جب بگڑی بنتی ہے

Fazal Bin Rabi

Fazal Bin Rabi

تحریر : مسز جمشید خاکوانی
تاریخ میں لکھا ہے کہ فضل بن ربیع ہارون رشید کا وزیر تھا ۔ہارون رشید کے دو بیٹے تھے محمد امین اور مامون ،ہارون کی وفات کے بعد محمد امین خلیفہ ہوا تو دونوں بھائیوں میں اقتدار کے لیئے جنگ ہوئی ۔فضل نے مامون کے خلاف اور امین کی فتح کے لیئے ہر امکانی کوشش کی مگر اس میں ناکامی ہوئی مامون کے اقبال کا ستارہ بلند ہونے لگا اور امین کے اقتدار کی شمع بجھ گئی تو افضل جان کے خوف سے کہیں جا چھپا ۔۔۔
مامون کا ایک قدیمی خدمت گار معیل شاہک نامی تھا امیرلمومنین مامون نے شاہک سے کہا آج سے تیرا اس کے سوا کوئی کام نہیں کہ تو جس طرح ہو سکے فضل بن ربیع کا کھوج نکالے۔”شاہک نے دوسری تدبیروں کے علاوہ بار بار منادی بھی کرائی کہ جو شخص فضل ن ربیع کو پکڑ کر لائے گا یا پتا بتائے گا ‘ ایک ہزار دینار انعام پائے گا ۔مگر یہ تمام کوششیں اکارت گئیں اس کا پتا ملنا تھا نہ ملا ۔منادی ہوئے چار سال کا عرصہ گذر چکا تھا کہ ایک دن فضل گوشہ نشینی کی زندگی اور تنہائی سے اکتا کر ساربانوں کے بھیس میں ایک گون (بار بردار جانور پر سامان لادنے کا تھیلاجو ٹاٹ یا رسیوں سے بنا ہوتا ہے)کندھے پر اٹھائے اپنے خفیہ مسکن سے باہرنکلا۔تاکہ کسی اور جگہ چھپ کر جا رہے۔

اتفاق سے مامون کی فوج کے دو سپاہی ایک پیادہ ایک سوار کہیں جا رہے تھے پیادے نے فضل کو پہچان لیا اور سوار کو بتایا ۔سوار بہت خوش ہوا اور گھوڑا دوڑا کر فضل کے پیچھے ہو لیا فضل کے قریب پہنچا تو اس نے گون اس کندھے سے اتار کردوسرے کندھے پر رکھ لی اس حرکت سے سوار کا گھوڑا چمکا اور اسے گرا کر ایک طرف بھاگ گیا ۔اس سے پہلے کہ سوار سنبھلتا فضل قدم بڑھا کر کہیں سے کہیں جا پہنچا ایک جگہ ایک مکان کا دروازہ کھلا نظر آیا اندر ایک بڑھیا بیٹھی تھی فضل نے اس سے کہا اماًں مجھے چند روز کے لیئے اپنے گھر میں چھپا لو تو بڑا احسان ہو گا ۔” بڑھیا کو اس پہ رحم آیا کہنے لگی آ جائو” اوپر والی کوٹھڑی خالی ہے ‘اس میں جا کر چھپ جائو ۔” اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔فضل جلدی سے اس کوٹھڑی میں جا گھساابھی وہ مشکل سے کوٹھڑی میں گھسا ہی ہو گا کہ وہی سوار اس مکان میں داخل ہوا اور بڑھیا سے بولا۔کیا بتائوں ‘آج تو سونے کی چڑیا ہاتھ آ کر نکل گئی ۔فضل بن ربیع کو میں نے پکڑ ہی لیا ہوتا مگر قسمت خراب تھی عین وقت پر میرا گھوڑا چمکا اور مجھے گرا کر نکل گیا ۔اس سے پہلے کہ میں سنبھلتا فضل کہین غائب ہو گیا اللہ جانے آسمان کھا گیا یا زمین۔”فضل نے جو یہ بات سنی بے چارے کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی حیرت سے بت بن گیا سانس روکنے کی کوشش کی تو چھینک آ گئی۔

