معاشرے میں عدم برداشت اور قانون شکنی

Shahbaz Sharif

Shahbaz Sharif

تحریر: ملک محمد ممریز
گزشتہ کالم میں میں ذکر کیا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے سہالہ کالج میں سب انسپکٹر بننے والوں کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقع پر کہا تھا کہ آپ تھانہ میں جا کر لوگوں کو انصاف فراہم کریں۔ میں نے ذکر کیا تھا چونکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ سب انسپکٹر پاس آؤٹ اور سب میرٹ پر بھرتی ہو ئے اس لیے ضروری ہے کہ وہ تھانوں میں جا کر لوگوں کو انصاف فراہم کر یں ایسا نہ ہو کہ وہ بھی تھانہ کلچر کا حصہ بن جائیں۔ جس دن یہ کالم لکھا گیاتھا اس روز ہی ڈسکہ تھانہ میں وکلاء اور ایس ایچ او کے درمیان تلخ کلامی کے دوران ایس ایچ او ڈسکہ بار کے صدر خالد محمود اور اُن کے ساتھی وکیل کو سر کاری اسلحہ کا استعمال کرتے ہو ئے موقع پر ہلاک کر دیا ۔یہ ہے پرانا نظام جس میں جنھوں نے عوام کی جان ومال کی حفاظت کرنی ہے وہ ہی عوام کو گولیاں مار کر ہلاک کر رہے ہیں۔وہ کون سی قیامت آگئی تھی کہ ایس ایچ او نے دو وکلاء کو تھانہ ہی میں موقع پر ہی ہلاک کر دیا اس پر سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔

دو وکلاء کے قتل کے بعد احتجاج کے دوران پر تشدد واقعات کا رونما ہونا اور سرکاری املاک اور پرائیویٹ املاک کونقصان پہنچانا یہ بھی انتہائی غیر ذمہ دارانہ حرکت تھی ۔پر امن احتجاج ہر انسا ن کا حق ہے اور اس حق سے کسی کو محروم نہیں کیا جا سکتا تاہم احتجاج میں بھی حدود و قیود کا خیال رکھا جا ئے اور لوگوں کی املاک اور سرکاری املا ک کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے تھا ۔یہ امر بھی باعث تشویش ہے کہ بعض وکلاء حضرات بھی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کی تحریک کے بعد قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں کبھی وہ پولیس والوں پر وردی میں تشدد کرتے ہیں اور ان سے ملزموں کو چھڑا لیتے ہیں اور کبھی جج حضرات کو من پسند فیصلے نہ کرنے پر عدالتوں کو تالے لگا دیتے ہیں کبھی تھانوں میں جا کر پولیس سے تلخ کلامی کرتے نظر آتے ہیں جو کہ کسی طرح بھی وکلاء کے شایاں نشاں نہیں وکلاء کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اندر ایسی کالی بھیڑوں کا صفایا کریں جو وکلاء کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں اس سلسلہ میں سینئر وکلاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ وکلاء کے لیے اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ وکلاء حضرات جو آئین کے رکھوالے ہیں ۔ وہ اپنے مقدس پیشہ کا خیال کریں اور وکلاء کو قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے ۔

جہاں تک پولیس کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں ہماری پولیس خاص طور پر پنجاب پولیس کارویہ عوام کے ساتھ اور خاصطور پر شرفاء کے ساتھ کسی طرح بھی مناسب نہیں ۔آئے روز اخبارات میں پولیس گردی کے جو واقعات رقم ہو رہے وہ قابل مذمت ہیں اگر عوام کا تحفظ کر نے والی جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے جان ومال کی حفاظت کر ے وہ ہی عوام کے جان ومال کی درپے ہو جائیں تو انصاف کہاں سے ملے گا۔ حال ہی میں راولپنڈی کا واقعہ جہاں پر دو بھائیوں کو پولیس نے ناکہ پر نہ رکنے پر گولیاں ما رکر ہلا ک کر دیا ۔ اس کی بظاہر وجہ یہ نظرآتی ہے کہ ہم اکثر اوقات یہ دیکھا ہے کہ ہم لوگ پولیس کو دیکھ کر خوف کے مارے بھاگ کھڑے ہو تے ہیں ۔اُن کو یہ خطرہ ہو تا ہے کہ اپنی شناخت وغیرہ کرائی تو اس دوران ہمیں پولیس کسی ناکردہ گنا ہ میں گرفتار نہ کرلیں۔یہ ہی وہ خوف تھا جس کی وجہ سے دونوں بھائی ناکہ پر نہ رُکے حالانکہ موجودہ حالات میں بڑھتے ہو ئے دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر اُنھیں پولیس کے روکنے پر رُکنا چاہیے تھا۔

