شب و روز زندگی قسط 36

Pakistani

Pakistani

تحریر : انجم صحرائی
یہ رقم آ ئی اور خرچ ہو گئی اور ہم ہو نے والے بلد یا تی الیکشن میں ایسے الجھے کہ مہینوں انجمن فلاح و بہودی مریضان کے دفتر نہ جا سکے انہی دنوںجب میں لیہ ضلع کو نسل کے الیکشن میں مصروف تھا میری غیر حا ضری کے زمانہ میں زماں خان جن کا تعلق ڈی جی خان سے تھا ۔ وہ لیہ میں بطور سو شل میڈیکل ویلفئیر آ فیسر تعینات ہوئے اور ساتھ ہی تبدیلی یہ آ ئی کہ میاں محمد بشیر جن کا تعلق جماعت اسلا می سے تھا محکمہ زکواہ عشر کمیٹی ضلع لیہ کے چیئرمین بن گئے ۔اب مجھے نہیں پتہ کیا ہوا اور کس نے کیا کیا بہرحال ہوا یہ کہ میری غیر مو جودگی میں انجمن فلاح و بہودی مریضان کو محکمہ سو شل ویلفیئر سے رجسٹرڈ کر اکے الیکشن کرائے گئے اور ایک نیا سیٹ اپ بنا دیا گیا یہ اس دور میں ہوا جب میں بلدیاتی الیکشن میں ضلع کونسل کے امیدوار کی حیثیت سے حصہ لے رہا تھا

ابھی پو لنگ ہو نے میں چند روز با قی تھے کہ مجھے تھا نہ سٹی لیہ سے ایک پیغام ملا کہ محکمہ سو شل ویلفیئر کے تحصیل آ فیسر نے میرے خلاف مقد می کے اندراج کی درخواست دی ہے آ پ کے خلاف انکوائری ہو ئی ہے جس میں آپ کو بلایا گیا مگر آپ غائب اور لا پتا ہیں نہ آپ انجمن فلاح و بہودی مریضان کا ریکارڈ دیتے ہیں اور نہ ہی حساب کتاب لگتا ہے ۔ میں نے کہا حضور میں تو الیکشن میں مصروف ہوں اور روز لیہ آنا جانا لگا ہوا ہے مجھے تو کسی نے نہیں بلایا اور نہ مجھے پتہ کہ میرے خلاف کو ئی انکوائری ہو ئی ہے ایس ایچ او جن کا نام غالباچو ہدری نذیر تھا کہنے لگے وقت نکال کر آ جا ئیں معا ملہ فہمی کر لیں وہ نیا سوشل ویلفیئر آ فیسر روز آجاتا ہے میں نے کہا چوہدری صاحب کل پر سوں پو لنگ ہے آپ پانچ دن مجھے دے دیں میں پا نچویں دن آ پ کے سا منے پیش ہو جا ئوں گا انہوں نے کہا ٹھیک۔

مجھے یہ ساری کتھا سن کر بہت ما یو سی ہو ئی میں نہیں کہتا کہ میں بہت ایماندار یا بہت پارسا ہوں مجھ سے بھی غلطیاں ہو ئی ہوں گی ہم نے بھی چائے وائے ان غریب مریضوں کے پیسوں سے پی لی ہو گی مگر ہم دو سالوں سے یہ پرا جیکٹ اپنی مدد آپ کے تحت چلا ئے ہو ئے تھے میں نے میرے دوستوں نے بلا شبہ لا کھوں نہیں تو ہزاروں تو ضرور خرچ کئے ہوں گے اور محکمہ زکواة عشر سے ملنے والی رقم بھی ہم نے مریضوں پر ہی خرچ کی تھی یہ تو خدا کا شکر تھا کہ اللہ نے ہمیں اتنی عقل بخشی تھی کہ ہم نے آمد اور خرچ کا رجسٹر بنا یا ہواتھا جو میڈیسن جس مریض کو دیتے با ضابطہ اس سے درخواست وصول کی جا تی اور متعلقہ ڈاکٹر کی شفارش پر اسے ادویات مہیا کی جاتیں ۔ جس میڈیکل سٹور سے ادویات خریدی جا تیں ان کے با ضابطہ بل فا ئل میں لگا ئے جا تے یہ سب ریکارڈ ہمارے پاس مو جود تھا الا ئیڈ بنک میں با ضابطہ انجمن فلاح و بہودی مریضان کا جوائینٹ بنک اکا ئونٹ تھا سب کچھ تھا مگر نہ مجھے بلا یا گیا اور ہم دوستوں کو پو چھا گیا انجمن رجسٹرڈ بھی ہو گئی