سوار نے چھینک کی آواز سنی تو بڑھیا سے پوچھا اندر کون ہے ؟ اس نے کہا میرا بھتیجا ہے برسوں بعد پردیس سے لوٹا تو راستے میں چور مل گئے بے چارے کا سارا سامان چھین لیا کپڑے تک اتروا لیئے ننگا اندر بیٹھا ہے شرم کے مارے باہر نہیں آ سکتا ۔سوار نے کہا میرے کپڑے لے جا کر پہنا دو اور باہر لے آئو ۔بڑھیا نے کہا ابھی بلاتی ہوں لیکن غریب نہ جانے کتنے دن کا بھوکا ہے اتنی تکلیف کرو یہ میری انگوٹھی لے جا کر بازار میں گروی رکھ کر کچھ کھانے کو لے آئو ۔” ادھر سوار انگوٹھی لے کر بازار کی طرف چلا ادھر بڑھیا تیزی سے فضل کی طرف پہنچی اور کہا تم وہی مفرور فضل ہو جس کی گرفتاری پر ہزار دینار انعام مقرر ہے ؟” فضل نے اقرار کیا تو کہنے لگی تم نے ہماری باتیں سن لی ہونگی اسے میں نے دھوکے سے بازار بھیجا ہے خریت چاہتے ہو تو فوراً یہاں سے نکل بھاگو ۔فضل اس ناگہانی مصیبت سے بچ کر باہر نکلا تو حیران تھا اب کہاں جائے ؟ مگر بلا ارادہ بھاگا چلا جا رہا تھا چلتے چلتے ایک عالی شان مکان کے قریب پہنچا تیز رفتاری کی وجہ سے تھک چکا تھا سوچا تھوڑا سستا لوں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز آئی فضل اس ڈر سے کہ کوئی اور سوار اسے پہچان نہ لے جلدی سے مکان کی دیوڑھی میں ہو گیا بد قسمتی سے وہ سوار اسی مکان کے دروازے پر آ کے رکے۔فضل اپنی شومئی قسمت کو کوسنے لگا ۔اتنے میں شاہک گھوڑے سے اتر کر دیوڑھی میں داخل ہوا ۔ایک ہی نظر میں فضل کو پہچان گیا اور بولا تم کہاں سے آ ٹپکے؟”فضل نے جواب دیا تقدیر کا تیر ہوں جہاں گرا” آ گرا ۔”شاہک خوش ہو کر اسے اندر لے گیا اور اپنے خاص کمرے میں لے جا کر بٹھایا پھر اس کے لیئے کھانا منگوایا اور فضل سے کہا ۔آپ میرے گھر آئے ہیں اس لیئے مہمان ہیں بسم اللہ کیجئے۔”

ALLAH

ALLAH

فضل نے پوچھا یہ زندوں کا کھانا ہے یا مردوں کا؟”جواب ملا زندوں کا۔”شاہک نے تین دن تک اسے مہمان رکھا ۔پھر بولا اب تم اپنی جان بچا کر بھاگ جائو میں پہلے کی طرح تمہیں تلاش کرتا رہوں گا ۔” فضل وہاں سے رخصت ہو کر باہر آیا ۔کسی ٹھکانے کی تلاش میں جا رہا تھا کہ ایک سوداگر کا خیال آیا جو قریب ہی رہتا تھا اور فضل نے اپنی وزارت کے دنوں میں اس پر بہت احسان کیئے تھے ۔ڈھونڈتا ہوا اس کے مکان پر پہنچا آواز دی ۔سوداگر باہر آیا اور فضل کو دیکھ کر بہت خوشی ظاہر کی ۔گھر کے اندر لے گیا اور کسی اچھی جگہ بٹھا کر دوڑا مامون کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسے فضل کے ہاتھ آنے کا ماجرہ کہہ سنایا ۔شاہک مامور کیا گیا کہ فضل کو سوداگر کے گھر سے جا کر لائے ۔شاہک فضل کو گرفتار کر کے مامون کی خدمت میں لے گیا بدنصیب قیدی نے تخت کی طرف نظر اٹھائی اور کانپ گیا زندگی سے مایوس ہو کر سر کو جھکایا اور کانپتی ہوئی آواز میں سلام کیا۔”امیر المومنین مامون سجدہ شکر بجا لایا پھر سلام کا جواب دے کر بولا ۔آگے آئو اور پہلے دن سے لے کر آج تک جو گذری من و عن کہہ سنائو۔”

اس پر فضل نے اپنی سر گذشت کہنی شروع کی ۔جب بڑھیا کے انگوٹھی گروی رکھنے کا ذکر آیا تو مامون نے خزانچی کو حکم دیا کہ ایک ہزار دینار بڑھیا تک پہنچائو اور اسے کہو اپنی انگوٹھی چھڑا لے ۔”جب فضل نے شاہک تک پہنچنے اور اس کی مہمان نوازی کا واقعہ سنایا تو مامون بولا اگر وہ ایسا نہ کرتا تو ہمارا منظور نظر نہ ہوتا ۔”سب سے آخر میں سوداگر کا تذکرہ آیا تو مامون نے ناراض ہو کر حکم دیا اسے فوراً شہر سے نکال دیا جائے ۔کہ ایسے بد عہد اور احسان فراموش کا ہمارے ملک میں کچھ کام نہیں ہے ” پھر فضل سے بولا ،جس وقت تجھے آتے دیکھا تو میں نے سجدہ شکر ادا کیا اور خدا سے عرض کی کہ الٰہی تیرا کوئی بندہ مجھ سے زیادہ گناہ گار نہ ہو گا اور میرا کوئی نوکر فضل سے زیادہ خطا کار نہیں ۔میں فضل کو معاف کرتا ہوں اور تو فضل کے طفیل مجھے معاف کر دے !”

ساتھیو! جب بگڑی بنتی ہے تو سارے الٹے کام بھی سدھرتے چلے جاتے ہیں جو لوگ صبر سے وقت کا انتظار کرتے ہیں اچھا وقت ضرور آتا ہے اکثر غصے میں کیئے گئے فیصلے کا انجام ندامت پر ہوتا ہے کہتے ہیں تمام لوگوں میں نیک کام پر قادر وہ شخص ہے جسے غصہ نہ آئے ۔واصف علی واصف کہتے ہیں کوئی زندگی ایسی نہیں جو اپنی آرزو میں مکمل ہو کبھی آرزو کم رہ جاتی ہے کبھی حاصل بڑھ جاتا ہے۔تلقین صرف یہ ہے کہ ہو جانے والے واقعات پر افسوس نہ کرو بلکہ صبر کرو ۔اور معاف کرنا سب سے افضل ہوتا ہے!

Mrs. Jamshed Khakwani

Mrs. Jamshed Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی