شکیل آفریدی مقدمے کی سماعت ایک بار پھر ملتوی

Shakil Afridi

Shakil Afridi

پشاور (جیوڈیسک) القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری میں مبینہ طور پر امریکہ کی مدد کرنے والے پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سزا کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کی سماعت ایک مرتبہ پھر ملتوی کر دی گئی ہے اور اب سماعت 20 اکتوبر کو ہوگی۔

منگل کو نظرثانی کی درخواست پر سماعت فاٹا ٹرائبیونل میں ہونا تھی لیکن سرکاری وکیل حاضر نہیں ہوئے جس وجہ سے سماعت ملتوی کر دی گئی ہے۔

شکیل آفریدی کے وکیل قمر ندیم نے بتایا کہ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ سرکاری وکیل حاضر کیوں نہیں ہوئے لیکن اب یہ سماعت لگ بھگ دو ماہ کے بعد ہوگی۔ اس سے پہلے متعدد بار سماعت ملتوی کی جا چکی ہے لیکن ایک ماہ کے بعد کی تاریخ دی جاتی تھی۔

ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ان کے مقدمے کی سماعت ملتوی کی گئی ہے بلکہ شکیل آفریدی کے وکیل قمر ندیم ایڈوکیٹ کے مطابق جون سال 2014 میں یہ نظر ثانی کی درخواست فاٹا ٹریبیونل میں جمع کی گئی تھی اور اب تک لگ بھگ 22 مرتبہ یہ تاریخ ملتوی کی جا چکی ہے۔

اس سے پہلے سماعت اس وجہ سے متلوی کر دی جاتی تھی کیونکہ فریقین اس مقدمے کا تمام ریکارڈ پیش نہیں پا رہے تھے۔

فاٹا ٹرابیونل میں اپیل دائر کرنے کے بعد ٹریبیونل کے ارکان کے تقرر میں تاریخ ہوتی رہی اور پھر جب ٹریبیونل تشکیل دے دیا گیا اس کے بعد ٹریبیونل نے حکم دیا تھا کہ پولیٹکل انتظامیہ اس مقدمے کا مکمل ریکارڈ پیش کرے۔

قمر ندیم ایڈووکیٹ نے بتایا کہ انھوں نے شکیل آفریدی کو سنائی گئی سزا کے بعد نظر ثانی کی درخواست فاٹا ٹریبیونل میں دائر کی تھی جس میں کمشنر پشاور ڈویژن سے فیصلے پر نظر ثانی کی استدعا کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ کمشنر پشاور ڈویژن نے اپیل کورٹ میں دائر درخواست پر فیصلے میں شکیل آفریدی کی سزا میں دس سال کی کمی کر دی تھی۔ قمر ندیم کے مطابق اپیل کورٹ میں دائر کردہ درخواست میں موقف کچھ اور تھا جس وجہ سے انھوں نے فاٹا ٹریبیونل میں نظر ثانی کی درخواست دی تھی۔

اس درخواست میں انھوں نے اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ، پولیٹکل ایجنٹ خیبر ایجنسی اور کمشنر پشاور ڈویژن کو ریکارڈ کے ہمراہ پیش ہونے کی استدعا کی تھی۔ گذشتہ سماعت پر اس مقدمے کا تمام ریکارڈ پیش کر دیا گیا تھا اور ٹریبیونل نے 23 اگست کی تاریخ سماعت کے لیے مقرر کی تھی لیکن آج سرکاری وکیل پیش نہیں ہوئے۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی کو سنہ 2012 میں پشاور میں کارخانوں کے علاقے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر بظاہر یہ الزام عائد تھا کہ وہ امریکہ کے لیے جاسوسی کا کام کرتے تھے لیکن خیبر ایجنسی کے اسسٹنٹ پولیکل ایجنٹ کی جانب سے انھیں سزا شدت پسند تنظیم کے ساتھ تعلق رکھنے کے الزام پر دی گئی۔