آخر کب تک

Justice

Justice

تحریر : شیخ توصیف حسین
گزشتہ روز میں اپنے دفتر میں بیٹھ کر اپنے صحافتی فرائض کی ادائیگی میں مصروف عمل تھا کہ اسی دوران کروڑوں روپے مالیت کی قیمتی گاڑی میں سوار دو افراد جو قیمتی لباس میں ملبوس خوشحال نظر آ رہے تھے بڑے پر وقار طریقے سے گاڑی سے اترے اور مجھ سے بڑی گرم جوشی کے ساتھ لپٹ کر کہنے لگے کہ بھائی توصیف حسین شاید آپ نے ہمیں پہچانا نہیں ہم آج سے تقریبا بیس سال قبل آپ کے دفتر میں آئے تھے اُس وقت ہماری آنکھوں میں سمندر کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی لہروں کی طرح آنسوئوں کی ایک لمبی قطار جاری تھی سر پر بکھڑے ہوئے بال اور جسم پر پھٹے ہوئے کپڑے ہماری بر بادی کی داستان کو عیاں کر رہے تھے۔

قصہ مختصر اُس وقت ہم لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کرنے والے بااثر افراد کی زد میں آ کر بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر رہ گئے تھے اُس وقت ہم عدل و انصاف کیلئے خون کے آنسو روتے تھے لیکن ہمیں عدل و انصاف دینے والا کوئی نہ تھا لیکن بعد ازاں خداوندکریم نے ہماری فر یاد سن لی اور ہم اپنے ملک جس کے حصول کی خا طر ہمارے بزرگوں نے لاتعداد قر بانیاں دی تھی کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خیر باد کہہ کر دیار غیر میں منتقل ہو گئے وہاں پر ہمیں یہاں کی طرح چوری ڈکیتی راہزنی جلائو گھیرائو لوٹ مار اغوا برائے تاوان اور قتل جیسی سنگین وارداتوں کے علاوہ مذہبی و لسانی فسادات جس کی زد میں آ کر نجانے کتنے گھروں کے چراغ گل ہو جاتے ہیں کا کوئی ڈر اور خوف نہیں وہاں پر یہاں کی طرح عدل و انصاف کیلئے حضرت نوح کی عمر اور قارون کا خزانہ نہیں چاہیے وہاں پر عدل و انصاف میرٹ پر ملتا ہے اور وہ بھی دنوں میں وہاں پر سرکاری ہسپتالوں میں تعنیات ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹرز انسان کے روپ میں فرشتے ہیں جو مسیحا کا روپ دھار کر انسانیت کی خدمت کو اپنا فرض عین سمجھتے ہیں یہاں تک کہ وہ زخمی و بیمار خونخوار درندوں کا علاج معالجہ بھی عین عبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔

جبکہ یہاں کے لا تعداد ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹرز سر کاری ہسپتالوں میں غریب اور بے بس مریضوں کے ساتھ ایسا رویہ اپناتے ہیں جیسے ہندو بر ہمن قوم اچھوتوں کے ساتھ اگر آپ حقیقت کے آ ئینے میں دیکھے تو یہاں کے لا تعداد ڈاکٹرز ڈریکولا کا روپ دھار کر غریب مریضوں کا خون چوس رہے ہیں وہاں پر یہاں کی طرح ملاوٹ شدہ اشیائے خورد نوش اور ادویات فروخت نہیں ہوتی وہاں پر کوئی والدین بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر اپنے معصوم بچوں کو فروخت نہیں کرتا لیکن یہاں پر تو آئے روز لاتعداد غریب والدین بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر نہ صرف اپنے معصوم بچوں کو فروخت کرنے میں مصروف عمل ہیں بلکہ اپنے گردے اور خون فروخت کر رہے ہیں در حقیقت تو یہ ہے کہ بعض والدین بے روز گاری اور مہنگائی سے دلبرداشتہ ہو کر اپنی نو عمر بچیوں کو فحاشی جیسے اڈوں پر بٹھا دیتے ہیں جہاں پر اس پر آ شوب معاشرے کے معززین ان معصوم بچیوں کی عزتوں کو خونخوار درندوں کی طرح نوچ لیتے ہیں۔

Panama Case in Supreme Court

Panama Case in Supreme Court

در حقیقت تو یہ ہے کہ یہ معززین وہ ناسور ہیں جو دس کلو آ ٹے کا تھیلا کسی غریب شخص کو دیتے ہیں تو اُس کی تشہیر ٹی وی اور اخبارات میں کرتے ہیں وہاں پر کوئی بھائی جائیداد کی خاطر اپنے بہن بھائیوں کو قتل نہیں کرتا وہاں پر کوئی بااثر شخص کسی سے جبری مشقت نہیں کرواتا جیسے یہاں پر یہ عام سلسلہ جاری ہے وہاں کی بیوروکریٹس ظلم و ستم لوٹ مار اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم نہیں کر تی جیسے یہاں کی بیوروکریٹس اس گھنائو نے اقدام کو سر عام کر نے میں مصروف عمل ہے وہاں کی بیوروکریٹس تعمیراتی کاموں کی مد میں اپنا کمیشن وصول نہیں کرتی جیسے یہاں کی بیوروکریٹس ہر تعمیراتی کاموں کی مد میں اپنا سترہ پر سنٹ کمیشن سر عام وصول کرتی ہے جس کے نتیجہ میں کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے کام تعمیر کے چند ماہ بعد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

توصیف بھائی سب سے اہم بات وہاں کی یہ ہے کہ وہاں کے سیاست دان اپنے ملک و قوم کی بہتری اور بھلائی کیلئے دن رات کو شاں رہتے ہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ امریکہ جیسے ملک کا صدر او باما جب آ ٹھ سال کے بعد اپنے عہدے سے فارغ ہوا تو وہ نیو یارک میں ایک کرائے کے فلیٹ میں رہائش پذیر ہوا ہے جبکہ اس کی بیٹی اُس کے دور اقتدار میں ایک ریسٹورنٹ میں ملازمت کرتی رہی ہے اور یہی حالت بر طانیہ کے وزیر اعظم کی بھی رہی ہے وہ بھی سائیکل پر سوار ہو کر اپنے دفتر میں آ تا رہا ہے جبکہ دوسری جانب یہاں کے سیاست دان ہیں جو اپنے ملک و قوم کی بہتری اور بھلائی کر نے کے بجائے اپنے خاندان کی بہتری اور بھلائی کر کے ملک کو بھکاری جبکہ عوام کو لا تعداد پریشانیوں میں مبتلا کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں یہاں پر پر سکون اور خوشحال زندگی گزارنا بس ایک دیوانے کا خواب ہے در حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں پر غریب شخص کیلئے اور قانون جبکہ بااثر افراد کیلئے اور قانون ہے۔

یہاں پر اگر کوئی غریب شخص بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر پانچ سو روپے کی چوری کرتا ہوا پکڑا جائے تواُسے ہمارے قانون کے محا فظ گدھے پر بٹھا کر پورے شہر میں گھماتے ہوئے بند سلاسل کر دیتے ہیں اور اگر کسی بڑے عہدے پر فائز شخص اربوں روپے کی ملکی دولت لوٹ لیتا ہے تو ہمارے قانون کے محا فظ خاموش تما شائی کا کر دار ادا کرتے ہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ سابق صدر آ صف علی زرداری پر موجودہ حکومت کے حکمرانوں نے اقتدار سے قبل اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے یہ دعوی کیا تھا کہ ہم اقتدار میں آ تے ہی سابق صدر آصف علی زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹتے ہوئے لوٹی ہوئی ملکی دو لت واپس لیں گے لیکن افسوس کہ تقریبا چار سال اقتدار میں رہنے کے باوجود حکمرا نوں کیلئے صرف وہ دعوی تھا دعوی ہی رہ گیا۔