Election

Election

الیکشن بھی ہو گئے انکوائری بھی ہو گئی اور پو لیس کو میرے خلاف پر چے کی درخواست بھی دے دی گئی یہ سب ہو گیا مگر نہ مجھے پتہ تھا اور نہ میرے دو ستوں کو حتی کہ پریس کے دوست بھی لا علم تھے اس سارے قصے سے ۔اس سارے منظر نا مے میں مجھے محسوس ہوا کہ مجھے کسی خاص مقصد کے تحت ٹارگٹ کیا جا رہا ہے ان ساری معلو مات کے بعد میں نے لیہ جا کر سو شل ویلفیئر آ فیسر اور ڈسٹرکٹ آ فیسر غلام فریدقیصرانی سے ملنا منا سب نہ جانا اور پو لنگ کے اگلے ہی دن میں فیصل آ باد چلا گیا جہاں کے پیٹر جان سہوترا ایڈووکیٹ ایم پی اے محکمہ سوشل ویلفیئر کے پا ر لیمانی سیکریٹری تھے اس زما نے میں شا ہین عتیق الرحمن سوشل ویلفیئر کی صوبائی وزیر تھیں وہ اپنے دور وزارت میں کئی بار لیہ آ ئیں تھیں اور میری بھی ان سے ملاقات تھی پیٹر جان سہوترا ایڈووکیٹ میرے پرانے جاننے والوں میں سے تھے میں نے ان کا انٹرویو اس وقت کیاتھا جب وہ فیصل آباد کارپوریشن کے کونسلر تھے میں نے انہیں ساری کہانی سنا ئی اور بتا یا کہ میں تو الیکشن میں مصروف تھا

مجھے عدم پتہ قرار دے کر انکوائری میرے خلاف کر دی گئی اور اب آپ کا مقا می دفتر میرے خلاف تھا نہ میں پرچہ کٹوانے کے در پے ہے انہوں نے مجھ سے پو چھا کہ کیا آپ حساب کتاب دینے کے لئے تیار ہیں میں نے کہا کیوں نہیں ۔ انہوں نے کہا ٹھیک ۔ انہوں نے ملک غوث جو ڈیرہ غازیخان میں سوشل ویلفیئر کے ڈپٹی ڈائر یکٹر تھے کو فون کر کے پو چھا کہ لیہ میں انجمن فلاح و بہودی مریضان کے بانی صدر انجم صحرائی کے خلا ف جو انکوائری ہو ئی ہے اس کی تفصیلات کیاہیں اور یہ انکوائری کے آرڈر کس نے دیئے تھے ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ان کا آ فس اس بارے بے خبر ہے ۔ سلہوترا صاحب نے ملک غوث سے کہا کہ انجم صحرائی آپ کے پاس آرہے ہیں انجمن فلاح و بہودی مریضان کا سارا حساب کتاب ان کے پاس ہے شائد دفتر والوں کو کچھ غلط فہمی ہو گئی ہے ان معا ملات کو دیکھ لیں ۔ ڈپٹی ڈائر یکٹر نے کہا ٹھیک۔

میں وہاں سے فارغ ہو کر ڈیرہ غازیخان پہنچا اور ملک غوث سے ملاقات کی انہوں نے غلام فرید قیصرانی دسٹرکٹ آ فیسر سو شل ویلفیئر کو میرے سا منے فون کیا اور پو چھا کہ یہ انکوائری کس کے حکم پر ہو ئی ہے اور ان سارے معاملات سے ڈپٹی دائریکٹر آ فس کیوں بے خبر رکھا گیا ْ۔ فون بند کر نے کے بعد انہوں نے مجھے کہا کہ آپ لیہ جا کر آفس سے رابطہ کریں اور سارا حساب کتاب پیش کر دیں اور کو ئی مسئلہ ہو تو مجھے میرے آفس کے فون نمبر پر رابطہ کر لیں ۔ میں نے کہا ٹھیک مگر یہ سب تو آپ نے زبانی ہدایات دی ہیں میرے پاس تو کو ئی ثبوت نہیں کہ میں نے اس بارے آپ سے رابطہ کیا ہے براہ کرم آ پ مجھے تحریری طور پر ایک لیٹر لکھ دیں لیہ آ فس کے نام تاکہ میں آپ کے خط کو بنیاد بنا کر دفتر سے رابطہ کر سکوں انہوں نے بغیر کچھ کہے میز پر پڑا اپنا لیٹر پیڈ اٹھایا اور قیصرانی کے نام انگلش میں ایک خط تحریر کر کے مجھے دے دیا۔ میں یہ خط لے کر تقریبا تین بجے دو پہر لیہ پہنچ گیا نئے سوشل ویلفیئر آ فیسر زماں خان نے بھٹی کلینک کے سا منے والی گلی میں کرایے پر مکان لیا ہوا تھا دو پہر کا وقت تھا مجھے اتنا اندازہ تھا کہ صاھب بہادر دفتر سے آ چکے ہوں گے اور گھر پر قیلولہ فر ما رہے ہوں گے میں نے لیہ پہنچتے ہی ان کے گھر کا رخ کیا اور کڑی دو پہر میں جا دروازہ کھٹکھٹایا ، دو تین بار کنڈی بجانے کے بعد زمان خان نے دروازہ کھولا اور ایک ناواقف بندے کو دروازے پر دیکھ کر قدرے حیرانگی سے بولے جی فر ما ئیں ۔۔میں نے کہا میں انجم صحرائی ۔۔یہ سن کر وہ اور حیران ہو گئے بے ساختہ بولے تم کہاں ؟ ہم تو تمہیں ایک مہینے سے ڈھونڈ رہے ہیں

