رزق اور رازق

Travel

Travel

تحریر: شاہ بانو میر
پرانے وقت کی بات ہے کہ دو بہت بڑے علمائے اکرام ایک مسجد میں عشاء کی نماز سے فارغ ہوئے تو ایک بزرگ نے دوسرے بزرگ سے کہا حضرت آپ سے ملنے کیلئے اس مسجد میں آیا کل طویل سفر پر جا رہا ہوں سامان تجارت لے کر دوسرے عالم نے انہیں دعائیں دیں اور بغلگیر ہو کر رخصت ہو گئے- چند روز بعد وہ نماز عشاء کیلئے مسجد تشریف لائے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ بزرگ جو انہیں خدا حافظ کہ کر طویل عرصہ کیلئے دور دراز کے سفر پر روانہ ہوئے تھے وہ مسجد میں موجود ہیں- نماز مکمل ہوئی تو انہوں نے ان سے دریافت کیا یاحضرت کہیئے آپ یہاں کیسے آپ تو سفر پر روانہ ہو چکے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ بس راستے میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا کہ میں نے جب اس پر غور و فکر کیا تو مجھے لگا کہ اس ویرانے میں یہ واقعہ اللہ پاک نے مجھے سمجھانے کیلئے کیا ہے۔

کیا ہوا؟ عالم نے استعجاب سے سوال کیا ہوا یہ کہ جب میں نے سفر شروع کیا تو کچھ مسافت پر ایک ویرانہ آگیا اور ہو کا سناٹا شدید گرمی ایسے میں وہاں غنیمت لگا کہ کچھ سایہ دار درخت دکھائی دیئے – سفر کو شام پر موسم کی حٍدت کم ہونے پر شروع کرنے کا ارادہ کرتے ہوئے گھوڑے کی زین کو کھول دیا اور خود بھی درخت کے سائے میں دم لینے کا ارادہ کیا- اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے درخت کے نیچے ایک زخمی چڑیا ہے جو اڑ نہیں سکتی- میں اسے اس ویرانے میں دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ بے آب و گیاں اس صحرا میں یہ زندہ کیسے ہے؟ ابھی اسی سوچ میں غرق تھا اتنے میں کیا دیکھتا ہوں – ایک جانب سے ایک پرندہ اڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

Sustenance

Sustenance

قریب آتا ہے تو اسی قبیل سے تھا – وہ اپنی چونچ میں خوراک لایا تھا جو اس نے اس زخمی چڑیا کو کھلائی اور پھر وہ اڑ گیا- میں ساکت و جامد آسمان کی جانب نگاہ اٹھا کر اپنے رب سے کہنے لگا اے میرے پاک پروردگار بے شک تو سب سے بڑھ کر حکمت والا عظمت والا ہے میں سمجھ گیا کہ مجھےآپ کے رازق ہونے پر کامل یقین کرنا ہوگا کہ جو اس زخمی چڑیا کو اس صحرا میں بھوکا نہیں مارتا تو مجھے اپنے دیس میں اپنے شہر میں کیسے افلاس زدہ رکھے گا؟ مجھے کہیں بھی جانے کی ضرورت نہیں ہے میرا اللہ ہر جگہہ ہے- یہی سوچ کر واپسی کی راہ لی ان کی پوری کہانی سن کر دوسرے بزرگ نے گہری سوچ میں ڈوبا ہوا سر اٹھایا اور فرمایا میرے عزیز تم نے کمزور اور آسان راستہ چنا وہ کیسے؟۔

پہلے والے عالم بیقراری سے بولے تم نے ایک زخمی مجبور کو اسکو ملنے والے رزق کو کافی سمجھا اور فیصلہ کر کے لوٹ آئے – تم نےبے بسی میں ملی زندگی کو قبول کر لیا – جس میں محنت نہیں ہے – جبکہ تمہیں وہاں اللہ نے دوسری مثال بھی دکھائی وہ پرندہ جو نجانے کتنی دور سے سفر طے کر کے مشقت کر کے اسکا وسیلہ بنا اور اسکو خوراک دی – سوچو غور کرو دونوں میں کون زیادہ بہترہے ؟ اور دوسروں کیلئے فائدہ مند؟وہ جو کسی کا محتاج ہے؟۔

یا وہ جو سفر کی مشکلات کو سہ کر خود بھی جی رہا ہے اور اسے بھی رزق فراہم کر رہا ہے-
اللہ نے دو مثالیں دیں تم نے کمزور مثال کو سمجھا جبکہ مومن طاقتور اور مشکلات کا سامنا کرتا ہے جاؤ میرے عزیز سفر شروع کرومحنت کرو اور اللہ کی بنائی ہوئی دنیا میں سے اپنا رزق تلاش کرو تاکہ وسائل کےبڑھنے سے اسی چڑیا کی طرح تم بھی کسی اورکا وسیلہ بن سکو یہ سن کر وہ عالم اٹھ کھڑے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا اور رازق کے وسیع رزق کی تلاش میں اور لوگوں کیلئے زیادہ فائدہ مند بننے کیلئے آزاد پرندے کی طرح سفر پر جانے کو تیار ہوگئے۔

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر: شاہ بانو میر