حقیقت سے بھی بڑی حقیقت

Hjra Aswad

Hjra Aswad

تحریر: محمد صدیق پرہار
کتاب سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صفحہ ٣٩ پرہے کہ قریش کعبہ از سرنو تعمیر کررہے تھے کہ جب عمارت حجراسودکے مقام تک پہنچی توقبائل میں سخت جھگڑا پیداہوا۔ ہر قبیلہ چاہتاتھا کہ ہم ہی حجرا اسود کو اٹھا کر نصب کریں گے۔ اس کشمکش میں چاردن گزر گئے اور تلواروں تک نوبت پہنچ گئی۔ بنو عبدالدار اور بنوعدی بن کعب نے تواس پر جان دینے کی قسم کھائی اور حسب دستوراس حلف کی تاکیدکے لیے ایک پیالہ خون بھرکراپنی انگلیاں اس میں ڈبو کر چاٹ لیں۔ پانچویں دن سب مسجد حرام میں جمع ہوئے ابوامیہ بن مغیرہ مخزومی نے جو حضرت ام الموء منین کا والد اور قریش میں سب سے معمر تھا نے رائے دی کہ کل صبح جوشخص اس مسجد کے باب بنی شیبہ سے حرم میں داخل ہووہ ثالث قرار دیا جائے ۔سب نے اس سے اتفاق کیا۔ دوسرے روزسب سے پہلے داخل ہونے والے ہمارے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ والہ وسلم تھے۔

دیکھتے ہی سب پکاراٹھے یہ امین ہیں ہم ان پرراضی ہیں ۔جب انہوںنے آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم سے یہ معاملہ ذکرکیاتوآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک چادر بچھا کر اس میں حجرا سود کو رکھا پھر فرمایا ہر طرف والے ایک ایک سردار کا انتخاب کر لیں اور وہ چاروں سردار چادر کے چاروں کونے تھام لیں اور اوپر کواٹھائیں اس طرح جب وہ چادر مقام نصب کے قریب پہنچ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضر اسود کواپنے مبارک ہاتھ سے اٹھا کر دیوار میں نصب کر دیا۔ اور وہ سب خوش ہوگئے۔ اسی کتاب سیرت رسول کے صفحہ ٧٩ پر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مسلمانوں اور یہود مدینہ کے درمیان ایک معاہدہ تحریر فرمایا۔

اس معاہدہ میں جو شرائط لکھی گئیں تھیں ان کاخلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ خون بہا اور فدیہ کاطریقہ سابقہ زمانہ کاقائم رہے گا ۔ہر دو فریق کو مذہب کی آزادی ہوگی ۔ایک دوسرے کے دین سے تعرض نہ کریں گے ۔ہر دو فریق ایک دوسرے کے خیرخواہ رہیں گے۔اگرایک فریق کو کسی سے لڑائی پیش آئے تو دوسر اس کی مدد کرے گا ۔اگر فریقین میں ایسااختلاف پیدا ہو جائے جس سے فساد کا اندیشہ ہو تو اس کا فیصلہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر چھوڑ دیا جائے گا۔ کوئی فریق قریش اور اس کے معاونین کو امان نہ دے گا۔اگر کوئی دشمن یثرب پر حملہ آور ہو تو ہر دو فریق مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔ اگر ایک فریق کسی سے صلح کرے گا تو دوسرابھی اس میں شامل ہو گا۔ مگر مذہبی لڑائی اس سے مستثنیٰ ہوگی۔

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

کتاب شان محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے درخشاں پہلو کے صفحہ ١٦٨ پر ہے کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کفارکی ہرطرح کی حرکت سے بخوبی واقف تھے پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کی جانب کوئی جارحانہ قدم نہ اٹھایا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو امن وسلامتی کے علمبردارہیں اورآپ صلی اللہ علیہ ولہ وسلم پہلے کوئی کارروائی کرنا بھی نہیں چاہتے تھے۔ رجب میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ کو طلب فرمایا اور فرمایا کہ آپ رضی اللہ عنہ ایک مسلح سالاروں کی ٹولی لیں اور مقام نخلہ میں جاکر چھپ جائیں اور دشمن کی اطلاعات حاصل کریں۔ اور سرور کونین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ان اطلاعات سے بر وقت آگاہ فرمائیں ۔سرور دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سالار ٹولی حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ کو ایک خط بھی دیا اور فرمایا اس کو دو دن کے سفر کے بعد کھولیں۔