Police

Police

ابھی ان کی بات مکمل نہیں ہو ئی تھی کہ میںنے لقمہ دیتے کہا کہ پو لیس بھی ڈھونڈ رہی ہے میری بات سن کر وہ مسکرائے اور اندر کی اشارہ طرف کرتے ہو ئے بو لے آ جا ئیں میں ان کے ساتھ مکان کے اندر چلا گیا وہ مکان میں اکیلے رہ رہے تھے اور شا ئد کھانے کی تیاریوں میں مصروف تھے پو چھا کیا پئیں گے میں نے کہا کھانا کھا ئیں گے ہم نے اکٹھے کھانا کھا یا کھانے کے دوران با تیں بھی ہو تی رہیں جب میں نے انہیں ساری کتھا سنا ئی اور لیہ سے فیصل آباد اور فیصل آباد سے ڈی جی خان کے سفرنامہ کے قصے سنا ئے تو کہنے لگے کہ تو واقعی آپ حساب کتاب دینے کو تیار ہیں میں نے کہا کیوں نہیں حکم ملا تو مسکراتے ہو ئے بولے تو مسئلہ تو حل ہو گیا مین نے کہا جی مسئلہ تو تھا ہی نہیں بس آپ کی محبتیں ہیں ۔ طے پا یا کہ میں کل ریکارڈ لے کر دفتر آ جائوں گا اور سارا ریکارڈ اور حساب کتاب سوشل ویلفیئر آ فس کو پیش کر دوں گا ۔ ان سے ملنے کے بعد میں نے سینئر صحا فیوں غافل کرنالی اور چو ہدری سرور سے ملاقات کی اور انہیں تمام کہانی سے با خبر کرتے ہو ئے ان سے گذارش کی کہ جب میں یہ ریکارڈ دینے سو شل ویلفیئر آ فس جا ئوں تو وہ میرے ساتھ چلیں ۔ دو نوں ساتھی یہ ساری کتھا سن کر بڑے حیران ہو ئے اور کہا ٹھیک کل ہم اکٹھے چلیں گے ۔ پرو گرام کے مطا بق اگلے دن میں اور میرے سینئر سا تھی چو ہدری سرور اور غافل کرنا لی ایک ٹا نگے پر ریکارڈ کے ایک بڑے گٹھر کے ساتھ ٹی ڈی اے کا لو نی میں دفتر سو شل ویلفیئر پہنچ گئے جہاں ڈسٹرکٹ آ فیسر غلام فرید قیصرا نی اپنے دفتر میں مو جود تھے ہم جب اندر دفتر میں ہہنچے تو میں نے حساب کتاب کا بڑا سا یہ گٹھڑا اپنے سر پر اٹھا یا ہوا تھا جو میں نے صاحب کی بڑی سی میز پر رکھ دیا ڈسٹرکٹ آ فیسر قیصرانی نے پو چھا یہ کیا ہے ؟ میں نے ڈپٹی ڈائریکٹر کا خط قیصرانی صاحب کو دیتے ہو ئے کہا حساب کتاب ۔

