غزل

اپنے اپنے غموں پہ روتے ہیں
سب اِنہی حادثوں پہ روتے ہیں

جو بھی گرتے ہیں تیری پلکوں سے
ہم انہی آنسوئوں پہ روتے ہیں

آج ہم دونوں مجرموں کی طرح
وقت کے فیصلوں پہ روتے ہیں

کون جانے کہ ہم بھی ہنستے ہوئے
زندگی کے دکھوں پہ روتے ہیں

یاد آتی ہے اپنی محرومی!
لوگ جب خواہشوں پہ روتے ہیں

گر غمِ دل ہے ایک پاگل پن
آپ کیوں پاگلوں پہ روتے ہیں

دیکھ کر اپنے خونچکاں چہرے
کم نظر آئینوں پہ روتے ہیں

ساقیا ان کو بھی لگا لے گَلے
جو تیرے مے کشوں پہ روتے ہیں

نسل در نسل بے گناہ انساں
جبر کے سلسلوں پہ روتے ہیں

GHAZAL

GHAZAL

تحریر: ساحل منیر