سوشل میڈیا کے فائدے اور نقصانات

Social Media

Social Media

تحریر :طیبہ عنصر مغل

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی زندگی
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

سوشل میڈیا کے فائدے اور نقصانات کے حوالے سے علامہ اقبال کے شعر کے مطابق تو کسی حد تک یہ بات بالکل درست ہے کہ جدید آلات نے ہم سب کو سہل پسند بنا دیا ہے لیکن بات ہم نے کرنی ہے میڈیا کے لئے تو اس میں کوئی، شک نہیں کہ میڈیا نے پوری دنیا کو ایک گلوبل ویلج بنا دیا ہے اگر میں اپنے طرز بیاں کے مطابق کہوں تو یہ ایک گاو ¿ں کی شکل اختیار کر گیا ہے میڈیا کی مختلف اصناف میں سر فہرست تو فیس بک ہے جو دنیا کے مختلف کونوں میں بیٹھے لوگوں کو دوست بنا رہی ہے سوشل میڈیا کسی بھی خبر کو دوسروں تک پہنچانے کا تیز ترین ذریعہ ہے وہ حقائق جو نیوز چینل پہ ہم تک نہیں پہنچ پاتے میڈیا ان کا پردہ فاش کر دیتا ہے لیکن اس کے لئے افراد کا باشعور ہونا بہت ضروری ہے کہ وہ اس خبر کو بغیر تحقیق آگے مت پھیلائیں اور اس ضمن میں پہلے ازخود تحقیق ضرور کر لیں میڈیا کے دیگر فوائد میں سب سے بڑا فائدہ ہماری نوجوان نسل کی تعلیم میں مدد کا ہے ایک کلک سے وہ اپنی مرضی کی تعلیمی معلومات کو حاصل کر سکتے ہیں۔ دفاتر ،سکول،ادارے جن میں بنک ،اخبارات ،بزنس غرض دنیا کے ہر شعبے کی تفصیلات اور حل موجود ہوتے ہیں۔ اب تو گھریلو خواتین کیا مرد بھی کھانا بھی سوشل میڈیا کی مدد سے ایک سگھڑ خاتون کی طرح بنا سکتے ہیں ایک وقت تھا کہ جب کسی عزیز جو بیرون ملک مقیم ہوتے تھے ان کی شکل دیکھنے کے لئے بھی لوگ ترس جایا کرتے تھے لیکن میڈیا نے اس مشکل کو اتنا آسان بنا دیا ہے کہ آپ واٹس ایپ ہو یا انسٹا یا سکائپ ان چیزوں نے فاصلوں کو گویا سمیٹ دیا ہے اب آپ گھنٹوں اپنے پیاروں سے بات کر سکتے ہیں بالکل ویسے جیسے سامنے بیٹھے ہوں دوسرے ممالک کی تہذیب وتمدن سے وہ لوگ بھی آگاہ ہو رہے ہیں جو کبھی ان ممالک میں گئے نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ فیس بک پہ اپنے قریبی عزیزوں سے رابطے میں رہتے ہیں اور اب کسی کی خوشی یا غم میں آپ فوری طور پر آگاہی حاصل کر کے ان کے ساتھ ان کے مطابق شمولیت بھی اختیار کرتے ہیں کسی کی برتھ ڈے وغیرہ ہو یا کوئی تہوار آپ بآسانی ان کو تہنیتی پیغامات پہنچادیتے ہیں۔