چنانچہ ہدایت کے مطابق حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ نے خط کو کھولا تو لکھا تھا کہ وادی نخلہ میں جائو اور قریش کے گھات میں بیٹھو۔ ابن اسحاق لکھتے ہیں کہ مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ کی وادی جائو اور قریش کی جاسوسی کر کے ان کے منصوبے وپلاننگ سے اسلامی دارالحکومت کو آگاہ کرو۔ جس وقت حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ قریش کی نقل وحرکت کاجائزہ لے رہے تھے ۔اسی وقت قریش کاایک چھوٹا سا قافلہ جوکہ شام سے تجارتی معاملات حل کرکے آرہا تھا وہ قافلہ حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ اوران کے دستہ کے قریب سے گزراتوغلطی سے انہوںنے اس پرحملہ کردیاجس کے نتیجے میں ایک معمولی سی جھڑپ ہوئی اورعمروحضرمی نامی آدمی جوکہ قریشی تھا مارا گیا نیز اس کے دو ساتھیوں کو مسلمانوں نے قیدی بنا لیا مسلمانوں کے ہاتھ کافی مال غنیمت لگا۔ جس کولے کروہ مدینہ منورہ واپس آگئے اورواپسی پرحضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ نے سرورکونین صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ساراماجراعرض کردیا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سارے ماجرے کوسن کرناپسندیدگی کا اظہار کیا اور ناراض ہوکر فرمایا میں نے تمہیں ایسا کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دی تھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے وہ مال غنیمت لینے سے انکار کر دیا۔ اسی کتاب کے صفحہ دوسوچونتیس پرہے کہ اللہ نے اپناوعدہ سچاکردیااورسرداردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کواس کاقبلہ واپس کردیااسلامی فوجیں جب مکہ کی دہلیزپرآئیں تو سالار لشکر جرار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فتح کا سات نکاتی دستور مرتب فرما کر اپنی فوجوں کے حوالے فرمایا اور حکم دیا کہ اس دستور پر سختی سے عمل کیا جائے وہ عالمی دستور اس طرح ہے۔

Dastoor

Dastoor

١۔ جوکوئی شخص ہتھیار پھینک دے اس قتل نہ کیاجائے
٢۔ جوکوئی شخص خانہ کعبہ کے اندرچلاجائے اس پرتلوارنہ اٹھائی جائے۔
٣۔جوکوئی شخص اپنے گھرکے اندربیٹھ جائے اس کی جان بخش دی جائے۔
٤۔جو کوئی آدمی ابوسفیان کے گھر میں چلاجائے اس کوبھی امان ہے ،
٥۔ جو کوئی آدمی حکیم بن حزام کے گھر میں داخل ہوجائے اس کو بھی تلوار کے وارسے بری قرار دیا جائے۔

٦۔ بھاگ جانے والے کا تعاقب نہ کیاجائے۔
٧۔زخمی پر اپنی تلوار کے جو ہرنہ دکھائے جائیں۔
وہ دستور جو سردار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ترتیب دیاتھا دراصل وہ امن وامان کا دستور تھا۔ اس دستور میں انسانی خون کی حرمت کا درس ملتاہے۔ جوکوئی اس دستور کی پابندی کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عظیم انسان ہوگا۔ شرط صرف اسلام ہے یہ سرداردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان ہی تھی کہ فوراًایک دستورمرتب کیا اور عمل کر کے فاتحین کے لیے ایک روشن مثال قائم کردی۔ اسی کتاب میں ہے کہ جب اہل کفر نے معاہدہ توڑتے ہوئے مسلمانوں کے حلیف قبیلے کے خلاف دوسرے گروہ کی حمایت کی ۔اور مسلمانوں کے گروہ کے کئی آدمی شہید کر ڈالے بجائے اس کے کہ اہل کفر شرمندہ ہوتے انہوں نے خودہی معاہدہ کے ٹوٹنے کااعلان کردیا۔ جس کوسن کرآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے باقاعدہ مکہ پرچڑھائی کی تیاریاں شروع کر دیں اور اپنے حضلیف قبائل کو بھی تیاری کا حکم دیا اور جنگی تیاریوں کو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خفیہ رکھا۔

