا اور اب ایک نیا بل پیش کیا جو موجودہ نیب آرڈیننس کا ترمیمی بل ہے۔ اس میں جاری قانون میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں اور اب اس پر اتفاق رائے کے لئے پھر سے کمیٹی بنا دی گئی ہے اور کمیٹی اپنا کام کرتی رہے گی۔

ماضی کے حالات سے ہی ظاہر ہے کہ احتساب بل کے حوالے سے کتنی سنجیدگی ہے، حالانکہ عمران خان کی طرف سے احتساب کی بات کی جا رہی ہے، تو مسلم لیگ(ن) والے حضرات کی طرف سے سب کے احتساب کی بات کی جاتی ہے۔ اب یہ بل بھی اِسی مقصد کے لئے پیش کیا گیا، لیکن کمیٹی بنا کر اس کی منظوری طویل کر دی گئی ہے۔ یہ حال ایوان کی سنجیدگی کا احتساب بل کے حوالے سے ہے دوسرے امور میں تو کورم ہی ٹوٹ جاتا ہے۔

Imran khan

Imran khan

اب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے تحریک شروع کر رکھی ہے اور اعلان کر دیا ہے کہ 24 ستمبر کو رائیونڈ جائیں گے اس پر مسلم لیگ (ن) کے حضرات تلملا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسے اقدامات سے مْلک میں انارکی ہو گی۔ ماشاء اللہ! خوب کہا، آپ یقین رکھتے ہیں کہ عمران خان انارکی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ خود ہی ان کا کام آسان کر رہے ہیں، آخر کیوں ٹی او آر کا مسئلہ لٹکایا ہے۔ یہ بھی ایوان کا کارنامہ ہے۔ ایک بل حکومت نے کابینہ میں منظور کر کے قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا اعلان کیا، ابھی پیش نہیں کیا گیا، اس کے تحت پاناما لیکس کے ساتھ تمام آف شور کمپنیوں کا جائزہ لینے کا اختیار دیا گیا اور جوڈیشنل کمیشن کے قیام کی شق رکھی گئی ہے۔

دوسری طرف چودھری اعتزاز احسن نے متحدہ حزب اختلاف کی طرف سے سینیٹ میں مسودہ قانون پیش بھی کر دیا،جس کے تحت آف شور کمپنیوں، پاناما لیکس کی اطلاعات کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کی دفعات ہیں، اب اگر حکومت پیش کر چکی ہوتی تو ایک ہی مسئلے سے متعلق مختلف نوعیت کے دو بل دونوں ایوانوں میں ہوتے، اس میں بھی بہتر صورت تو یہی تھی اور ہے کہ دونوں بل یکجا کر کے ایک کمیٹی کے سپرد کئے جاتے۔ کمیٹی کے لئے اوقات کار کار بھی تعین کر دیا جاتا اور پھر ایک متفقہ مسودہ تیار کر کے اتفاق رائے سے منظور کرا لیا جاتا۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں اس سے افہام و تفہیم پیدا ہوتی۔ ادھر ایجی ٹیشن ختم ہو جاتی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ان حالات میں پارلیمینٹ کی بالادستی کا نعرہ بھی عجیب لگنے لگتا ہے اور پھر اگر خورشید شاہ جیسا ٹھنڈا ٹھار آدمی ایسی بات کہتا ہے تو تنگ ہو کر ہی کہتا ہے، غور فرما لیں، وقت ہے اب بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔

Saba Naeem

Saba Naeem

تحریر : صباء نعیم