Police

Police

اس طرح کے واقعات میں ایسے نیک نام پولیس والے جو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں اور ملک و قوم کی لازوال خدمت کر رہے ہیں۔ ایسے واقعات اُن کے لیے تکلیف دہ ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ دہشت گردی کی جنگ میں پولیس والوں نے بہت بڑی قربانیاں دی ہیں اور اُن کی جان کو بھی ہر وقت خطرہ لاحق رہتا ہے اور خاص طور پر دیکھا گیا ہے کہ شہید ہونے والے پولیس افسرا ن اور جوانوں کی بیوائیں اور بچے اپنے پیاروں کے بغیر مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اس لیے پولیس کے اعلیٰ افسران کو چاہیے کہ وہ پولیس کی تربیت ایسی کریں اور ان کو قانون اور اپنے فرائض کا احساس دلائیں تاکہ وہ اپنی ڈیوٹی اور فرائض میں کوتاہی نہ کریں اور بے گناہ لوگوں کو نہ تو ناجائز تنگ کریں اور نہ ہی کسی بے گنا ہ کو مقدمہ میںپھسائیں اور نہ ہی کسی بے گناہ انسان کی جان لیں اور اپنے اندر برداشت کا جذبہ پیدا کریں اس سلسلہ میں گاہ بگاہ تربیت کی نشستیں منعقد کروائی جائیں اور عوام کی تربیت کے لیے ورکشاپ اور آگاہی مہم حکومت چلائے کہ وہ پولیس کے ساتھ تعاون کریں اور ناکوں پر پولیس کو اپنی شناخت کروانی پڑے تو بلاججک اپنی شناخت کروائیں تاکہ ایسے واقعات کا تدارک ہو۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ راجہ فخر سلطان آرپی او راولپنڈی کے حکم پر فائرنگ کرنے والے کے خلاف مقدمہ درج کر لیاگیا ہے اور بعض کو گرفتا ر بھی کر لیا گیا ہے جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف خود مقتولین کے ورثاء سے تعزیت کرنے اُن کے گھر گئے اور انصاف فراہم کرنے کی یقن دہانی کرائی ۔آج ایک خبر پڑھ کر اور بھی دکھ ہو اکہ سوات میں ایک سکول ٹیچر کلاس میں پستول کی صفائی کررہا تھا کہ گولی چل گئی جس سے ایک طالب ہلاک اور ایک زخمی ہوگیا ایسا کیوں ہے کیا استاد اپنے شاگرد کو یہ تعلیم دے کہ وہ کلاس روم میں اسلحہ کی صفائی کرے جس طالب علم ہلاک ہو جائیں یا زخمی ہوجائیں ایسے استاد کو عبرتناک سزاد ی جا ئے۔

ایسا نہ ہو کہ اس اتفاقی حادثہ قرار دے کر ملز م کو بچا لیا جا ئے۔کے پی کے پولیس اپنے آپ کو غیر جانبدار کہتی ہے اور کے پی کے پولیس کے سربراہ ناصر خان درانی تجربہ کار اور نیک نام کے طور پر جانے جاتے ہیں۔جب عام آدمی ایسے واقعات دیکھتا ہے یا پڑھتا ہے تو وہ ایک قرب میںمبتلا ہو جا تا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کیا ہورہا ہے ۔ہمیں غوری کی ضرورت ہے اور اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے اور معاشرے میں برداشت کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

Mailk M. Mumraiz

Mailk M. Mumraiz

تحریر: ملک محمد ممریز