حضرت امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمة اللہ علیہ

Pir Syed Jamaat Ali shah Muhadis Ali Puri

Pir Syed Jamaat Ali shah Muhadis Ali Puri

تحریر : مفتی صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی
10, 11 مئی بروز منگل، بدھ کو آپ کا سالانہ عرس مبارک علی پور سیداں شریف میں منعقد ہو رہا ہے آج جس عظیم المرتبت روحانی ہستی کے بارے میں چند حروف قلم بند کیے جا رہے ہیں اُس ہستی کا شمار با نیانِ پاکستان میں ہوتا ہے تحریک پاکستان کی تاریخ کا جب حوالہ آتا ہے تو ذہن خود بخود حضرت امیر ملت رحمة اللہ علیہ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اگر پاک سر زمین، کشور حسین، مرکزِ یقین اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سر زمین پر آستانہ عالیہ حضرت امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمتہ اللہ علیہ کاوجود نہ ہو تا تو آج ہم کسی ہندو بنیے کے غلام یا کسی گورے کے گھر کا جھاڑو پوچا کرتے دکھائی دیتے۔

آج ہم چوہدری کی بجائے ”کمی کمین” خان کی بجائے ” کسی ہندو بنیے کے نوکر ”زرداری کی بجائے ”بندر نچانے والے مداری ”شریفین والبریفین کی بجائے ” کسی بس میں چورن فروش ”پروفیسر کی بجائے ”چپڑاسی ”فیکٹری اونر کی بجائے ”دو ٹکے کے ”ملازم ”ہوتے یہ تو امیر ِ ملت رحمة اللہ علیہ کا ہم پر احسان ہے کہ ہمیں آزاد وطن کی آزاد فضائوں میں سانس لینے کا موقع عطا فر مایا تحریک ِ پاکستان کے اُن روشن، رخشندہ ،درخشندہ ،پاکیزہ،اُجلے، نکھرے، سنورے اور تابندہ کرداروں کو جنہوں نے الگ وطن کے حصول کے لیے دامے، درمے، قدمے اور سُخنے حصہ لیااُن میں وطن عزیز کی نامور شخصیات نمایاں ہیں اور یہ علمی ،فکری و روحانی شخصیات یقیناََ مادیت کے نرغے میں گھری اورتحریک پاکستان سے نا واقف نو جوان نسل کے لیے معلومات کا ذخیرہ اور عوام کے لیے ”آبِ زُلال ”کی حیثیت رکھتی ہیں، تحریک ِ پاکستان میں پیر آف بھر چونڈی شریف ،پیر آف مانکی شریف ،پیر آف چورہ شریف ، پیر آف علی پور سیداں شریف سمیت ہزاروں مشائخ عظام اور علماء کرام نے لا زوال کردار ادا کیا اور اُن بزرگوں کی قر با نیوں کا ثمر آج ہمیں آ زاد وطن کی آزاد فضائوں میں آ زادی کے ساتھ اسلامی تصورات کے فروغ کی صورت میں مل رہا ہے۔

تاریخ کے صفحات کو اگر کھنگالا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسانی معاشرہ ہمیشہ سے مادی آلائشوں اور اخلاقی رذائل کے باعث ابتری کا شکار رہا ہے معاشرے میں پھیلی ذہنی آلائشوں ،علمی کثافتوں اور فکری غلاظتوں کے سدِ باب کے لیے کسی نہ کسی عظیم ماں کی گود سے ایک ایسا مردِ قلندر جنم لیتا ہے جو پیغمبرانہ طریقہ سے معاشرے میں پھیلی فکری و علمی غلاظتوں کو سیرت طیبہ ۖ کی روشنی میں نظافتوں میں بدل دیتا ہے امت میں ایسے عبقری اور نابغہء روزگار ہستیاں صدیوں بعد جنم لیتی ہیں جن کے وجودِ مسعود سے علم و معرفت ،حکمت و دانش اور فہم و فراست کے وہ چراغ روشن ہو تے ہیں جن کی پھیلی ہوئی روشنی کو مشعلِ راہ بنا کر بھٹکی ہوئی امت منزل کا سُراغ پا لیتی ہے۔

