پہلے تولو، پھر بولو

Shahid Afridi

Shahid Afridi

تحریر: نادیہ خان بلوچ
ایک بہت مشہور قول ہے پہلے تولو پھر بولو. اسکا مطلب قطع یہ نہیں کہ بندہ بولنے سے پہلے اپنی بات کاغز پہ لکھے. پھر یہ کاغز تولے اور اگر وزن مناسب لگے تو بولے. بلکہ اسکا مطلب ہے منہ کھولنے سے پہلے ہمیشہ سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے کہ اس بات کا اثر کیا پڑے گا. ورنہ دوسری صورت میں آپکی کہی گئی بات آپکیلیے ہی نقصان دہ ہوسکتی ہے. بغیر سوچ سمجھ کے بولنے والا شخص ایک تو تنقید کا نشانہ بنتا ہی ہے دوسرا لوگوں کے دلوں میں بھی عزت کم ہوجاتی ہے. منہ سے نکلنے والے الفاظ کبھی کبھی انسان کو کسی کے دل سے تو کیا ملک سے بھی نکلوا سکتے ہیں. کچھ ایسا ہی ہوا ہمارے قومی ہیرو شاہد خان آفریدی کے ساتھ. جو سب کے دلوں میں تو بستے ہی ہیں مگر اب کچھ دنوں سے انکے میڈیا پر بھی خوب چرچے ہو رہے ہیں. عوام کا ان سے پیار مثالی ہے.

عوام کبھی بھی انکے خلاف ایک لفظ سننے کو بھی تیار نہیں. چاہے وہ اچھا کھیلیں یا پویلین کا چکر لگا کے واپس آجائیں یا پھر ایک اوور میں 24 رنز دے کر ٹیم کو اپنے ہاتھوں سے ہار کی طرف دھکہ دیں عوام کے پیار میں تب بھی ذرا سی بھی کمی نہیں آتی.عوام انکو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے. شاید ہی کسی کھلاڑی کو اتنا پیار ملا ہو. اتنی عزت کمائی ہو. صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر میں انکے چاہنے والوں کی کوئی کمی نہیں. انکے فینز کسی وائرس کی طرح ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں. مگر جس طرح انکا نام بوم بوم ہے کچھ ایسے ہی انکے بیانات ہوتے ہیں جو کسی پہ ایک بم کی طرح ہی گرتے ہیں.

کچھ ایسا ہی انہوں نے 13 مارچ 2016 کو بھارت میں ہونے والی ایک کانفرس میں ایک بیان دیا. کہنے لگے جتنا پیار مجھے انڈین عوام نے دیا اتنا تو پاکستان سے بھی نہیں ملا. سب کو ایک دھچکہ سا لگا. ارے ایسا بھی کیا ہو گیا بھارت نے کیا کر دیا؟ جو انکا پیار آفریدی کی نظر میں پاکستانی عوام سے بھی زیادہ ہو گیا. یہ وہی بھارت ہے نہ جو میچ نہ ہونے کی دھمکیاں دے رہا تھا. جو دھرم شالہ کے بعد کولکتہ میں ایڈن گارڈن کی پچ اکھاڑنے کے دعوے کر رہے ہیں. جو پاکستانی ٹیم کو بھارت میں دیکھنا بھی نہیں چاہتے تھے. کہیں انہوں نے ایشیا کپ کے دوران کسی بنگالی بابا سے کوئی تعویز،جادو ٹونہ تو نہیں کرا دیا جب آپ بنگلہ دیش میں موجود تھے. سب جانتے ہیں جتنا پاکستانی عوام پاکستانی کرکٹرز سے پیار کرتی ہے اتنا کوئی نہیں کرتا. انکی زبان پہ ہمیشہ ایک ہی نعرہ ہوتا ہے تم جیتو یا ہارو سنو ہمیں تم سے پیار ہے. یہ نعرہ نہیں بلکہ پاکستانی سچ میں اس پہ عمل بھی کرتے ہیں.

Pakistani Cricket Fans

Pakistani Cricket Fans

یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ شاہد خان آفریدی کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے کوئی خاص کامیابیاں نہیں سمیٹیں حال ہی میں بنگلہ دیش سے بری طرح ہارنے کے بعد ایشیا کپ میں بھی ناقص کارکردگی رہی. اور خود شاہد خان آفریدی کی کپتانی کے ساتھ انکی اپنی پرفامنس بھی کوئی اچھی نہیں جارہی. بس دعاؤں کے حصار میں ہی میدان میں اترتے ہیں قسمت سے ہی کوئی ایک آدھی شاٹ کھیل کے پھر سے کیچ آؤٹ ہوجاتے ہیں اور بالنگ بھی مطمئن نہیں. مگر پاکستانی عوام اس پہ وقتی غصہ کرکے پھر سے سب بھول جاتے ہیں.