اب جبکہ اُن کے خاندان پر پانامہ کیس جو آج کل ٹی وی اور اخبارات کی زینت بنا ہوا ہے کے خلاف کیا کاروائی ہوتی ہے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے ویسے ہمارے خیال میں بس یہ ایک دعوی ہے اور دعوی ہی رہ جائے گا توصیف بھائی یہاں ہمیں ایک واقعہ یاد آ گیا جو نہ صرف ہم آ پ کی بلکہ پاکستانی عوام کی نظر کر رہے ہیں کسی ایک ملک کا دستور تھا کہ اُس ملک کا حاکم اگر وفات پا جا تا تو اُس ملک کی عوام ایک مخصوص قسم کا پر ندہ اُڑاتی پر ندہ اُڑتے اُڑتے جس شخص کے سر پر بیٹھ جا تا اُس ملک کی عوام اُس شخص کو اپنا حاکم بنا لیتی ایک دفعہ اُس ملک کے حاکم کی و فات پر عوام نے وہ مخصوص پر ندہ اُڑا یا پر ندہ اُڑتے اُڑتے ایک بھکا ری شخص کے سر پر آ کر بیٹھ گیا جس پر اُس ملک کی عوام نے اُس بھکاری شخص کو اپنا حاکم بنا دیا بھکاری حاکم بننے کے فوری بعد وزیر خزانہ کو طلب کر کے حکم جا ری کیا کہ خزانے میں رکھی ہو ئی تمام رقوم کے ساتھ ساتھ رعایا کے پاس جتنی رقوم ہے وہ اور اگر ممکن ہو سکے تو اس ملک کے متعدد اداروں کو فروخت کر کے تمام کی تمام رقوم میرے حضور پیش کرو وزیر خزانہ نے بھکاری بادشاہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مذکورہ رقوم بھکاری بادشاہ کے حضور پیش کر دی۔

بھکاری بادشاہ نے وہ تمام کی تمام رقوم کسی خفیہ مقام پر منتقل کر نے کے بعد آئے روز ملبو سات تبدیل کر نے اور نت نئے کھانوں کا مزہ لینے میں مصروف عمل ہو کر رہ گیا جس کی اطلاع پا کر دشمن ملک نے بھکاری بادشاہ کے ملک پر حملہ کر دیا جس کی اطلاع پا تے ہی بھکاری بادشاہ لوٹی ہوئی تمام دو لت سمیت راہ فرار اختیار کر گیا بالکل یہی کیفیت آج اس بد نصیب ملک کی ہے جس کے حا کمین اس خدشے کے تحت اس ملک کی تمام لوٹی ہو ئی دو لت دیا ر غیر کے بنکوں میں جمع کروانے کے ساتھ ساتھ بڑی بڑی فیکٹریاں اور جا ئیدادیں خریدنے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے ہیں کہ اگر خدانخواستہ اس ملک پر کوئی آ فت آ پڑی تو ہم بھی راہ فرار اختیار کر کے دیار غیر میں اپنی باقی ما ندہ زندگی اپنے خا ندان کے ہمراہ عیش و عشرت کے ساتھ گزار سکے گے اُن افراد کی ان باتوں کو سننے کے بعد میں سوچو ں کے سمندر میں ڈوب کر سو چنے لگا کہ ہمارے ملک کے حا کمین آ خر کب تک یہ گھنائو نا کھیل ملک اور عوام کے ساتھ کھیلے گے۔

بک گیا دو پہر تک بازار کا ہر ایک جھو
اور میں شام تک ایک سچ کو لیئے یو نہی کھڑا رہا

Sheikh Touseef Hussain

Sheikh Touseef Hussain

تحریر : شیخ توصیف حسین