معاشرہ اور ٹریفک قوانین

Quaid-E-Azam

Quaid-E-Azam

تحریر: محمد عتیق الرحمن، فیصل آباد
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کہیں تشریف لے جارہے تھے ۔ریلوے پھاٹک کے قریب ان کی گاڑی پہنچی تو ریلوے اہلکار پھاٹک بند کرنے لگا۔ قائد کی گاڑی رک گئی اور قائد کے اے ڈی سی ریلوے ملازم کے قریب گئے اور اسے کہا کہ پھاٹک کھول دو تاکہ قائد کا قیمتی وقت بچ سکے ۔اے ڈی سی واپس آیا تو قائد اعظم نے اے ڈی سی کو ڈانٹ پلائی اور کہا کہ اگر میں قانون کا احترام نہیں کروں گا توپھر کون کرے گا۔

یہ تو تھے پاکستان کے بانی محمد علی جناح ؒ کاقانون کا احترام اور پروٹوکول کا یہ حال تھا کہ پھاٹک بندہو گیا تو پھاٹک کھلوانا گوارا نہیں کیا بلکہ انتظار کرنا بہتر جانا۔آ ج کا سیاست دان عوام اور صحافیوں سے بیزار ہے کہ یہ ہماری عزت نہیں کرتے توایسے سیاست دانوں سے عرض ہے کہ جناب محترم! پہلے خود کو احترام کے قابل تو کرو۔

کسی قوم کی تہذیب و تمدن کا اندازہ لگانا ہو تو وہاں کے ٹریفک پر ایک نظر ڈال لی جائے ۔ اگر اس لحاظ سے اپنے ٹریفک نظام کو دیکھا جائے تو ہماری تہذیب وتمدن ہم پر آشکارہو جاتی ہے ۔ہر شہر میں چنگ چی رکشہ ڈرائیور شتربے مہار کی مانند ہیں اور ان میں سے اکثریت وہ ہیں جو اٹھارہ سال سے بھی کم عمر کے ہیں ۔کہاجاتاہے کہ چنگ چی رکشے کا آغاز پاکستان کے شہر ’’بورے والا‘‘ سے ہوا۔

Traffic

Traffic

ضرورت ایجاد کی ماں کے تحت ایک باڈی بنائی اور اس کے آگے موٹر سائیکل کو ایسے لگادیا جیسے گدھا گاڑی ہوتی ہے۔یوں سمجھ لیں کہ رکشہ گدھاگاڑی کی جدید قسم بن گئی اور آج یہ پاکستان کے ہرشہر میں باآسانی مل جاتاہے ۔مسئلہ رکشے کانہیں مسئلہ اس کے ڈرائیور حضرات کاہے ۔بغیرکسی قانون وقاعدے کے جہاں چاہتے ہیں اپنی گدھاگاڑی کو رواں رکھتے ہیں۔

مجھے روزانہ 25 کلومیٹر کا سفر کرکے آفس آناپڑتاہے ۔جس روڈ سے مجھے واسطہ پڑتاہے وہ پنجاب کا ایک خطرناک روڈ مانا جاتاہے کیونکہ وہاں کی بسیں اور وین اس قدر تیز اور خطرناک طریقے سے چلائی جاتی ہیں کہ اندر بیٹھے مسافر ایک ہی لمحہ میں اپنے اللہ کو یاد کرلیتے ہیں ۔میرامانناہے کہ کسی دہریے کو اگر اس روڈ پر سفر کروایا جائے تو وہ لازمی اللہ کو یاد کرلے گا۔موٹر سائیکل جیسی غیرمحفوظ سواری کے سوار اسے سڑک کے بیچ میں دوڑاتے ہوئے موبائل فون کالز یا ایس ایم ایس کرنے کو اپنا کمال سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ بے شمار مشاہدات اور تجربات اس کے برعکس صورتِ حال کو عیاں کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مکمل توجہ اور احتیاط کے باوجود بھی معمولی سی چْوک کے سبب حادثات ہو جاتے بلکہ بسا اوقات یہ حادثے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں پھر یہ کہ ٹریفک قوانین پر عمل پیرا ہونے سے وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ حادثات کی روک تھام بھی ممکن ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون استعمال نہ کریں اور اپنی توجہ سڑک اور ٹریفک پر مرکوز رکھیں۔