اس کائناتِ رنگ و بو میں ہمیشہ اللہ کی یہ سنت جاری رہی کہ جب بھی باطل نے ظلم و استبداد اور قہر و جبر کی بھٹی گرم کی تو رحمت حق کے قطروں نے نہ صرف اس کو بجھایا بلکہ نورِ حق کی ایسی شمع روشن کی جن سے اطراف و اکناف روشن ہو گئے ،تاریخ انسانی پر اگر نظر ڈالی جائے تو اس بات کی تائید ان واقعات سے اور بھی مضبوط ہو تی ہے کہ نمرود نے جب ظلم کی آگ جلائی تو حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام پیغامِ حق لے کر تشریف لائے ،فرعون نے ”اَنارَبُکُمُ الاعلیٰ ”کا نعرہ لگایا تو موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام پیغامِ حق لے کر تشریف لائے ،ابو جہل و ابو لہب نے سر زمین عرب پر ظلم و تشدد کی بھٹی جلائی تو پیغمبرِ انسانیت ، رسولِ رحمت حضور نبی کریم ۖ نے اپنی رحمت کی ٹھنڈک سے ظلم و تشدد کی جلائی گئی بھٹی کو ٹھنڈا کیااب جبکہ نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے تو اب سرکار ۖ کی امت کے صلحاء و علماء باطل کا سر کچلنے کے لیے وقتاََ فوقتاََ میدانِ عمل میں نکلتے رہے سلسلہ نبوت کے بعد جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی بنیاد کی پہلی اینٹ نواسہ رسول ۖامامِ عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے رکھی اور وقت کے ظالم و جابر حکمران یزید کے سامنے مضبوط دیوار بن کے کھڑے ہو گئے اور عظیم مقصد کی خاطر اپنا سر تو نیزے کی اَ نی پر چڑھوا دیا مگر یزیدی سوچ کے سامنے اپنا مقدس سر جھکایا نہیں کیونکہ بقولِ شاعر

قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

خلیفہ مامون معتصم با للہ جب اپنے عقائد باطلہ کی وجہ سے گمراہ ہوا تو اس وقت کے مردِ قلندر حضرت امام احمد بن حنبل حق کا چراغ لے کر تشریف لائے ،اسی طرح جب ہندوستان کی سرزمین پر شہنشاہ جلال الدین اکبر نے اپنے خود ساختہ ”دینِ الہی ”کی بنیاد پر اپنا تین نکاتی باطل نظریہ ”قومی حکومت کا قیام ،ہندوئوں سے مفاہمت ،متحدہ ہندوستان” وغیرہ پیش کیا تو اس کے جواب میں شیخِ سرہند امامِ ربانی حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے فوراََ اپنے تین نکات پر مشتمل”اسلامی حکومت کا قیام ،ہندوئوں کی عدم ِ مفاہمت اور اسلامی ہند کی تعمیر ”کا نظریاتی و فکری پروگرام پیش فر مایا ،مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے خود ساختہ ”دین الہی”کو باطل مذہب قرار دینے والی عظیم علمی و روحانی شخصیت حضرت اما م ربانی ،شیر یزدانی ،واقف رموز ِ آیاتِ قرآنی ،محبوبِ حقانی ،دو قومی نظریہ کے بانی حضرت شیخ احمد مجدد الف ثانی فاروقی ماتریدی
ہی تھے یوں یہ سلسلہ چلتا رہا ، دین ِ اسلام سے بیزار قوتوں کے سامنے ہر دور میں اسلام پسند اور شریعت کے پابند مردانِ قلندر دھرتی کے سینے پر اُبھرتے رہے، برِ صغیر کے مسلمانوں نے جب محسوس کیا کہ اب اُن پر ہندوستان کی زمین تنگ کی جا رہی ہے تو انہوں نے اس چیز کی ضرورت شدت سے محسوس کی کہ اُن کا علیحدہ وطن ہو نا چاہیے جہاں پر وہ اسلامی تصورات کو آزادانہ طریقے سے فروغ دے سکیں اس تصور کو عملی جامہ پہنا نے میں جہاں اور بہت سارے مشائخ عظام اور علماء کرام نے کردار ادا کیا وہاں پر آستانہ علی پور سیداں شریف کے مشائخ عظام اور آستانہ عالیہ سے وابستہ علماء کرام نے بھی اپنا ایک اہم کردار ادا کیا اور آستانہ عالیہ علی پور سیداں شریف سے ہی فیض یافتہ ایسے مجاہد اور مردِ جُہد آزمامیدان ِ عمل میں نکلے جنہوں نے حالات کا رُخ موڑنے میں اہم کردار ادا کیا جنہوں نے آستانہ عالیہ علی پور سیداں شریف کے روحانی دستر خوان سے فیض حاصل کیا۔

