ہر سیٹھ سوچے اگر میں خود ملازم ہوتا… تو؟

Workers

Workers

تحریر: افضال احمد
کبھی سوچئے آپ کے کارخانہ پر جو مزدور صبح سے لگا ہوا ہے آٹھ گھنٹے تک یا بعض دفعہ 12 گھنٹے تک وہ مسلسل کام کر رہا ہے ہر 3 گھنٹے بعد آدھا گھنٹہ وقفہ کے لئے ملتا ہے مثلاً بوتلیں اٹھائیں ٹرک پر رکھیں اٹھائیں رکھیں’ اب شام کو کتنا تھک جاتا ہو گا’ نماز کے لئے بھی ہم نے اس کو چھٹی نہیں دی یا اس نے مانگی نہیں تو ہم سے بھی اتنا نہ ہوا کہ پیار و محبت سے ترغیب دے کر اسے نماز کے لئے بھیج دیتے۔ اب وہ رات کو جب گھر پہنچا تو بوڑھی والدہ بیمار تھیں صبح وہ انہیں ہسپتال لے گیا دو گھنٹے دیر ہو گئی آپ نے اس کے صبح دو گھنٹے دیر سے آنے کے بھی پیسے کاٹ لئے’ یا راستہ میں موٹر سائیکل کا پنکچر ہو گیا جس سے دیر ہو گئی اس کی بھی تاخیر کے پیسے کاٹ لئے۔ کبھی اسی ملازم پر اپنے چھوٹے بھائی یا بیٹے کی تصویر لگا کر دیکھئے’ کبھی خود ہی اپنی تصویر لگا کر سوچئے کہ میں اس کی جگہ ہوتا تو؟

اپنے ملازم’ ہر نوکر ہر ڈرائیور پر اپنا چہرہ لگا کر دیکھئے’ مثلاً کبھی سچ مچ ٹھنڈے دل سے آنکھیں بند کرکے سوچئے چوکیدار کاشف حسین سیٹھ ہوتا’ اور میں اس کی جگہ چوکیدار ہوتا۔ تو میں کیا سوچتا کہ وقار احمد سیٹھ میرے ساتھ کیا معاملہ کرے’ وہی معاملہ آپ اپنے ملازم کے ساتھ ضرور کیجئے پھر انشاء اللہ تعالیٰ اللہ کا معاملہ آپ کے ساتھ کیا ہو گا؟ سوچئے’ جس طرح میں اپنے بچے کو 2000یا 5000 روپے فیس دے کر جس سکول میں پڑھاتا ہوں تو میں اگر کسی فیکٹری میں مشین مین یا ڈرائیور ہوتا تو کیا میری یہ خواہش نہ ہوتی کہ میں اپنے بچے کو ایسے پڑھائوں’ اسی طرح سوچئے کہ آپ کے گھر میں اتنا فروٹ اتنا گوشت ہر قسم کے کھانے آتے ہیں اور یہی ڈرائیور ، کمپیوٹر آپریٹر یا چوکیدار ملازم لاتے ہیں کیا ان کی تنخواہ میں اتنی گنجائش ہے کہ وہ روزانہ نہیں تو صرف ہفتہ میں ایک دن اپنی بیوی بچوں کے ساتھ بیٹھ کر گرمی سردی کا کوئی ایک پھل خرید کر کھا سکیں’ یا ہمارے دسترخوانوں پر کئی قسم کے سالن اور کئی قسم کی ڈشیں رکھی ہوئی ہوتی ہیں’ اس ملازم کا بھی دل ہوتا ہو گا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا استعمال ہفتہ میں نہیں تو مہینہ میں ہی کم از کم ایک دن کر لے’ میں اس جگہ ملازم یا چوکیدار ہوتا تو میں کیا چاہتا کہ میرا سیٹھ میرے ساتھ کیا رویہ’ کیا سلوک’ اور کتنی تنخواہ رکھے وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح ہر چیز میں سوچئے’ اپنے بھائی’ بیٹوں اور بیٹیوں اور اہلیہ کو بھی کہئے کہ وہ بھی سوچیں کہ جس طرح برتن کپڑے دھونے کے لئے ماسی آتی ہے اسی طرح میں بھی ماسی ہوتی’ میری اہلیہ’ میری والدہ بھی کسی کے گھر میں کام کرنے جاتیں تو ہم کیا چاہتے ؟ کیا تمنائیں رکھتے’ وہ تمنائیں’ وہ امیدیں یہ ماسی اور اس کے بچے بھی رکھتے ہوں گے’ یہ ماسی بھی کسی بچے کی ماں ہے’ کسی شوہر کی بیوی ہے’ کسی بھائی کی بہن ہے’ وہ بھی اپنے سینہ میں ایک دل رکھتی ہے۔ اس کے بھی معصوم بچے اچھے سکول میں پڑھنا چاہتے ہیں اور یہ بھی اپنی چھوٹی بہنوں کے ہاتھ پیلے دیکھنا چاہتی ہیں۔

