غزل

پتھر مزاج لوگ ہیں کیسے دہائی دیں
ہم زخم زخم ہو کے بھی ہنستے دکھائی دیں

لوحِ زماں پہ اے میرے آوارہء خیال
وہ لفظ لکھ جو بولتے گاتے سنائی دیں

یا رب کبھی تو اس قدر توفیق دے ہمیں
دِل کو وصال و ہجر کے دکھ سے رہائی دیں

دیدہ وروں کے شہر میں کس کو یقین ہو
جتنی بھی احتیاط سے تیری صفائی دیں

اِک بار تو رگوں سے لہو کو نچوڑ کر
بجھتے ہوئے چراغ کو شعلہ نمائی دیں

ساحل جسے حوادثِ دوراں کا خوف ہے
کیوں اس کو بے قراریء غم آشنائی دیں

poetry

poetry

تحریر: ساحل منیر