Pir Syed Jamaat Ali shah Muhadis Ali Puri

Pir Syed Jamaat Ali shah Muhadis Ali Puri

انگریز سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی کیونکہ پیر آف علی پور سیداں شریف جو پاکستان کے اصل بانی ہیں نے اپنی مقدس اور پارسا زبان میں الہامی طور پر فر مایا تھا کہ ”پاکستان قیامت تک قائم رہے گا ”اور کئی سال بعد پیر آف علی پور سیداںشریف کے اسی آفاقی اور عالمگیر قولِ زریں کو بنیاد بنا کر واصف علی واصف نے بھی کہا تھا کہ ”پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں ہے ”اواخر جون 1945ء میں حضرت امیر ملت نے تحریک پاکستان کی حمایت میں ایک زبر دست بیان جاری فرمایا جس کا عنوان ” تحریک پاکستان اور صوفیاء کرام ” تھا۔ اس بیان کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ” محمد علی جناح ہمارا بہترین وکیل ہے اور مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے لہٰذاسب مسلمان قیام پاکستان کی جدوجہد میں شریک ہوں۔ ” آپ کے اس بیان کی تائید سجادہ نشین خانقاہ سراجیہ گوردا سپوری ،حضرت پیر سید محمد فضل شاہ (ف) 1966ء ) امیر حزب اللہ جلال پور شریف ضلع جہلم ،حضرت میاں محمد علی سجادہ نشین بسی شریف ،حضرت خواجہ غلام سدید الدین سجادہ نشین تونسہ شریف (ف1960) اور حضرت سید محمد حسین سجادہ نشین سکھو چک ضلع گوردا سپور( ف1978) نے بھی دامے درہمے قدمے سُخنے تائیدکی اوآخر ستمبر 1945ء میں حضرت امیر ملت نے ایک بیان جاری فرمایا ”فقیر کو تمام مسلمانوں نے متفقہ امیر ملت منتخب کیا اس بنا پر فقیر جمیع مسلمانان ِہند سے اپیل کرتا ہے کہ جس طرح فقیر نے شملہ کانفرنس کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ مسلم لیگ ہی مسلمانان ِہند کی واحد سیاسی جماعت ہے۔