Traffic Rules

Traffic Rules

بات ہورہی تھی ٹریفک قوانین کی ۔پاکستان میں صورت حال یہ ہے کہ سائیکل سوارسے لے کر ملک کے وزراء تک اپنے آپ کو قانون سے ماورا سمجھتے ہیں ۔قانون کو گویا ہم ایک کتاب سمجھتے ہیں جو بس پڑھنے کے لئے ہے یاپھر کسی پر فراڈ کا کیس کروانے کے کام آسکتا ہے ۔قانون کے محافظ وہاں بھی ٹرپل سوار نظر آتے ہیں جہاں ڈبل سواری پر پابندی لگی ہوتی ہے ۔موبائل کو ڈرائیونگ کرتے ہوئے غیر قانونی قرار دیا گیا ہے لیکن کیا محافظ اور کیا عوام وخواص سبھی اس قانون کی سرعام دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں الاؤڈ اسپیکر پر پابندی ہے اور اس پر ہماری حکومت محترم امام مساجد کو گرفتار بھی کر چکی ہے لیکن اسی حکومت کو بسوں ،وینوں اور دیگر پبلک مقامات اور سواریوں میں جس میں مائیں بہنیں اور بیٹیاں بھی بیٹھی ہوتیں ہیں فحش اور انڈین گانے سنائی نہیں دیتے ۔کیا حکومت کاسار اغصہ صرف اور صرف ان امن پسند مولویوں پر اترتا ہے جن کو اپنی مسجد کی باہر کا دنیا کاپتہ ہی نہیں ہوتا۔

عدم برداشت کو دیکھنا ہوتو ذرا سڑک پر آکر دیکھ لیں موٹر سائیکل سوار سائیکل والے کو آنکھیں دکھا رہاہے ، بس والا کار والے سے لڑ رہاہے اور رکشہ ڈرائیور ان سب کے درمیان میں سے آگے نکلنے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتاہے ۔ان سب کی وجہ قانون کی پاسداری نہ کرناہے ۔اگر کوئی قانون کامحافظ قانون لاگو کرنے کی کوشش کرتا بھی ہے تو اس کی ایسی درگت عوام اور اس کے اپنے پیٹی بند بھائی بناتے ہیں کہ وہ کھڈے لائن لگنے میں ہی عافیت سمجھتاہے ۔عوام کا اپناقانون ہے اور خواص کااپنا قانون ۔اس میں پستاکون ہے غریب پاکستانی ۔قانون کی پاسداری کرنا اپنے آپ کو گناہ کبیرہ سے بچانا ہے جیسا کہ العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق سعودی مفتی اعظم عبدالعزیز آل شیخ نے قرآن مجید کی ایک آیت جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ’ ’جس نے ایک انسان کو قتل کیا۔

Regulation

Regulation

اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کردیا اور جس نے ایک شخص کو بچایا،اس نے گویا پوری انسانیت کو بچا لیا‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی گناہ کبیرہ کے زْمرے میں آتی ہیاور اگر اس سے قانون کو توڑنے کی وجہ سے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور کوئی قتل ہوجاتاہے تو وہ قتل عمداََ ہی ہوگا۔۔ مولانامفتی محمدتقی عثمانی فرماتے ہیں ٹریفک قوانین کو دین سے الگ کوئی چیز سمجھنا اور انکی پاسداری نہ کرنا غلط سوچ ہے ،اس لئے کہ یہ قوانین انسانی مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں اس اعتبار سے انکی پابندی شرعاََ واجب ہوتی ہے۔ ٹریفک قوانین کی پابندی نہ کرنے والا اسلامی نقطہ نظر سے قانون شکنی ، وعدہ خلافی ، ایذارسانی اور سڑک کے ناجائز استعمال جیسے چار بڑے گناہوں کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے اور اس قسم کی بے قاعدگی فساد فی الارض کی تعریف میں آتی ہے۔

اس لئے ٹریفک قوانین کی پابندی کرنی چاہیے کیونکہ یہ باتیں ہمارے دین نے ہمیں سکھائی ہیں، ہمیں ان زریں اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ اسلام ہمیں سڑک پر منظم انداز میں چلنے کی تلقین کرتا ہے ہم ان قوانین اور ضابطوں پر عمل کر کے سڑکوں پر مثالی ڈسپلن قائم کر سکتے ہیں۔ آخرپر تپتی سڑکوں پر بھاری بوٹوں سمیت ڈیوٹی کرنے والوں کی نذر ایک شعر
ہم بھی کیا عجب ہیں کڑی دھوپ کے تلے
صحرا خرید لائے ہیں برسات بیچ کر

Mohammad Atiq Rahman

Mohammad Atiq Rahman

تحریر: محمد عتیق الرحمن، فیصل آباد
03216563157