انکی نظر میں لالہ ہی انکا اصل ہیرو ہے. مگر اسکے برعکس تاریخ گواہ ہے جب بھی انڈیا کوئی اہم میچ یا سریز ہارا انڈین عوام نے کپتان دھونی سمیت کئی کھلاڑیوں کے گھر پہ پتھراؤ کیا انکو گھر میں محصور کردیا. پبلک پلیسسز پہ انکے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا. اپنی توپوں کا نشانہ بنایا. اب انہی شائقین نے ایک پاکستانی کرکٹر کو کیسے اتنا پیار دے دیا؟ ہم مانتے ہیں شاہد خان آفریدی سمیت پوری ٹیم پر تھوڑا پریشر ہے.

مشکل حالات کا سامنا ہے مگر یہ کہاں کی تک بنتی ہے کہ ایک دشمن ملک میں بیٹھ کر ایسا بیان دینا؟ کیا دیکھانا چاہتے ہیں وہاں کہ پاکستانی عوام اپنے ہیروز کی قدر نہیں کرتی؟ ان سے پیار نہیں کرتی؟ کیا انڈیا کی عوام کا پیار جیتنے کیلیے انڈیا اور پاکستان میچ میں انڈین عوام کی سپورٹ پانے کیلیے اپنوں پہ انگلی اٹھانا بہت ہی ضروری ہے؟ کیا اس کے بغیر دال نہیں گلنی تھی؟اب مصباح سمیت کئی پلیئر بیان کی تصدیق کرنے اور تفصیل بتانے کیلیے شاہد خان آفریدی کی حمایت اور میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ارے یہ ہے پاکستانی عوام کا پیار. جو شاہد خان آفریدی کے اس بیان کے بعد بھی ذرا سا بھی کم نہیں ہوا.

سوشل میڈیا پہ ایک جنگ چھڑ چکی ہے.شاہد خان آفریدی کے فینز اپنے ان دوستوں سے تو دوستی توڑنے کو تیار ہیں جو شاہد خان آفریدی کے بیان پہ تنقید کرے مگر آفریدی کے خلاف ایک لفظ سننے کو بھی تیار نہیں.مگر اس پہ بھی کوئی راضی نہیں. اور اب سارے کا سارا نزلہ میڈیا پہ گرایا جارہا ہے اسی کو الزام دیا جارہا ہے کہ میڈیا بات کو غلط انداز میں دکھا رہا ہے. میڈیا منفی کردار ادا کر رہا ہے.

Pakistani Media

Pakistani Media

ارے یہی میڈیا ہی تو اس وقت تعریفیں کرتا نہیں تھکتا جب کوئی کامیابی ملتی ہے اب اگر میڈیا نے کہہ بھی دیا کہ انہیں اس سے دکھ ہوا تو کیا ہوگیا؟ اگر شاہد خان آفریدی اپنوں کیلیے ایسا بیان دے سکتے ہیں تو ان اپنوں کو کوئی حق نہیں وہ اس بیان کے متعلق اپنی ذاتی رائے دیں؟ جس طرح عوام انکی کامیابی پہ تعریفیں کرسکتی ہے اس طرح اپنی ناراضگی دکھانے کا بھی پورا حق رکھتی ہے.

اگر شاہد خان آفریدی یہ سوچتے ہیں کہ انکے اپنے پاکستانی انکے اس بیان کا غلط مطلب نہیں لیں گے انکی بات کو سمجھیں گے تو ہم بھی یہی سوچتے ہیں کہ میری اس بات کا مطلب ان پہ تنقید کرنا یا انہیں برا بھلا کہنا ہرگز نہیں.یہ تو ہمارا پیار ہے. ہمیں اعتراض ہے تو صرف انکے بیان پہ.نہ کہ خود آفریدی پہ.بس تھوڑا دل دکھا پیار تو ہم آج بھی کرتے ہیں.

دعا ہے کہ انکے پیار کرنے والے پاک بھارت میچ میں کوئی ہنگامہ نہ کریں اور پرسکون ماحول میں انہیں میچ کھیلنے دیں اور پاکستان یہ میچ جیت بھی جائے بقول شاہد خان آفریدی صاحب کے اسی مقصد کیلیے ہی تو ایسا بیان دیا گیا ہے.باقی اصل بات یہی ہے کہ تم چاہے جیسے بیان دو، جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے.

Nadia Baloch

Nadia Baloch

تحریر: نادیہ خان بلوچ
nadiabaloch372@yahoo.com