سوشل میڈیا

Social Media

Social Media

تحریر: راشد علی راشد
اپنے معاشرے میں اخلاقیات کا جنازہ نکلتے دیکھ کر افسوس تو ہو رہا ہے مگر بے حسی نے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ احیاء کا درس دینے والے بھی فیس بُک اور ٹیوٹر و دیگر سوشل میڈیا کے ہاتھوں کتنے یرغمال بن چکے ہیں کہ اب انہیں اپنا اکائونٹ فیس بُک پر کھولنے کی جتنی خوشی ہوتی ہے اتنی بے اعتناعی ہر گز انہیں محسوس نہیں ہو رہی ہو گی جو اپنے ہاتھ میں سنبھالے موبائل فون پر کیا کچھ نہیں کر اوردیکھ رہے ہوتے،ہر ایک کو الزام بھی نہیں دیا جا سکتا کیونکہ بعض ایسے سلجھے اور باشعور و باکردار بھی ہیں جن سے ہونے والی سوشل میڈیا کی دوستی قابل فخر اور قابل رشک بھی ہے مگر گزشتہ چند روز سے اپنیفر ینڈز بک لسٹ میں سے ایک شریف و شعلہ بیان کو دیکھ دیکھ کے اکتا گیا اور بالآخر ان کی جانب سے لائیک کی جانے والی فحش تصاویر،فحش جملے اور فحش وڈیوز نے مجھے ان سمیت ان کے کئی دیگر میوچل فرینڈز سے بھی ان فرینڈ کروانے پر مجبور کیا،

ایسے میں میںیہ سوچنے پر مجبور ضرور ہوا ہوں کہ کیا واقعی یہ دوہرا معیار ہی ہمیں لے ڈوبتا ہے،؟؟صرف ادھر اُدھر کی ہانکنا ہی منقافقت نہیں بلکہ اپنے کردار کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرنا منافقت ہی ہے ،نبی پاک سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم حیا کو کھو دو تو جو چاہو سو کرو، جو چاہو سے مراد سب کچھ کرو اور اپنے اوپر سے مذہب کا لبادہ بھلے اتار پھینکو اور جو دنیا سے چھپ کر کرتے ہو وہ سب کے سامنے کرو کیونکہ جب حیاء کو چھوڑ دیا تو گویا مزہب کو بھی چھوڑ دیا ،اب یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ حیا کیا ہے؟ عام طو رپر ( ترقی یافتہ معاشرے میں) اس کا مفہوم ‘ روشن خیالی سے کیا جاتا ہے ،طلوع اسلام کے ابتدائی ایام میں ایک خاتون اپنے بیٹے کی میدان جنگ میں کھو جانے (یا مارے جانے) کی اطلاع پاکر بدحواسی کے عالم میں اْسے تلاش کرنے یا صحیح خبر جاننے کے لیے اٹھی’ مگر باہر نکلنے سے پہلے اسلامی آداب کے مطابق اس نے اپنے آپ کو اچھی طرح ڈھانپا، بعد میں جب اس سے پوچھا گیا کہ اس جان کو لاگو صدمے کی اطلاع پاکر اْسے یہ سب کچھ کرنا کیوں کر یاد رہا؟ اس نے جواب دیا ”میں نے اپنا بیٹا کھویا ہے… حیا تو نہیں گنوائی!”صدیاں بیت گئیں تاریخ عالم پھر بھی گواہ ہے کہ ساری دنیا میں اسلامی معاشروں نے ہر جگہ اس ”حیا” کو پکڑے رکھا اور سب کچھ گنوا کر بھی اس کو نہ گنوایا۔

ہاں مگر’ آج سے تین سو سال قبل یورپ کے پاس اچھی تہذیب تو نہ تھی مگر اچھی بندوقیں اور شاطرانہ چالیں ضرور تھیں اور اْس کا طرزِ زندگی قبل از اسلام جاہلیہ سے بہت زیادہ مختلف نہ تھا۔ اسلامی دنیا یورپ کے سیاسی اور تہذیبی غلبے (Colonialism) کے آگے گری’ تو ”حیا” پر مسلمانوں کی گرفت کمزور ہوتی چلی گئی اور اْس کو سخت نقصان پہنچا،حیا کے خلاف ابلیس کے کارندوں کی اس جنگ میں جدید ذرائع ابلاغ و نشر و اشاعت نے بہت اہم کردار انجام دیا۔ اپنے سے بیان شدہ جملوں کو احادیث کا نام دے کربدکاری پر مائل کرنے والے گندے افسانے’ مضامین’ تصاویر،ویڈیو اور فلموں کے ذریعے بڑے پیمانے پر اشاعت نے بے حیائی کو مسلم معاشروں میں مرغوب بنانے کی وہ آتش بھڑکائی کہ الامان و الحفیظ ! رہی سہی کسر ٹی وی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے گندے خیالات اور تصاویر کو زندہ تہذیب کی شکل میں عام کرنے میں پوری کردی۔مسلم معاشرے میں ایسے ہی بڑے چغے زیب تن کر کے اپنی نمود نمائش ایک مولوی،عالم اور مبلغ سے کروانے والوں نے مذہب کو وہ نقصان پہنچایا ہے جتنا کہ شاید ایک جاہل اور گنوار نے نہ پہنچایا ہو گا