جب تیاریاں مکمل ہو گئیں تو دس رمضان المبارک آٹھ ہجری کو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم دس ہزار کا لشکر لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔اس وقت اسلامی لشکر کے راہبر حضرت غالب بن عبداللہ رضی اللہ عنی مقر رہوئے ۔آپ رضی اللہ عنہ اسلامی لشکرکومدینہ سے مکہ لے آئے ۔آپ رضی اللہ عنہ نے مسلمان لشکرکومکہ کی طرف مختصرترین راستہ بتایا اور کامیاب راہبری فرمائی ۔اسلامی لشکرنے مکہ سے ایک منزل کی مسافت پر مرالظہر ان کے مقام پر قیام کیا۔ قریش کو مسلمانوں کی اچانک آمد کا پتہ چلاتوان کے اوسان خطاہوگئے۔ابوسفیان رات کے وقت تحقیق حال کے لیے نکلا لشکر اسلام کے چند سپاہیوں نے اسے گرفتار کر لیا۔ اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا مسلمان اس کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی سفارش پراسے معاف کر دیا اس حسن سلوک کایہ اثر ہوا کہ ابوسفیان فوراً مسلمان ہوگیا۔

Lashkar Islam

Lashkar Islam

اگلے روز اسلامی فوج مکہ کی طرف روانہ ہوئی ۔لشکراسلام کے سفر اور جوش وولولہ کا منظر دیدنی تھا۔ مسلمانوں کے ہر قبیلہ کی فوج اپناجھنڈاتھامے بڑی شان سے آگے بڑھ رہی تھی سب سے آخر میں انصار مدینہ کے دستہ کے ساتھ آپصلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لے جارہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس شان سے مکہ میں داخل ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ دس ہزارجاں نثار موجود تھے۔ مکہ میں داخل ہوتے وقت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اعلان کرا دیا کہ جوشخص ہتھیارڈال دے گا، یا حرم پاک میں پناہ لے گا، یا ابوسفیان اورحکیم بن حزام کے گھرپناہ لے گایااپنے گھر کے دروازے بند رکھے گا اسے امان دی جائے گی ۔دنیا کی فاتح قوموں کا ہمشہ سے یہ اصول رہا ہے کہ جب مفتوح علاقے میں داخل ہوتی ہیں۔تووہاںکی رعایا کی جان ومال ان کے رحم وکرم پرہوتی ہے اوروہ اسے جس طرح چاہیں تباہ وبربادکرسکتے ہیں۔

لیکن جب اسلامی افوج فاتحانہ اندازمیںمکہ میںداخل ہوئیںتوکسی شہری کوہاتھ تک نہیں لگایا۔ کسی کافر کا مال نہ لوٹا گیا۔ آج تک اس حیرت انگیز حسن سلوک اور رواداری پر دنیا انگشت بدندان ہے۔ اسی کتاب کے صفحہ ٢٣٩ پر ہے کہ (فتح مکہ کے بعد) سب کو اپنے جرائم کی سنگینی ستارہی ہے۔سرور کونین اور دو عالم کے قاضی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کعبہ سے باہرآتے ہیںسب دل دھڑکنابندکردیتے ہیں۔اب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حکم ہوگا اور یہ سب مجرم اپنا عدل حاصل کرلیں گے۔ مگر ادھر تو معاملہ اصل عدل وانصاف کاہے۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم پھر مجرمین سے مخاطب ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں

اے مکہ والو!تم آج اپنے ساتھ کس سلوک کی امید رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک شریف بھائی ہیں اور کریم النفس بھتیجے ہیں۔
مخزن رحمت صلی اللہ علیہ والہ وسلم جوش میں آئے اورفرمایا۔
میں تم سے وہی کہتا ہوں جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے فرمایاتھا

