نفس

Personality

Personality

تحریر: آفتاب محبوب
نفس کے بہت سے معنی ہیں یہ لفظ انسانی شخصیت کے ظاہری و باطنی پہلوو ¿ں کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے۔ نیز وہ توانائی جس سے تمیز کی صلاحیت یعنی شعور اور احساس کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ عقل و علم اور قلب کے معنی میں بھی آتا ہے اور رم عَین الشَّییئِ کے معنوں میں بھی۔ جیسے جَانیِ الم لِک بِنَفسِہ. بادشاہ میرے پاس بنفسِ نفیس آیا۔نیز عظمت اور بڑائی، ہمت،، غیرت اور ارادہ کے معنی میں بھی نفس کا استعمال ہوتا ہے۔ علاوہ بریں اس لفظ (نَفس) کو قرآن حکیم نے اس ‘شے’ کے لیے بھی استعمال کیا ہے جسے ہم انسانی ذات (human personality) یا اقبال کی اصطلاح میں خودی (self) یا پھر (i-am-ness) کہتے ہیں مگر اب بھی یہ مفہوم وضاحت طلب ہے۔ اگر یہ کہا جاے کہ دین کی اصل و بنیاد انسانی ذات کے اقرار پر استوار ہے تو اس میں قطعاً مبالغہ نہیں ہوگا۔ دنیا میں اصولی طور پر دو قسم کے تصورِحیات پاے جاتے ہیں۔ایک تصورِحیات یہ ہے کہ انسانی زندگی محض طبیعی زندگی (physical life) ہے۔ طبیعی قانون کے تحت اس جسم کی پرورش ہوتی ہے اعر انہی قوانین کی رو سے یہ آخرالامر مر جاتا ہے۔

اور جب اس کے تنفس(سانس) کی آمد و رفت کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی فرد کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اسے عام طور پر مغربی تہزیب “یا سیکولر” نظام کہتے ہیں۔ اس کے بر عکس دوسرا تصورِ زندگی یہ ہے کہ انسانی زندگی صرف اس جسم کی زندگی نہیں جسم کے علاوہ وہ انسان میں ایک اور شے بھی ہے جسے اس کی ذات یا نفس کہتے ہیں۔ یہ قوانین طبیعی کے ماتحت نہیں ہوتی نہ ہی جسم کی موت سے اس کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اس سے انسان مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہےاگر اس کی مناسب نشونما کی جاے تو انسان کی موجودہ زندگی بھی خوشگوار اور سر سبز وشاداب ہوتی ہے اور مرنے کے بعد وہ زندگی کی مزید ارتقائی منازل طے کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ انسانی ذات کی نشونما قوانین خداوندی سے ہوتی ہے۔

Nafas

Nafas

ذات یا نفس کیا ہے یہ نہ بتایا جا سکتا ہے نہ سمجھایا کیونکہ یہ کوئی مادی شے نہیں ہے.. انسانی ذات کا مظاہرہ اس کے اختیار و ارادہ سے ہوتا ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسی غیر مادی شے ہے جو اختار و ارادہ کی استعداد کی حامل ہے۔ اسی لیے خدا نے اسے ر حَنَا کہہ کر پکارا ہے۔ یعنی الوہیاتی توانائی (divine energy) اگر انسان قوانین خدا کی اتباع کرے تو اس کی ذات میں صفات خداوندی منعکس ہو جاتی ہیں اسی کو اس ذات کی نشونما کہتے ہیں۔ چونکہ انسان کے ہر عمل کی بنیاد اس کے ارادے پہ ہوتی ہے اس لیے اس کے ہر عمل کا اثر اس کی ذات یا نفس پر پڑتا ہے۔ حتی کہ اس کے دل میں گزرنے والے خیالات اور نگاہ کی خیانت کا بھی۔

یہی اس کا “اعمال نامہ” ہے جو اس کی گردن میں لٹکا رہتا ہے اسی کو وہ ظہور نتائج کے وقت پڑھے گا:
“تو آج اپنی کتاب پڑھ، آج تیرا نفس خود تیرا حساب لینے کو کافی ہے۔ اس سے انسانی ذات کی انفرادیت (individuality) ثبت ہوتی ہے ہر انسانی ذات منفرد(unique) ہوتی ہے اور اس کے ہر عمل کا اثر اس کے اپنے اوپر پڑتا ہے کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں ہو سکتا جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے “ہر نفس کو اپنے نامے اعمال کا خمیازہ خود بھگتنا پڑتا ہے کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاے گا 6:165 یاد رہے کہ انسانی ذات/نفس ایک ملکہ، صلاحیت، استعداد یا امکانی قوت ہے جو بجاے خویش نہ۔خیرہےنہ_شر جب انسان اسے انسانیت کی بلند اقدار کے تحفظ اور استحکام کے لیے عمل میں لاتا ہے تو یہ خیر کا موجب بن جاتی ہے اور نشونمہ پا کر نفس_مطمئنہ کہلاتی ہے۔

مگر جب انسان اپنے اختیار و ارادہ کو پست مفاد خویش کی خاطر استعمال کرتا ہے جس میں بلند اقدار کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے تو یہ شر کا مظہر بن کر نفس امارہ کہلاتی ہے۔ اسے دوسری صورت میں ہم محض تمیز کی خاطر انسانی ذات کو ایغو (ego) سے تعبیر دیتے ہیں ایغو حیوانی سطح زندگی پر ہوتا ہے اور ذات انسانی سطح زندگی پر جب انسانی جزبات(emotions) ایغو کے تابع چلتے ہیں تو قرآن کریم انہیں “ھوی” کی اصطلاح سے تعبیر کرتا ہے یعنی نفس امارہ (ذات کی شر میں لتھپتھ حالت) سے پھوٹنے والی نیگیٹو انرجی کہا جاتا ہے۔ بعض اوقات نفس انسانی کی یہ کیفیت بھی ہوتی ہے کہ جب اس سے برائی سرزد ہو جاے تو اس کے بعد اس میں احساس ندامت پیدا ہو جاتا ہے۔

Blame

Blame

یہ در حقیقت ایغو(نفس امارہ) اور ذات(نفس مطمئنہ) میں ایک قسم کی کشمکش کی حالت ہوتی ہے۔ اسے قرآن کریم نے نفس لوّامہ کہا ہے یعنی ملامت کرنے والا نفس۔a یہاں ایک بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ ذات میں اس چیز کی استعداد نہیں کہ وہ خیر اور شر میں از خود تمیز کر سکے.. خیر و شر کی تمیز صرف وحی کی رو سے ہو سکتی ہے(معزرت کے ساتھ وحی کی بات کھول کر نہیں کی جا سکتیاس لیے اسی ایک جملہ پہ اکتفا کرنا مناسب سمجھا) جب انسان قوانین خداوندی کی اتباع کرتا ہے تو ایغو اور ذات کی کشمکش ختم ہو جاتی ہے__ ذات پست جاذب باتوں پہ غالب آجاتی ہے اسے قرآن نے نفس مطمئنہ سے تعبیر کیا ہے۔ جس کی زندگی جنت کی زندگی ہے۔ اسے عصر حاضر کی علم النفس میں (integrated personality) کہا جائگا۔ اس کے بر عکس (disintegrated personality) ہوگی قرآن کریم نے ان دونوں کیفیتوں کو “ف ج ±ورَھَا وَ تَقو ھَا” کہہ کر پکارا ہے اور ذات کی نشونما کو انسانی زندگی کا مقصد اور کامیابی و کامرانی بتایا ہے۔

تحریر: آفتاب محبوب