اب چونکہ جدید انتخابات ہونے والے ہیں اس موقع پر جیسا کہ قائداعظم محمد علی جناح صاحب نے مسلمانا ن ہند سے اپیل کی ہے کہ ہر مسلمان کومسلم لیگ کے امیدوار کو ووٹ دینا چاہیے اور اپنی حیثیت سے زیادہ چندہ دینا چاہیے فقیر بحیثیت امیر ملت قائد اعظم کی اس اپیل کی پر زور تائید کرتا ہے اور اس موقع پر ہر طرح سے مسلم لیگ کی امداد کریں اور میرے متوسلین انشاء اللہ تعالی مسلم لیگ کی امداد کرتے رہیں گے” اس کے بعد آپ نے اور زیادہ انہماک اور جوش و خروش سے مسلم لیگ اور قائداعظم کی حمایت میں سرگرمی دکھائی ۔آپ نے تمام علمائے دین اور مشائخ عظام کو خاص طور پر اس طرف متوجہ کیا کہ اب ”رسمِ شبیری ” کی ادائیگی کا وقت آن پہنچا ہے لہذا اپنے اپنے حجرے اور گوشہ نشینی چھوڑ کر میدان عمل میں آئیں اور اپنا فرض ادا کریں اگر ایسا نہ کیا گیا تو تاریخ ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کرے گی چنانچہ آپ کی اس درد مندانہ اپیل پر خانقاہوں ، آستانوں سے وابستہ سجادگان ، مشائخ عظام مدارس ، سکولز ، کالجز کے اساتذہ ، پروفیسرز و طلبہ نے لبیک کہا اوراطراف و اکناف سے آپ کو خطوط اور تاروں کے ذریعے عملی تعاون کے پیغامات موصول ہوئے ،حضرت پیر صاحب مانکی شریف (پیرا مین الحسنات ف1940 ) کو جس دن لیٹر موصول ہوا اُسی دن پھر اپنی خانقاہ پر بیٹھنا حرام تصور کر لیا اورخود بہ نفسِ نفیس علی پور سیداںشریف حاضر ہوئے اور غیر مشروط طو رپر اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے عرض کیا ۔” حاضر ہو گیا ہوں۔

اب جو حکم ہوگا تعمیل کروں گا ”دراصل صورت حال میں جہاں امیر ملت کی علمی و روحانی صلاحیتوں کو داخل تھا وہاں مسلم عوام کے اس رجحان کا بھی تقاضا تھا کہ سیاسی سطح پر بھی وہی شخص راہنمائی کا فریضہ انجام دے جو روشن ضمیر اور صاحب علم و عرفان ہو، امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری بیسوی صدی عیسوی کے ابتدائی نصف میں شاید واحد شیخ طریقت تھے جن کے عقیدت مندوں کا حلقہ راس کماری سے پشاور تک اور کشمیر سے مدراس تک پھیلا ہوا تھا۔ والئی افغانستان نادر شاہ اور نظام حیدر آباد دکن اور میر عثمان علی خاں جیسے حکمران بھی عقید ت مندوں میں شامل تھے۔امیر ملت اگرچہ بنیادی طو رپر عالم او رپیر طریقت تھے لیکن سماجی و سیاسی معاملات پر بھی آپ کی گہری نظر تھی ،لہٰذا جہاں آپ مذہبی حوالے سے معروف و مقبول تھے وہاں ایک سیاسی مصلح کی حیثیت سے بھی آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ تحریک پاکستان حجاز ریلوے لائن کی تعمیر ،مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی توسیع اور آل انڈیا مسلم لیگ کو مقبول بنانے میں نہ صرف آپ نے بھرپور حصہ لیا بلکہ اپنی جیب خاص سے لاکھوں روپے اور اپنے عقیدت مندوں سے ان مقاصد کے لئے لاکھوں روپے کے فنڈز بھی دلوائے خصوصاً آل انڈیا مسلم لیگ کو برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کا اعزاز دلواناحضرت امیر ملت کا مرہون منت ہے۔