جہاں میڈیا کے چند فوائد میں نے آپ کو گنوائے وہیں اس کے کچھ منفی اثرات بھی آپ کے گوش گزار کرنا چاہوں گی سب سے پہلے فیس بک کے بارے میں میں آپ کو بتاو ¿ں کہ میرے طرز بیاں کی رگ پھڑک پھڑک کے کہتی ہے کہ فیس بک درحقیقت اب ایسے ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آچکی ہے کہ آپ اب فیس بک کو بی جمالو یا پھاپھا کٹنی کا نام بخوشی دے سکتے ہیں دوسرے ممالک کی نسبت ہمارے ملک میں اس کا غلط استعمال زیادہ ہے خواتین نے اب گلی کی نکڑ پہ کھڑے ہوکر غیبت کرنا کم کر دیا ہے بھی اب میڈیا کا شکریہ انباکس سے پیج تک غیبت سے لے کر گالیوں تک کا عمل اس بی جمالو پہ کیا جاتا ہے اکثر خواتین تو اپنی ہانڈیاں جلا کے اپنے گھر میں پھڈا کرتی ہیں تو کچھ دوسروں پہ جھوٹی شان وشوکت بھگارنے کے شوق میں ایسے کمال کے جھوٹ بولتی ہیں کہ دوسروں کے گھروں میں میاں بیوی کے پھڈے ہو رہے ہوتے ہیں اجی میں کہاں پھڈوں کی داستان سنانے لگی مجھے تو آپ کو میڈیا کے منفی استعمال پہ بات کرنی ہے تو جناب سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل اس کے فوائد سے مستفید ہونے کے بجائے اس پہ گیم کھیل رہی ہے اور جو عملی سرگرمیاں میڈیا سے پہلے لازم ہوا کرتی تھیں وہ اب مفقود ہیں بچے اب کرکٹ ہاکی یا بھاگ دوڑ کے کھیلوں کے بجائے ایک جگہ گھنٹوں بیٹھ کر ہزاروں قسم کی گیمز کھیل رہے ہیں جو ان کی صحت کے لئے انتہائی مضر ہے بچے تو اس نقصان میں مبتلا ہیں یہاں دو برس کے بچوں سے لے کر ستر برس تک کے بچے اس میں پیش پیش ہیں ۔ یہ ایک نشے کی طرح ان کو عادی کر لینے والی سہولت ہے۔۔

اس کا ایک اور منفی رخ کہ خاندان کے وہ میل جول جو کسی خوشی یا غم کے مواقع پہ ہو جاتے تھے وہ اب میڈیا کی بدولت نیٹ پہ ہی بھگتا دئیے جاتے ہیں یوں دنیا تو گلوبل ویلج ہوئی لیکن رشتے دور ہوگئے دوسری تہذیبوں کے اثرات ہماری زندگی پر پڑنے لگے نوجوان الگ بے راہ روی کا شکار ہورہے ہیں تعلیم سے دور اور نااہل ہوتے جارہے ہیں یوں تو سارا معاملہ کسی بھی چیز کے استعمال کے لئے شعور کے درجات کا ہے کہ یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم میڈیا کو استعمال کس طرح کرتے ہیں منفی یا مثبت لیکن شعور کہاں سے آئے گا جب دو ڈھائی سال کے بچے کے ہاتھ میں گیم کھیلنے کو موبائل فون دے دیا جائے گا لو جی خلاصی ہوئی اب اماں گئیں فیس بک پہ تو ابا جان واٹس ایپ کو پیارے ہو گئے۔

Facebook

Facebook

سب سے بڑاخطرناک معاملہ جس سے قطعی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا وہ ہے فیس بک پہ پھیلے بھیڑیوں اور لومڑیوں کے جال کا۔ جس طرح ریڈلائٹ ایریاز کو گورنمنٹ نے بند کیا تو وہ لوگ جو اس ایریا میں رہتے پہچانے جاتے تھے اب وہ لوگ معزز گھروں کے درمیان پھیل چکے ہیں تو ایسے ہی شکاری بہت معزز اور مذہبی افراد کے بھیس میں میٹھی زبانیں لئے شکار گھیرتے پھرتے ہیں ان کو پہچاننے کا کوئی آلہ ابھی نہیں بنا ان مشینوں میں لیکن ایک آلہ احتیاط اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے اس کا استعمال ضرور کریں اور اس بی جمالو یعنی فیس بک کا استعمال ضروری ہو تو کریں میڈیا اچھا یا برا نہیں ہے دراصل اس کے استعمال پہ منحصر ہے کہ آپ اس کو سہولت بناتے ہیں اپنے لئے یا باعث زحمت ،میڈیا کے ہر میڈیم میں اعتدال ہی اس کے نقصانات سے بچنے کا حل ہے۔

تحریر :طیبہ عنصر مغل