کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے

Power

Power

تحریر : سجاد گل
وہ اپنی دوکان پر بیٹھا بجلی آنے کا انتظار کر رہا تھا ،بجلی کی آمد 7بجے تھی ،7 بج کر 20 منٹ ہو چکے تھے مگر تا حال بجلی کا کوئی پتہ نہیں تھا کہ کب آئے گی ،اس نے گاہک کوکہا تھا کہ اسکی فوٹو کاپیاں 8بجے تک کر دے گا، وہ انہی سوچوں میں گم تھا کہ کاروبار پہلے سے مندا ہے اوپر سے بجلی کی آنکھ مچولی،اتنے میں ایک شخص اسکی دوکان میں داخل ہوا،اس نے آنے والے شخص گاہک سمجھا اور اسے سلام کیا پھر اپنے مخصوص انداز میں کہا …جی بھائی جان کیا چاہیے آپکو؟ اس شخص نے جواب دیا…دوکان کے مالک آپ ہیں، دوکاندار نے جواب دیا …جی جناب میں ہی ہوں،١س شخص نے ایک کاغذ نکالا اور کہا کہ آپکے نام سمن جاری ہوئے ہیں،کل کچہری میں مجسٹریٹ (کچھ مخصوص وجوہات کی بنا پر نام نہیں لے رہا)صاحب کی عدالت میںپیش ہونا ہے، غریب دوکاندار پریشان سا ہو گیا کہ ایسا کونسا جرم اس سے سرزد ہو گیا ہے جس کی وجہ سے اسے کچہری میںپیش ہونا ہے۔

اگلے دن وہ صبح ٩ بجے کچہری پہنچ گیا،اسے پہلے کبھی کچہری جانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا،سمن اسکے ہاتھ میں تھا ،اسے کبھی کوئی اپنی طرف یہ کہتے ہوئے کھینچتا کہ آئیں میں آپکا مسئلہ حل کرا دیتا ہوں،تو کبھی کوئی اسکا خیر خواہ بننے کی کوشش کرتا،پہلے تو وہ سمجھا کہ یہاں لوگ ایک دوسرے کی مدد کے جزبہ سے سرشار ہیں مگر دوچار لوگوں سے گفت و شنید کے بعد اسے اندازہ ہو گیا کہ یہ سب چونا باز ہیں،خیر اس نے ایک بندہِ خدا پر اس کی داڑھی دیکھ بھروسہ کر لیا،وہ بڑے پیار سے اسے کہنے لگا بھائی ”آپ کچہری میں پہلی دفعہ آئے ہیں یہاں بہت گھمبیر مسائل ہوتے ہیں،اگر آپ مجھے کچھ فیس(دراصل رشوت ) ادا کر دیں تو چٹکیوں میں آپ کاکام کر دوں گا،دوکاندار غریب ضرور تھا مگر ضمیر فروش اور بے ایمان نہیں تھا،اس نے کہا بھائی جان مجھے صرف یہ بتا دیں کہ مجسٹریٹ…فلاں… صاحب کہا ملیں گے،اس نے غصے سے کہا جائو ڈھونڈ لو مجھے نہیں پتا،دوکاندار نے ایک کالے کوٹ والے وکیل کو دیکھا جو ہاتھ میں کچھ فائلیں اٹھا کر چلا جا رہا تھا،اس نے وکیل صاحب کو اپنا سمن دیکھاتے ہوئے

Allah

Allah

پوچھا…سراسکے بارے میں مجھے آگاہی دیں کہ مجھے کیا کرنا ہے، وکیل صاحب اسے اپنے آفس لے گئے،وہاں جا کر انہوں نے کہا تمہیں تو اس معاملے میں وکیل کرنا پڑے گا،دوکان دارکو اب کچھ کچھ اندازہ ہو گیا کہ کچہری کس بلا کا نام ہے،اس نے وکیل کے ہاتھ سے سمن لیا اور بغیر کچھ بولے آگے بڑھ گیا،اب وہ کچہری کے اندر موجود ایک کھوکھے پر گیا تا کہ اسکا پیٹی بھائی اسکی رہنمائی کر سکے ،اس کھوکھے والے نے بھی ایک شخص کو آواز دی…او بشارت ہو…اس بھائی کو لے جائو(اور ساتھ بشارت کی طرف آنکھ بھی ماری )وہ بیچارہ سمجھ گیا کہ یہاں بھی دال میں کچھ کالا ہے،اس نے تنگ آ کرکہا بشارت صاحب اللہ آپکو دنیا اور آخرت میں عزت عطا فرمائے اللہ کے نام پرمجھے سیدھا راستہ بتا دوکہ مجھے کرنا کیا ہے؟اسے کچھ رحم آیا اور اس نے کہا نیشنل بینک کے ساتھ پرانی کچہری میں چلے جائو وہاں تمہارا کام ہو جائے گا،ساتھ ہی کہا چائے کے پیسے دے دو تو آپکی بہت مہربانی ہو گی،دوکاندارنے اسے پچاس کا نوٹ تھماتے ہوئے شکریہ ادا کیا اور اپنی منزل کی جانب بڑھ گیا۔

