دار و رسن کے مرحلے جاں سے عزیز ہیں

Eyes

Eyes

دار و رسن کے مرحلے جاں سے عزیز ہیں
ہم کو وفا کے سِلسلے جاں سے عزیز ہیں
کِس سے کہیں کہ آج بھی ہم کو اسی طرح
اس کی گلی کے فاصلے جاں سے عزیز ہیں
پلکوں پہ جذب و شوق کی محرومیاں لئے
جِتنے دِیے بھی جل اٹھے جاں سے عزیز ہیں
اِس صبحِ پرملال کی میراث کی قسم
کاٹے ہیں جو بھی رتجگے جاں سے عزیز ہیں
دیکھے تھے جو بھی خواب وہ آنکھوں کا حسن ہیں
بِیتے ہیں جو بھی حادثے جاں سے عزیز ہیں
زِندہ ہیں ایسے لوگ بھی جِن کو جہان میں
محرومیوں کے مشغلے جاں سے عزیز ہیں
ساحل ہماری سوچ پہ جو معترض رہا
اس کے خیال و فلسفے جاں سے عزیزہیں
ساحل منیر