اگر بدی بڑھ گئی تو آسمان سے آگ برسے گی

Kasur Incident

Kasur Incident

تحریر: ع۔م بدر سرحدی
قصور کے ایک نواحی گاؤں حسین والا میں ہونے والا واقع نہ پہلا اور نہ اخری شائد ہی کوئی اخبار ہو گا جس کے کالم نگاروں نے اسے نظرِ انداز کیا ہو ہر ایک نے خوب سے خوب تر بنانے کی سعی کی ہو، اتنا اچھالا گیا کہ شائد دنیا میں کوئی پہلا واقع ہے، اور شائد کوئی دن ایسا ہو کہ اُس میں کالم اور خبر نہ ہو، جناب تحریر :اور یامقبول جان نے تو تین صدیوں سے بر صغیر کے شعراء کو کھنگال دیا۔

سکولوں کے اساتذہ تک کو معاف نہیں کیا ،لیکن مدرسوں تک اسکی رسائی نہیں ہوئی یا پھر کبھی ایسی خبر نہیں پڑھی یا پھر…. ،قیامت سے پھلے قیامت ،قیامت کی نشانی ایسے عنوانات سے کالم لکھے گئے لیکن انسانی تاریخ سے پہلے بھی ایسے واقعات کی خبر ملتی ہے توریت کی پہلی کتاب پیدائش کے باب انیس میں سدوم اور عمورہ کا زکر یہاں حضرت لوط جو نیک اورراستباز رہتا تھا کہ ان شہروں میں بدی اور برائی ،خالق و مالک خدا تک پہنچی ،خدا اِن شہروں کو نیست و نابود کرنے کو اپنے فرشتوں کے ساتھ آیا لیکن اِس سے پہلے ٨ ا، باب میں مرقوم ہے کہ حضرت ابراہیم کے پاس آیا اور ُ اسے بیٹے کی بشارت دی اور سدوم کی طرف چلا مگر پہلے حضرت ابرہام کو اعتماد میں لینے کے لئے بتایا کہ میں کیا کرنے جا رہا ہوں ،تب حضرت ابرہام نے کہا کہ کیا توبد کے ساتھ نیک کو بھی تباہ کردے گا یہ نہیں ہو سکتا تب خدا نے کہا نہیں اگر اُس شہر میں پچاس راستباز ہونگے تو میں چھوڑ دونگا ،تب ابراہیم نے کہا اگر وہاں پانچ کم ہوئے توپھر بھی… ،خدا نے کہا اگر ٤٥ بھی ہوئے تب بھی چھوڑ دونگا۔

ابراہیم نے پھر کہا اگر ٤٠ ہوئے تب …. خدا اور ابراہیم کے درمیان یہ مکالمہ دس تک آیا کہ اگر دس راستاباز ہونگے تب بھی سب کو چھوڑ دونگا،مگر وہاں تو حضرت لوط راستباز کے علاوہ کوئی نہیںتھا ….،سدوم شہر کے پھاٹک پر جہاں لوط بیٹھا تھا شام کے وقت دو فرشتے اُس سے ملے اور وہ انہیں گھر لے گیا تب شہر کے بدمعاشوں کو پتہ چلا کے اُسکے گھر دو خوبصورت لڑکے آئے ہیں تو لوگ لوط کے گھر پہنچے اور جب وہ باہر آیا ،کہا کہ جو دو لڑکے آئے اُنہیں باہر لا کے ہمارے حوالے کر ہم اُن کے ساتھ برا بھلا کریں، لوط نے اُن کی منت کرتے ہوئے کہا دیکھو وہ مہمان میری پناہ میں ہیں اِس لئے اُنہیں کچھ مت کہو میری دو جوان بیٹیا ں ہیں انہیں لے جاؤ ،اور جو تمہارے جی میں آئے اُن کے ساتھ کرو ،لیکن ہجوم نہ مانا اور زبردستی کرنے لگا تب وہ اندھے ہو گئے۔

Allah

Allah

فرشتوں نے اُسے اندربلایا اور کہا اور کوئی تیرا ہے تو اُسے لے اور شہر سے نکل جا نے کی تیاری کر،کہ ان شہروں کو نیست کر دیاجائے گایاد رکھ پیچھے مڑ کر جو دیکھے گا وہ پتھر کا ستون بن جائے گا ۔تب صبح کے وقت فرشتوں نے اُسے پکڑا اور کہا نکل جا ورنہ تو ان لوگوں کے ساتھ ہلاک ہوگا ،وہ اپنی دوبیٹیوں اور بیوی کے ساتھ شہر سے نکل گیا تو خدا کا قہر آگ اورگندھک کی صورت میں آسمان سے اُن شہرو پر برسا ،یہ دونو ں شہر سدوم اور عمورہ نیست ونابود ہوگئے،اسرائیل کا ایک نبی یسعیاہ جسکی نبوت کا زمانہ تین شاہان یہودیہ کے عہد میں کی۔ اس قوم کی سرکشی پر گلا پھاڑ کر کہتا ہے۔

اس کا صحیفہ یسعیاہ باب ایک آیت دس میں ،اے سدوم کے حاکموں خداوند کا کلام سنو،اے عمورہ کے لوگوہمارے خدا کی شریعت پر کان لگاؤ:،جب یسعیاہ یہ کہ رہا ہے اُس وقت سدوم اور عمورہ کو زمین پر سے نیست ہوئے ١٢،صد یوں سے زیادہ زمانہ گذر چکا تھا …میں یہ پڑھ کر سوچنے لگا کہ اب وہ کس سدوم اور عمورہ کے لوگوں کو تنبیہ کر رہا ہے ،لیکن سدوم اور عمورہ ہر زمانے میں زمین پر موجود رہے اور آج بھی سدوم اور عمورہ بر زمین موجود ہیں سدوم اور عمورہ بدی کی علامت ہیں… ،یہ مغرب میں ہم جنسوں کی شادی کا قانون بن گیا ہے ،یعنی سدوم کے حاکموں جنہوں نے یہ قانون بنایا۔

خدا کلام سنو،عمورہ کے لوگو خدا کی شریعت پر کان لگاؤ…جنس پرستوں کو کہہ رہا ہے ….یہ پیغام قصور کے بلکہ ملک ہی میں نہیں دنیا میں پھیلے ہوئے ایسے لوگوں کے لئے ہے کہ وہ خدا کی شریعت پر کان لگائیں سدوم اور عمورہ پر جب خدا کا غضب نازل ہوأ اُس زمانہ میں وہاں ایسے شہروں کی آبادیاں محض سینکڑوں میں ہی ہونگی جبکہ آج کہ شہروں کی آبادیاں کروڑوں میں جیسے لاھور کی آبادی کروڑ تک جا پہنچی مگر تب یہ آبادیاں سینکڑوں میں بھی نہیں بلکہ محض دہائیوں میں تھیں۔

اس لئے وہاں پچاس نیکوکار راستباز نہیں تھے صرف ایک شخص تھا لیکن آج کے سدوم اور عمورہ کی آبادیاں لاکھوں اورکروڑو میں ، اس لئے ان میں زیادہ لوگ راستباز اور نیکوکار ہونگے جنکی وجہ سے خدا تحمل کئے ہے، جس دن راستبازوں ،نیکوںکاروں کی تعداد کم ہوگئی تو پھر واقعی قیامت کی کوئی نشانی نہیں ہو گی بلکہ گندھک اور آگ کی بارش ہوگی اور سب کچھ ہی بھسم ہو جائے گا، وہ گاؤں، شہر اور ملک نیست کر دیا جائے گا ،اگر بدی اور بڑھی تو پھر طوفان نوح بھی دروازے پر ہے۔

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر: ع۔م بدر سرحدی