سپریم کورٹ کا این اے 154 لودھراں میں ضمنی انتخاب روکنے کا حکم

Supreme Court

Supreme Court

اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے این اے 154 لودھراں کے انتخاب کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل کر تے ہوئے صدیق بلوچ کی قومی اسمبلی کی رکنیت بحال کرنے کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ نے ملتان میں قائم الیکشن ٹریونل کے مبینہ دھاندلی کیس کے فیصلے کو معطل کر دیا۔

مسلم لیگ نون کے صدیق بلوچ نے الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کررکھی تھی، جس میں انہوں نےاپنی تاحیات نااہلی کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی ۔صدیق بلوچ نے 11 اکتوبر کےاین اے 154 کے ضمنی انتخاب روکنے کی بھی استدعا کی تھی۔

جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی جس پر سپریم کورٹ نے لودھراں سے صدیق بلوچ کی نااہلی کے فیصلے کے خلاف درخواست پر حکم جاری کیا گیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے کہا کہ ہم الیکشن میں مقابلہ کرنا چاہتے ہیں،لودھراں میں (ن)لیگ کا صفایا ہوگیا ہے، ن لیگ الیکشن چھوڑکرکیوں بھاگ گئی۔

اس حلقے سے مئی 2013 میں ہونے والے عام انتخابات میں آزاد امیدوار محمد صدیق خان بلوچ نے پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر خان ترین کو شکست دی تھی۔صدیق خان بلوچ نے الیکشن جیتنے کے بعد مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

تاہم جہانگیر ترین نے الیکشن ٹربیونل میں اس نتیجے کے خلاف انتخابی عذرداری دائر کی تھی جس میں صدیق بلوچ پر جعلی ڈگری اور پولنگ کے دوران دھاندلی کا الزام لگایا گیا تھا۔

اکتوبر 2014 میں نادرا نے حلقے میں ڈالے گئے ووٹوں کی تصدیق کے حوالے سے 700 صفحات پر مشتمل رپورٹ ٹربیونل میں جمع کروائی تھی، جس کے تحت ایک لاکھ 22 ہزار سے زائد ووٹوں کی تصدیق نہیں ہو سکی جبکہ 20 ہزار سے زائد ووٹوں کی کاؤنٹر فائل پر یا تو شناختی کارڈ نمبر نہیں تھے یا غلط نمبردرج تھے۔

الیکشن ٹربیونل کے جج رانا زاہد محمود نے فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد 20 اگست کو انتخابی عذرداری پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ انتخابی عذرداری پر سماعت دو سال سے زائد عرصہ تک جاری رہی جس کے بعد بدھ کو ٹربیونل نے مختصر فیصلہ میں حلقے این اے 154 کے انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا۔