تحریک پاکستان کے نام پر علی پور سیداںشریف سے جو تحریک اُٹھی اس کی مثال ہندوستان اور پاکستان کی کوئی خانقاہ اور کوئی سلسلہ تصوف پیش نہیں کر سکتے مردِ درویش ، بے لوث جذبوں کے امین ،بے ریا فقیر حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمة اللہ علیہ کا اور آپ کے وابستگان کا اس طرح انگریزکے سامنے ڈٹ جانا اگرچہ عظیم الشان اور سنہری کارنامہ تو ہے ہی سہی مگر دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو یہ بات بھی بڑی کٹھن اور مشکل ترین ہے کہ وقت کے جابر اور ظالم حکمرانوں کو غلط کاموں سے رو کا جائے در اصل ایسا جرات مندانہ کام اسی شخصیت کے حصے میں آتا ہے جس کے روشن سینے میں عزیمت و استقامت کا غیر متز لزل دل ہو ،جسے وقت کے حکمرانوں کا بڑے سے بڑا زلزلہ اور قہر بھی ان کے ارادوں میں ڈگمگاہٹ پیدا نہ کر سکے ،انگریز ی سامراج کے پیکر میں ڈھلے حکمرانوں کو ان کے ایوانوں سے جاری کی گئی رسومِ بد سے روکنا اور بڑھتے ہوئے غلاظت و گندگی کے سیلاب کا رخ موڑنے کے لیے ایسے مردانِ حُر ہی آگے بڑھ کر پاکیزگی و طہارت کا بند باندھتے ہیں جن کی اسلامی تاریخ میں کبھی بھی کمی نہیں رہی اور ایسے مردانِ حُر معا شرے کے ماتھے کا جھومر تصور کیے جاتے ہیں ،انگریزوںسے ٹکر لینا بھی کوئی آسان کام تو نہیں ہے چنانچہ ایسے نازک ترین دور میں اسلام کا جو بطل جلیل انگریز کے مقابل آیا وہ خانوادہ نقشبندیہ کا وہی خِرقہ پوش اور بُو ریہ نشین فقیر تھا جسے آج ساری دنیا حضرت امیر ِ ملت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری کے نام سے جانتی ہے۔

Ameer e Millat Hafiz Peer Syed Jamaat Ali Shah Muhadis Ali Puri.

Ameer e Millat Hafiz Peer Syed Jamaat Ali Shah Muhadis Ali Puri.

اسلام کے اس عظیم فرزند نے اپنی بے پناہ روحانی قوت اور بے مثال عزم سے تحریک پاکستان کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا دو قومی نظریہ کے بانی حضرت شیخ احمد مجدد الف ثانی فا روقی ما تریدی رضی اللہ عنہ نے اپنے حجرے سے نکل کر رسمِ شبیری کاجو فریضہ سر انجام دیا وہ یقیناََ تا ریخ کا ایک روشن باب ہے اور یہ خاصہ مجدد الف ثانی ہی کا ہے اور یہ سعادت ربِ قدیر اور آپ کے محبوب سراجِ منیرۖ کے انتخاب سے آپ ہی کے حصے میں آئی تھی آپ نے جو دو قومی نظریہ کی تحریک شروع فر مائی تھی اس کی آبیاری سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے اکابر نے جاری رکھی اور بانی آستانہ عالیہ اور آپ کے دستر خوانِ رو حانیت کے تربیت یافتہ اکابر کی کثیر تعداد جن میں بہت سارے محدثین ، مفسرین اور اہل بصیرت اور آستانہ عالیہ سے وابستہ لاکھوں عقیدت مندوں نے تحریک پا کستان میں مر کزی اور عملی کر دار ادا کرتے ہو ئے قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر پا کستان کو معرضِ وجود میں لایا ، آج اس مملکت کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے لیے جہاں مذہبی تفرقہ بازی اور مسلمانوں کے در میان اختلاف کی خلیج وسیع کرنے کے لیے غیر مسلم طاقتیں اپنے باطل کا جال پھیلا رہی ہیں وہاں پر مسلمانوں کی مائوں ، بہنوں اور بیٹیوں کی سوچ کو با قاعدہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت فحاشی و عریانی کی طرف دھکیلا بھی جا رہا ہے ایسے منتشرماحول اور پراگندہ حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمة اللہ علیہ بانی آستانہ عالیہ علی پور سیداںشریف کے افکار و نظریات کی روشنی میں ایک منظم تحریک بپا کی جائے تاکہ دیارِ اغیارسے بر آمدہ کلچر کو دیس نکالا دیا جا سکے اور نوجوان نسل کو مغربی ثقافت سے بچا کر سیرت مصطفوی ۖ کے سانچے میں ڈھالا جائے اور قوم کی مائوں کی گو دکو سیرت فاطمتہ الزہرہ کا گہوارہ بنایا جائے تاکہ اس کی گود سے حسینی افکار کے محافظ ، حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری کی پاکیزہ سوچ کے وارث اور حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری کی گفتار و کردار کے پہریدار جنم لے سکیں۔