Helping

Helping

اللہ تعالیٰ نے فضل و کرم فرمایا کہ مجھے اتنی نعمتوں سے نوازا کہ مجھے کسی کے ہاں ملازمت نہیں کرنی پڑتی’ اور میری والدہ’ بہن’ اہلیہ کسی کے گھر پر کام نہیں کرتیں تو اللہ کے جو بندے میرے پاس کام کرتے ہیں ان کی جائز ضروریات کا میں خیال رکھوں اور ان پر وقتاً فوقتاً احسانات کرتا رہوں’ ان کی بیماری و پریشانی میں ان کو تسلی دوں کہ میں تمہارا بھائی ہوں کوئی فکر مت کرو تمہارا علاج کرانا میری سعادت ہے’ تمہارے مکان بنانے میں ہاتھ بٹانا میری ذمہ داری ہے اور تمہارے ہاں بچے کی پیدائش پر ہونے والا خرچہ میرے ذمہ ہے’ اب بچے کی پیدائش کے بعد تمہاری تنخواہ اتنی بڑھا دی ہے تاکہ تمہیں اور بھابی کو کوئی تکلیف نہ ہو۔

یاد رکھئے! اس طرح ملازموں پر احسانات کرنے سے وہ بلائیں’ مصیبتیں’ آفتیں جو آپ پر آنے والی ہیں وہ دور ہو جائیں گی اور جو آچکی ہیں وہ جلد از جلد ان کی دعائوں سے ختم ہو جائیں گی ورنہ اس کا نقصان بھی بہت زیادہ ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔ملازم کی بوڑھی ماں کے ہاتھ جب بددعا کیلئے اُٹھے تو غریبوں پر ظلم کرنے والے سیٹھ پر آنے والی بربادی و ہلاکت اور بلاء و مصیبت اور ناگہانی آفت کو کون روک سکے گا؟ یہ مصیبتیں نہ نفلی عمروں سے دور ہونگی’ نہ تعویذوں اور دم کئے ہوئے پانی سے دور ہوںگی’ نہ بزرگوں کی دعائوں سے’ نہ بڑے بڑے ڈاکٹروں کو ہسپتالوں میں بڑی بڑی فیسیں ادا کرنے سے دور ہوں گی’ نہ باہر ملکوں میں علاج کروانے یا ہوا بدل کے لئے جانے سے دور ہوں گی۔ بلکہ یہ مصیبتیں تو جب ہی دور ہوں گی جب اس غریب ملازم سے معافی مانگیں گے اور اس کو اور اس کے گھر والوں کو اتنا ہی خوش کریں گے جتنا آپ نے ان کو ستایا ہے۔

سیٹھو ٹھنڈی ہوائوں میں بیٹھنے والوں ملازم مستقل مشین کے پاس کھڑے کھڑے یا ڈرائیور ہونے کی صورت میں مستقل دھوئوں کے علاقہ میں گاڑی چلا چلا کر بیمار ہوتا ہے تو اب اس کی بوڑھی ماں ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتی ہے تو ڈاکٹر تپ دق کی خطرناک اور مہلک بیماری کیمیکل فیکٹری میں کام کرنے کی وجہ سے ہو گئی ہے’ ریڑھ کی ہڈی کی بیماری کمپیوٹر پر مسلسل کام کرنے سے ہو گئی ہے’ اسے روزانہ مکھن’ انڈے’ شوربا’ پھل اور سبزیاں کھلائو اور بہت جلد کسی صحت افزاء مقام پر لے جائو۔ بوڑھی ماں روتے ہوئے ڈاکٹر کو کہتی ہے مجھے آپ کی ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق ہوتی تو میرے لخت جگر و نور نظر کو یہ عارضہ ہی نہ ہوتا اور نہ ہی اس کو آپ کے پاس لانے کی ضرورت پڑتی آگے سے ڈاکٹر حضرات بھی ماشاء اللہ ہوتے ہیں جو انسان کی فیسوں میں ہی کھال اتار لیتے ہیں بیالوجی کیا پڑھ لی موت کو ہی بھول گئے ہیں۔