انہوں نے خط پڑھا اور بغیر کچھ بولے گھنٹی بجا ئی اور اندر آنے والے چپڑاسی سے کہا عشرت کو بلا ئو ۔ عشرت آ فس میں ایک کلرک تھے وہ آ ئے تو انہیں حکم صادر ہوا کہ یہ انجمن فلاح بہودی مریضان کا ریکارڈ ہے یہ طریقہ تو نہیں ہو تا مگر اپنے صحرائی صاحب دوست ہیں لے لیں ۔ اور انہیں تر تیب دے لیں میں نے کہا کہ اس میںتمام میڈیسن بل ، ڈاکٹرز کے نسخے اورتمام ان مریضوں کی تفصیلات مو جود ہیں جنہیں یہ ادویات مہیا کی گئی ہیں میں نے ان کی فوٹو سٹیٹ رکھ لی ہیں آ پ تر تیب دے لیں امید ہے کہ یہ آپ کی طرف سے دی گئی ڈو نیشن سے زیادہ ہوں گے لیکن اگر پندرہ ہزار سے کم ہوں گے تو میں دینے کا پا بند ہوں ۔ عشرت نے کئی دن کے حساب کتاب کے بعد مریضوں کے علاج معالجہ کی مد میں 43 ہزار روپے کے اخراجات کی سٹیٹمنٹ بنا کرڈپٹی ڈائریکٹر کو پیش کر دی ۔جس سے ثا بت ہوا کہ ہم نے نہ صرف حکو مت کی طرف سے ملنے والے پندرہ ہزار رو پے بلکہ اپنی مدد آپ کے تحت اکٹھے کئے ہو ئے مزید تیس ہزار روپے زیادہ انجمن فلاح بہودی مریضان کی طرف سے مستحق امداد مریضوں کے علاج معالجہ پر خرچ کئے تھے یہ سال 1983کی بات ہے اس وقت 30 ہزار روپے خا صی بڑی رقم ہو تی تھی ۔ اور یوں میں اس ناکردہ گناہ کی سزا سے بچ نکلا ْ ۔ میرے حساب کتاب میں سر خرو ہو نے کے بعد ابھی چند ہفتے ہی گذرے تھے کہ خان زماں سو شل ویلفیئر آ فیسر مجھے کہنے لگے کہ ہم چا ہتے ہیں کہ انجمن فلاح و بہبودی مریضان کی تنظیم نو کی جائے اور آپ کو بھی تنظیم کے عہدیداروں میں شا مل کیا جائے میں نے کہا ٹھیک۔

چند دنوں کے بعد تنظیم کے چند دو ستوں کا اجلاس سو شل ویلفیئر آ فس میں منعقد ہوا اور ا جلاس میں شریک سبھی دوست اتفاق رائے سے عہدیدار منتخب ہو گئے نئے عہدیداروں میں سید فضل حق رضوی صدر ، انجم صحرائی نا ئب صدر ، مہر محمد اقبال سمرا نا ئب صدر اور جزل سیکریٹری احمد زماں خان سو شل ویلفیئر آ فیسر شا مل تھے ۔ قواعدو ضوابط کے مطا بق کوئی سر کاری ملازم کسی غیر سرکاری ادارے کا عہدیدار نہیں بن سکتا ہم نے دبی زبان میں اپنی یہ رائے دی مگر نقار خانے میں طو طی کی آواز کہاں سنا ئی دیتی ہے ہمای یہ بات بھی ہوا میں گم ہو گئی اور پھر ہم بھی چپ ہو رہے کہ ہمیں ابھی اپنی گردن چھڑانا تھی ۔ اگلے روز سو شل ویلفیئر آ فس کی جانب سے ان عہد یداروں کا با ضابطہ نو ٹیفکیشن جاری کر دیا گیا جو نہی مجھے یہ نو ٹیفکیشن کی کاپی مو صول ہو ئی میں نے اپنے ایک وکیل دوست سے کہا کہ وہ میری طرف سے ڈائریکٹر ، ڈپٹی ڈائریکٹر اور سو شل ویلفیئر آ فیسر اور ڈائر یکٹر محکمہ عشر زکواة کو یک طرفہ تحقیقات کرنے اور بلا جواز پو لیس درخواست دینے پر ایک ایک لا کھ روپے ہرجانے کا قا نو نی نو ٹس جاری کریں جو نہی میرے وکیل کی جانب سے یہ رجسٹرڈنوٹس محکمہ سو شل ویلفیئر کے متعلقہ لو گوں کو موصول ہو ئے اس سے اگلے دن ہی میرے خلاف دی گئی پو لیس درخواست واپس لے لی گئی اور اس طرح ہماری گردن چھوٹی۔۔۔

Anjum Sehrai

Anjum Sehrai

تحریر : انجم صحرائی