پیر سید جماعت علی شاہ نے ہر قسم کے خوف و خطر اور انتقامی کاروائی کے امکان کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پہلے پنجاب کشمیر ،صوبہ سرحد اور پھر پورے ہندو ستان کے عوام کو تحریک پاکستان کی تائید و حمایت پر آمادہ و تیار کیا ،آل انڈیا سنی کانفرنس کے پلیٹ فارم کو موثر وفعال بنا لیا اور اس حقیقت کوپایہ تکمیل تک پہنچا دیا کہ علماء کی بھاری اکثریت تحریک پاکستان کی راہ میں ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہے یہ ایک تحریک حقیقت ہے کہ نظریہ پاکستان کی خشت اول آفتاب ہند امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی 1624قدس سرہ النورانی نے دین اکبری کا اقلع قمع کرکے رکھی تھی لیکن مغلیہ سلطنت کے زوال پذیر ہوتے ہی فرنگی سامراج نے اپنا تسلط جما کر اسلامیان برصغیر کے قلب و جگر سے روح جہاد ختم کرنے کی مذموم کوشش کی تاکہ یہاں پر کفر و ظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے ہی چھائے رہیں۔ حکیم الامت علامہ اقبال 1877-1938رحمتہ اللہ علیہ نے اسی صورت حال کانقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا یہ فاقہ کش کہ جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا روح محمد اس کے بدن سے نکال دو فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات اسلام کو حجاز ویمن سے نکال دو 1857میں مجاہد کبیر امام معقولات و منقولات حضرت علامہ فضل الحق خیرآبادی ف1841رحمتہ اللہ علیہ نے فرنگی جبرو استبداد کے خلاف علم جہاد بلند کیا لیکن برادران وطن کی سازشوں او رریشہ دوانیوں نے ان کے مشن کو ناکام بنانے میں سر دھڑ کی بازی لگا دی اور عرصہ تک علماء و مشائخ اور عامتہ المسلمین خاموشی سے گزر اوقات کرتے رہے۔

بیسویں صدی کے شروع میں انگریز اور ہندوئوں نے اپنے باہمی اسلام دشمن منصوبوں سے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر دی تو اسلام کے ایک بطل جلیل سنوسنی ہند امیر ملت حافظ پیر سید جماعت شاہ نقشبندی مجددی محدث علی پوری 1951-1834میدان جہاد میں آ کھڑے ہوئے اور پھر دوسرے علماء و مشائخ کوبھی حجروں سے نکال کراسلام کے ازلی و ابدی دشمنوں کے مقابل لاکھڑا کیا۔۔۔۔۔ 1902میں جب ڈھاکہ میں سرکردہ مسلمان لیڈروں مثلاً مولانا محمد علی جوہر(ف 1931)نواب محسن الملک ف1907نواب وقارالملک ف1917اورجسٹس شاہ دین ہمایوں ف1918وغیرہ ہم نواب سلیم اللہ والئی ڈھاکہ ف1915کے ہاں سرجوڑ کربیٹھے اور مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ کی نام سے ایک سیاسی تنظیم کا اعلان کیا تو حضرت امیر ملت قدس سرہ کے میلانات طبع اس کی طرف ملتفت ہونے لگے اور آپ نے اس کے سیاسی کارکنوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور دامے درمے قلمے سخنے اور قدمے حمایت اور سرپرستی فرماتے رہے یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1932میں جب قائداعظم نے مسلم لیگ کی تنظیم نو کا بیڑا اٹھایا اور ہندو مسلم دو جداگانہ قوموں کی آواز بلند کرنے کے بعد حضرت امیر ملت کی خدمت میںلاہور میں حاضر ہو کر تحریک پاکستان کی اعانت و حمایت کی درخواست کی تو برصغیر میںسب سے پہلے امیر ملت ہی نے قائداعظم کو اپنے مکمل اور بھرپور تعاون کا یقین دلایا،1939ء میں برصغیر میں پاکستان کی آواز تو بلند ہو رہی تھی لیکن کوئی اس کی علمی و عملی صورت اور اس کی فلسفیانہ اور منطقی بنیاد کو واضح اور متعین شکل اب تک پیش نہ کر سکا تھا۔