Facebook

Facebook

،فیس بک اور سوشل میڈیا پر تعمیر کے بجائے تخریب اور اپنی ٹھرک پوری کرنے والوں کو شاید یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وہ بستر اور رضائی میں گھس کر موبائل فون پر جو کھیل کھیلتے ہیں وہ ان تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ ان کی شئیر کردہ اس طرح کی غلاظت انہیں بھی بدبودار اور تعفن زدہ کرتی ہے جو ان کیساتھ ایڈ ہوتے ہیں،حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ سے بڑھ کر کسی کو اپنی تعریف و مدح پسند نہیں ہے اسی وجہ سے اللہ نے خود اپنی تعریف بیان کی ہے اور اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت مند نہیں ہے اسی وجہ سے فحاشی کے کاموں کو حرام کیا ہے ایک اور حدیث میںحضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جاتا ہے۔ فحاشی ظلم ہے اور ظلم جہنم میں لے جاتا ہے،حیا ایمان کی خصلت ہے،

اللہ سے شرم کے مارے انسان گناہوں کا ارتکاب نہیں کرتا، اللہ تعالی سے محبت کے نتیجے میں اس کی اطاعت میں پیش قدمی کرتا ہے، انسان گندے، فحش اور گھٹیا کاموں سے دور ہوجاتا ہے۔ ایمان کی شاخوں کی بنیاد ہے، انسان کے اندر وقار پیدا کرتا ہے چنانچہ وہ ایسے کاموں سے بالکل دور ہوجاتا ہے،میرا موضوع بھی جدید ٹیکنالوجی اور احیاء ہے اس لیے جدید ٹیکنالوجی کے اس دورمیں سوشل میڈیا آپسی رابطے کا مؤثرترین ذریعہ بن چکا ہے،آج جملہ ذرائع ابلاغ میں سوشل میڈیا کا استعمال سب سے زیادہ ہورہا ہے، بالخصوص نوجوان نسل کے ذہن ودماغ پرسوشل میڈیا جنون کی حد تک حاوی ہوچکاہے، دن بھر کی لاکھ تھکاوٹ اورتکان ہو جب تک نوجوان سوشل میڈیا پر اپنا کچھ وقت بتا نہیں لیتا اسے نیند نہیں آسکتی ، اسی میڈیا کے ذریعے اسلام سے بدظن کرنے والی طاقتیں بھی پوری طرح اپنا جال پھیلائے تاک میں رہتی ہیں،فیس بک ،ٹیوٹر ،یوٹیوب اوربلاگ جیسے سوشل میڈیا کو انہوں نے شبہات سے بھر رکھا ہے، فحش کے پجاریوں نے بے حیائی،فحاشی،عریانیت اوررقص وسرور کے وہ گل کھلارکھے ہیں کہ گمان ہونے لگتاہے وہ انسان نہیں جانوروں سے بدترکوئی مخلوق ہیں،تفریح کے نام پرمسلمانوں کی نئی نسل کو بدلنے کی منظم پلاننگ ہو رہی ہے،

Society

Society

صلیبی جنگوںمیں جب نصاری کو منہ کی کھانا پڑی تو انہوں نے عسکری جنگ کی بجائے فکری جنگ کے لیے پلاننگ شروع کردی تھی اور وہ ابھی تک اسی طرح جاری و ساری ہے،اس مقصد کو بروئے کارلانے کے لیے انہوں نے مستشرقین کی ایک کھیپ تیارکر رکھی ہے جوآج شبہات اورشہوات کی آندھی چلا رہے ہیں،ایسے حالات میں سوشل میڈیا کی خطرناکی پر آنسو بہانا ،اسے برائیوں کا سرچشمہ قرار دینا اوراس سے پیچھا چھڑانے کی نصیحت کرنادوراندیشی کی علامت قطعاً نہیں ہوسکتی۔ ہم لاکھ سر پیٹیں لیکن ہماری نئی نسل اس سے دورنہیں ہوسکتی ، یہ بات صحیح ہے کہ مسلم نوجوانوں کی اکثریت سوشل میڈیا کا غلط استعمال کررہی ہے ،یہ ٹائم پاس کا ایک ذریعہ بن چکا ہے ،اس سے بچوں کا کیرئیر خراب ہورہا ہے ، معاشرے میں بے حیائی فروغ پارہی ہے،یہ ایک طرح کا خمارہے جو چڑھتا ہے توبآسانی نہیں اترتا اورجب ہوش آتا ہے تو اچھا خاصا وقت نکل چکا ہوتا ہے۔ایسا کیوں ہورہا ہے ؟ اوراس کا تدارک کیوں کر ممکن ہے ،انسان کی تحریروتقریر اورحرکت وعمل اس کی فکر اورسوچ کا آئینہ دار ہوتی ہے۔برتن میں جو ہوتا ہے وہی چھلکتا ہے، نیک طبیعتیں اچھے اثرات چھوڑتی ہیں اوربری طبیعتیں برائی سے پہچانی جاتی ہیں،حتی کہ موت کے بعد بھی برائی سے ان کی پہچان ہوتی ہے

،میں اس مولوی صاحب ہی کو تنقید کا نشانہ نہیںبنا رہابلکہ وہ تو میرے لیے اس موضوع انتخاب کا محرک ثابت ہوئے ہیں اس لیے میں اپنی نوجوان نسل اور ان تمام احباب سے یہی کہوں گا کہ اپنی زندگی میں وقت کی قدرو قیمت کو سمجھیں، اپنے ذہن ودماغ میں اسلام کی عظمت اورآفاقیت کو بٹھائیں، دعوت کے فروغ میں سوشل میڈیا کے کلیدی رول کوپیش نظر رکھیں اوراس کے لیے منظم پلاننگ کریں اور اپنے اسلاف اور اپنے مذہب کی تعلیمات کو اپنے اوپر حاوی رکھیں اور اس طرح کی بے حیائی اور عریانی سے خود کو محفوظ رکھیں جو کل کلاں ان کیلئے باعث شرمندگی ہی نہیں باعث تباہی و بربادی ثابت ہو۔

Rashid

Rashid

تحریر: راشد علی راشد