وہاں پہنچا تو ایک مچھلی بازار لگا ہوا تھا،ایک کمرے (جو تقریباََبارہ بائی بارہ کا تھا) میں بہت سے دوکاندار کھڑے تھے جو اس دوکاندار کی طرح سمن ملنے پر حاضر ہوئے تھے ،وہاں کا سٹاف جو چھ لوگوں پر مشتمل تھا وہ کاغذ الٹ پلٹ رہا تھا،آخرکا ر اسکا نمبر آ گیا، اسکی دوکان کا نام اوراپنا نام پوچھ کر کاروائی شروع کی گئی،اسے بتایا گیا کہ اس نے ایک ملازم رکھا ہوا ہے جسے محکمہ لیبر سے رجسٹر نہیں کرایا گیا ،لہذا اس پر 20000 جرمانہ ہے،اس نے کاغذات کا باغور مطالعہ کیا تو ان میں یہ کہیں نہیں لکھا تھا کہ 20000روپے جرمانہ لگ چکا بلکہ یہ لکھاتھاکہ آپ نے اپنے ملازم کی رجسٹریشن نہ کروا کر لیبر ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے لہذا فوری طور پر اپنے ملازم کو رجسٹر کروائیں ورنہ آپ پر 20000 روپے تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے،بس یہی 20000لکھا ہوا دیکھا کر غریب دوکانداروں کو الو بنایا جا رہا تھا ،اور ااسکی آنکھوں کے سامنے درجنوں دوکاندار مک مکا کر کے رخصت کئے جا چکے تھے ،جنہیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہی نہیں کیا گیا، اسے بھی یہی کہا گیا کہ آپ پر جرمانہ تو بیس ہزار روپے ہے لیکن مک مکا کرنا ہے تو 15000میں کر لیں گے،وہ مک مکا پر راضی نہ ہوا تو اسے 10000 کی بھی آفر کی گئی، مگر وہ اس رقم پر بھی راضی نہ ہوا،دوکاندار ان کے ناپاک عزام اچھی طرح سمجھ گیا تھا اور وہ اسی بات پر زور دے رہا تھا کہ جرمانہ لگایا نہیں گیا صرف وارننگ دی جا رہی ہے کہ اتنا جرمانہ ہو سکتا ہے تو میں آپ کو کس بات کے پیسے دوں، اور پیسے بھی بطورِ رشوت، جبکہ جرمانہ لگانا ہے یا نہیں اسکا فیصلہ مجسٹریٹ صاحب نے کرنا ہے، اورابھی تک مجھے مجسٹریٹ کے سامنے تو پیش ہی نہیںگیا پھر جرمانہ اور مک مکا کے کیا معنی ؟اسکی یہ باتیں سن کا سٹا ف آگ بھگولا ہو گیا

Poor shopkeeper

Poor shopkeeper

،سٹاف سمجھ رہا تھا دوسرے دوکانداروں کی طرح وہ بھی ان پڑھ یا کم پڑھا لکھا ہے جسے 20000 لکھا دیکھا کر چونا لگا دیا جائے گا،مگر اسکا معاملہ اوروں سے مختلف نکلا،جس وجہ سے اسے وہاں بیٹھے سٹاف نے سنگین دھمکیاں دیں کہ تم پرتوہین عدالت کا کیس کر دیں گے فلاں فلاں جرم ڈال کر اندر کروا دیں گے،دوکاندار غریب سہی مگر جاہل نہیں تھا ،اس نے بھی کھلا جواب دیا، پہلی بات یہ کہ میں سمن پر حاضر ہو گیاہوں، دوسری بات یہ کہ میں نے کوئی توہین نہیں کی بلکہ وہ چیز بتائی ہے جو ان کاغذات میں تحریر ہے،اور تیسری بات یہ کہ آپ لوگ جج نہیں بلکہ کلرک سٹاف ہیںاور اگر میں نے سوال پوچھ کر آپکی توہین کی بھی ہے تو آپکی توہین ،توہینِ عدالت کے زمرے میں نہیں آتی،اور آخری بات یہ کہ اگر آپ لوگ کچہری میں بیٹھ کر رشوت کا بازار گرم کر سکتے ہیںاور آپ کے لئے کوئی قانون نہیں تو مجھے امید ہے میں نے آپ سے بڑا جرم نہیں کیا،مزیدکچھ تلخ جملوں کا تبادلہ دونوں جانب سے ہوا اور بالآخر سٹاف کے دل میںچور تھا انہوں نے خیر اسی میں سمجھی کہ اس سر پھرے دوکاندار کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر کے ہی جان چھڑائی جا سکتی ہے۔

بالآخر مانند جوئے شیر دوکاندار کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر دیا گیا،جس نے دوکاندار کا موقف جانے بغیر اس پر 4000روپے جرمانہ کر دیا جبکہ آئین کی روح سے اس وقت تک کسی مقدمہ کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جا سکتا جب تک فریقِ دوم کا موقف سن نہ لیا جائے ،لیکن یہاں سب چلتا ہے، کھوتا گھوڑا سب حلال ہے،کیوں کہ یہ ہے اسلامی جمہوریہِ پاکستان کا وہ ادارہ جسکا تعلق قانون کی پاسداری اور انصاف کو یقینی بنانا ہے،مگر افسوس کہ اسی ادارے میں ڈھنکے کی چوٹ پر رشوت کا تقاضا کیا جاتا ہے،آخری بات کچہری میں مجسٹریٹ کے ہوتے ہوئے،نیب کی موجودگی کے باوجود،نیچے کا سٹاف رشوت کی کارستانیاں سر انجام دے رہا ہے تو یقیناصدیقینا ”کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے”۔

Sajjad Gul

Sajjad Gul

تحریر : سجاد گل