آج تم پرکوئی الزام نہیں جائو تم سب آزادہو۔
اسی کتاب کے صفحہ ٤٦٤پرہے کہ اللہ جل شانہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبان مبارک میں بڑی مٹھاس ڈال دی تھی اسی موضوع پرراقم الحروف کے نعتیہ کلام عشق شناس کا مقطع کچھ یوں ہے کہ

صدیق زبان مصطفی کے میٹھے میٹھے پھولوں جیسی
شہد مصری میں بھی پائی جاتی مٹھاس نہیں

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

اسی کتاب میں لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا لہجہ بڑا نرم تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اخلا ق بڑے اعلیٰ تھے۔ کسی کادل نہیں دکھاتے تھے۔ ہرایک سے بڑی محبت اور پیار سے گفتگو فرماتے تھے۔ چہرے مبارک پر ہر وقت دلنشین مسکراہٹ رہتی تھی۔ جس کا اثر دیرپا تھا۔ جو بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مسکراہٹ دیکھ لیتا تھا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا شیدائی ہو جاتا تھا۔ لوگ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ساحر اور جادوگر کہتے تھے۔ واقعی اللہ جل شانہ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شخصیت پرکشش بنائی تھی۔ جو بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاں آتاتھاوہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاہوکررہ جاتاتھا۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مسکراہٹ کمال کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہرکسی کی خطاسے درگزر فرمایا کرتے تھے۔ قریش مکہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوبیس سال تک ستایا۔

انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پرپتھرپھینکے کوڑاکرکٹ پھینکا،اونٹ کے اوجھ ڈالے، گالیاں دیں راستے میں کانٹے بچھائے، آوارہ لڑکوں کو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیچھے لگادیاتاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تکلیف دیں۔گلاگھونٹا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیٹی کوزخمی کردیا۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قتل کے درپے ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے وطن چھین لیا، کعبہ کا طواف نہ کرنے دیا۔ مگر جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے جانید شمنوں پر قابو پا لیا تویک جنبش قلم سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کی خطائوںسے درگزر فرمایا بلکہ ان کو اعلیٰ مقام کا حامل ٹھہرایا۔ ان کے گھروں کو دار الامان قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بڑھ کردرگزر کرنے والا کوئی نہیں تھا(اورنہ ہے )۔

Apology

Apology

رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے دشمنوں سے کبھی بدلہ نہیں لیا۔ کبھی کسی کو بدعانہیں دی۔ جب بدلہ لینے کاوقت آیا تو سب کو معاف کردیا۔ کفار مکہ کے مظالم خندہ پیشانی سے برداشت کیے۔ سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا شعب ابی طالب میں اپنے خاندان کے ہمراہ پناہ گزیںہونے اور طائف کا سفر کرنے کی دردناک داستانیں سن کرچودہ سوسال گزرجانے کے بعدبھی دل بھرآتا ہے آنکھیں نمناک ہوجاتی ہیں۔ چودہ صدیاںگزرجانے کے بعد غلاموںکی یہ کیفیت ہے جس رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ یہ قیامتیںگزریں ان کاعالم کیاہوگاتاہم کسی کوبددعانہیں دی۔ کسی سے شکایت نہیں کی۔

جواپنے دشمنوں کو بھی معاف کر دے اس رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بڑا امن پسند اور کون ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں یہ بات حقیقت سے بڑھ کر حقیقت ہے کہ نبی اکرم نورمجسم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سب سے بڑے امن پسندہیں۔ ہم بھی سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس درخشاں پہلو پر عمل کرتے ہوئے دوسروں کو معاف کرنا، کسی سے بدلہ نہ لینا، دوسروں کی غلطیوں سے درگزر کرنا شروع کر دیں تو معاشرہ آج بھی امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ آئیے اس سال جشن عید میلادرسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم مناتے ہوئے یہ تہیہ کرلیں کہ آج کے بعد کسی کو تنگ نہیں کریں گے ،کسی کی دل آزاری نہیں کریں گے، کسی کا مذاق نہیں اڑائیں گے،انتقام کی آگ سلگنے بھی نہیں دیں گے۔ کسی کا حق غصب نہیں کریں گے۔

Siddique Prihar

Siddique Prihar

تحریر: محمد صدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com