نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے

University of Sargodha

University of Sargodha

تحریر: فیصل عزیز شیخ
یہ شائد نومبر 2002ء کے اوائل کی بات ہے جب یونیورسٹی آف سرگودھا کی داغ بیل ڈالی جا رہی تھی، اس کے قیام کے فوری بعد مختلف شعبہ جات کی بنیادیں پڑنا بھی شروع ہوگئیں، یونیورسٹی کے پہلے شعبہ جات میں ماس کام کی بھی بنیاد رکھ دی گئی اور اس شعبہ کے پہلے استاد کا تقرر عمل میں لایا گیا جو استاد کم دوست زیادہ تھا، بڑی مستعدی سے اور چاک و چوبند ہوکر وہ دن رات شعبہ کی کامیابی کیلئے کوشاں تھا ان صاحب کا نام پروفیسرمحمد اعجاز احمد بھٹی تھا جن کی تقرری اپریل 2003ء میں عمل میں آئی اور یوں یہ اساتذہ میں بھی یونیورسٹی آف سرگودھا کے بانی فیکلٹی ممبر بن گئے۔ ہمارے ماس کام کے پہلے سیشن 2003-05ء میں اعجاز صاحب دنوں میں ہمارے ہمرکاب بن گئے۔

ان کی رفاقت کا انس اتنا تھا کہ جس روز نہ ملتے کمی سی محسوس ہوتی، کلاس میں یا کلاس کے باہر ان سے بات کرنا اور سننا بھلا اور مانوس سا لگنے لگا پھر دیر تک یونیورسٹی کے مین کیفے ٹیریا پر بیٹھے گپیں ہانکنا، مذاق ٹھٹھے کرنا، امام دین ایسے لطائف کی گردان الامان الحفیظ کیا کچھ نہ کیا… وہ شخص جس سے ملتا اس کو اپنا بنا لیتا لوگ اس کی باتوں کے گرویدہ اور شیدائی نظر آتے، جیسے تعلقات عامہ پڑھاتے ویسے عملی مظاہرہ بھی کرکے دکھاتے، پوری یونیورسٹی بلکہ پورے شہر میں 12 بلاک سے 47 اڈا تک ان کے جان پہچان والوں کا ایک اچھا خاصا ہجوم بن گیا، اعجاز صاحب نے ماس کام کی جو کمیونٹی ڈویلپ کی آج اس کی چھائوں میں بیٹھے سبھی لوگ ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔

یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے

Ramadan

Ramadan

ان کا جذبہ امید امنگ اور جینے کا حوصلہ اور دوسروں کی مدد کرنا ان جیسا تھا ایسا کم ہی ملتا ہے، ہنسنا، کھیلنا، رونا، دھونا، جیتنا، ہارنا، وہ بھی سبھی کے ساتھ اور سبھی کیلئے بہت کم لوگ ایسا کرتے ہیں اور بہت کم لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں یہ سب خوبیاں ہوتی ہیں۔ اعجاز صاحب کے سلیکشن بورڈ کے روز صبح سے شام پھر رات تک سارے دوستوں کی ہم آہنگی کا جو منظر تھا وہ پھر کبھی دیکھنے کو نہیں ملا، پھر ان کے اسسٹنٹ پروفیسر ہونے کا لمحہ اور پھر ملائشیا پی ایچ ڈی کیلئے روانگی… ملائشیا میں ایک مسجد میں گذشتہ رمضان المبارک کے دوران وہ سلپ ہوکر گر پڑے اور وہ سمجھے کہ ان کی ریڑھ کی ہڈی پر چوٹ آئی، کیا خبر یہ چوٹ کیسی تھی جس نے پورے ماس کام کو گھائل کرکے رکھ دیا۔

پاکستان واپس لوٹ آئے، ایم آر آئی کروایا، ریڑھ کی ہڈی سے ٹیومر کو نکالا گیا تو اس میں سرطان جیسا جان لیوا مرض تھا، مگر ہمت نہیں ہاری، آخری دم تک بیماری سے لڑتے رہے، ڈاکٹروں نے دو ماہ کا کہا مگر وہ مرد آہن روز ایک نئی امید اور نئے جذبے کے ساتھ بیماری کو شکست دینے رنگ میں اترتا، ان کی باتوں میں امید تھی آس تھی، وہ قنوطیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوکر اولی الامر کی صدائوں سے ٹکرا کر اسے پاش پاش کر دینا چاہتا تھا، انتقال سے چار روز قبل بھی ملاقات میں ہم نے خوب ہلا گلہ کیا، وہ چارپائی پر لیٹا تھا سرطان اس کے رگ و پے میں سرائیت کر چکا تھا مگر وہ امید کی آخری حد کو بھی پار کر جانا چاہتا تھا، اس نے خوب مزے لے لے کر پیزا کھایا، میں نے اس کا حصہ چُرانا چاہا مگر وہ تو حسین یادیں ہی چُرا لے گیا،

Life

Life

وہ ان لمحوں کو بھی تہہ خاک لے گیا جو ابھی تک دلوں میں زندہ ہیں۔ اعجاز صاحب کی خوبیوں کے کئی زاویے ہیں جو میں اپنی نظر سے دیکھ رہا ہوں ان کے سینکڑوں دوست اور شاگرد ہیں اور اتنے ہی ان کی خوبیوں کے سینکڑوں زاویے بھی ہیں میں نے ان کے آخری ایام میں ان کے ساتھ اپنی زندگی کا بہترین وقت گزارا جس میں انہوں نے بدستور نصیحتوں، پڑھانے کے اصول اور میرے نئے مضامین کی ٹیچنگ میں میری اتنی راہنمائی کی کہ میں بیان نہیں کرسکتا، موت سے لڑنا مشکل نہیں مگر زندگی کیلئے لڑنا سب سے مشکل کام ہے، آس امید کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے۔

کتنی باتیں اور کتنی یادیں ہیں اعجاز صاحب کی… آج وہ ہم میں نہیں مگر ان کی Legacy موجود ہے سب کی مدد کرنا، بغیر لالچ ہر کسی کے کام آنا، کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ جیسے پھر کینال پارک کے بے ترتیب سے فلیٹ میں اعجاز صاحب لوٹ آئیں گے، جگت بازی کا ایک ماحول واپس آجائے گا جس میں فیصل آبادی لہجے میں وہ مذاق ہی مذاق میں کہیں گے، کل کلاس میں ضرور آنا… میں آئوں گا… سب کو بتا دینا کہ سر اعجاز کل ضرور کلاس لیں گے…

تحریر: فیصل عزیز شیخ