Sick Employee

Sick Employee

اب اس بیچارے بیمار ملازم کے ساتھ سیٹھ کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ سیٹھ ایک تو ملازم کی غیر حاضری کے پیسے کاٹتا ہے اور دوسرا اسے دھمکیاں دیتا ہے کہ جلدی کام پر آجائو نہیں تو ہمارے پاس لائن لگی ہے بیروزگاروں کی اب وہ بیچارا مریض کیا خاک صحیح ہو گا ان ظالموں کی یہ باتیں سن کر۔ کبھی اس کا بھی جو اب آپ سوچ لیجئے کہ قیامت آنی ہی آنی ہے موت آنی ہے’ موت آنی ہے’ موت آنی ہے خدا کی قسم موت آنی ہے جو جو اپنے ملازموں سے سلوک کر رہے ہو سب کی سزا آپ نے پانی ہے’ پانی ہے’ پانی ہے۔

ہم نے جو عذر کی دیواریں مختلف عنوانات کی تختیاں لگا کر کھڑی کر رکھی ہیں مثلاً پوزیشن ٹائٹ ہے’ مارکیٹ ٹھنڈی ہے’ حالات صحیح نہیں’ کاروبار ٹھپ ہے’ صحیح رولنگ نہیں چل رہی’ اچھے آرڈرز نہیں مل رہے ‘ پیسہ پھنسا ہوا ہے وغیرہ وغیرہ یہ سب معاملات جب ملازم کی تنخواہ دینے کا ٹائم آتا ہے تو اُس ملازم کو سنائے جاتے ہیں باقی سب کام ہو رہے اپنی عیاشیاں’ اے سی کاریں’ بجلی کے بل’ گیس کے بل سب اپنی اپنی جگہ پورے کام ہو رہے ہوتے ہیں لیکن ملازم کو تنخواہ دیتے ہوئے موت ہی پڑ جاتی ہے حالانکہ ملازموں کی محنت کا پیسہ یہ سیٹھ خود کھاتے ہیں’ سیٹھ خود تو پانی اُٹھ کر پینے کے عادی نہیں ہوتے سب کمائی تو ملازم کر کے دیتے ہیں۔

مختصر یہ کہ اگر سیٹھ لوگ اپنے کسی بھی شعبے کے ملازم کا خیال نہیں رکھتے ظلم کرتے ہیں’ ظلم صرف تھپڑ مارنا یا کوئی اور چیز مارنے کو نہیں کہتے’ ذہنی ظلم کرتے ہیں آج کل کے سیٹھ اپنے ملازموں پر چاہے دنیا کا کوئی بھی شعبہ ہو دکان’ دفاتر’ کاروباری مراکز بہت سے سیٹھ اپنی آنکھوں سے اپنی اولاد کے ہاتھوں ذلیل ہوتے دیکھے ہیں۔ یہ دنیا مکافات عمل کی جگہ ہے جو کرو گے وہ ہی آپ کے ساتھ ہو گا۔ بیروزگاری کا سہی تماشہ سیٹھ لوگوں نے بنایا ہے نہیں تو آج اتنی بیروزگاری نہ ہوتی۔ سیٹھ لوگوں جس کی دی ہوئی زندگی جی رہے ہو’ جس کی دی ہوئی سانسیں لے رہے ہو وہ آپ سے یہ سب حساب کتاب لینے والا ہے یہ ملازم قیامت کے روز تمہارے گریبان پکڑے کھڑے ہوں گے وہاں تمہاری ماں بھی تمہیں نہیں بچا سکے گی اور جس اولاد کے لئے یہ سب حرام کام کرتے ہو وہ اولاد بھی قیامت کے روز تو دور کی بات تمہارے مرتے ہی تم سے منہ موڑ لے گی۔ میں بہت سے ایسے لوگ جانتا ہوں جو بہت غریب ہیں لیکن مانگتے نہیں اور سیٹھ لوگ بھکاریوں کو نوازتے ہیں تحقیق کرنے کا ٹائم نہیں۔جب زلزلے آتے ہیں تو یہی سیٹھ لوگ اپنی عالی شان عمارتوں سے کلمے پڑھتے ہوئے باہر کو بھاگتے ہیں ‘سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ قبر میں تو کہیں بھاگنے کا راستہ ہی نہیں ملے گا ۔کوئی سیٹھ ہے میرے ساتھ؟

Afzal Ahmed

Afzal Ahmed

تحریر: افضال احمد