حضرت امیر ملت نے اپنے مرید خاص پروفیسر ڈاکٹر سید ظفر الحسن مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کو اس کام پر مامور کیا ۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے شاگرد ڈاکٹر افضال حسین قادری (ف)1974کے تعاون سے ستمبر1939میں ایک سکیم مع چارٹ و نقشہ جات اور مقدمہ ء بعنوان ”ہندوستان کے مسلمانوں کا مسئلہ اور اس کا حل مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے سامنے پیش کیا جس نے علی گڑھ پاکستان کے نام سے شہرت عام بقائے دوام حاصل کی ۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تمام اساتذہ کرام اور پروفیسر ان کا زبر دست بیان سکیم کی تائید و حمایت میں شائع ہوا اور جلد ہی یہ سکیم پورے برصغیر میں ہر دل کی دھڑکن بن گئی۔ چنانچہ تحریک پاکستان کی تاریخ میں علی گڑھ سکیم ایک نشان اعظم کا درجہ رکھتی ہے اس سکیم کی تیاری کے سلسلہ میں حضرت امیر ملت کے مشورہ پر ڈاکٹر سید ظفر الحسن (ف1949ئ) اور حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال (ف1938ئ) کے مابین کچھ عرصہ خط وکتابت بھی رہی اور بعض باتوں کی وضاحت کے لئے اپنے شاگرد خاص ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کو بارہاحکیم الامت کی خدمت میں بھیجا ۔ڈاکٹر سید ظفر الحسن (ف1949ئ) کا خیال تھا کہ ہندو ستان کے مسلمانوں کو اپنی ایک علیحدہ قومی شناخت ہے جو بڑی حد تک غیر مسلموں سے مختلف ہے اس اسکیم میں ہندوستان کو تین خود مختار ریاستوں میں تقسیم کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا جن میں سے ایک شمال مغرب میں واقع چار مسلم اکثریتی صوبوں اور متعدد چھوٹی ریاستوں پر ”دوسرا بنگال (ہاوڑہ مدناپورہ ،بہار کا ضلع پورنیا اور آسام کا ضلع سہلٹ نکال کر ) اور تیسرا باقی ماندہ ہندوستان (چند علاقے مستثنیٰ کرکے مشتمل ہو جس کے لئے انہوں نے خصوصی حیثیت کی ٹھوس تجویز پیش کی ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی تجویز پیش کی کہ ان تینوں وفاقوں کو دفاع اور حملہ کے لئے باہمی اتحاد کی اجازت دی جائے۔1939ء میںجب کانگریس کے سیاسی مقابلے میں مسلم لیگ کوفتح ہوئی اور کانگریس وزارت سے مستعفیٰ ہوگئی تو مسلمانوں میں ہر طرف مسرت کی لہر دور گئی کیونکہ ہندوئوں کی ایزا رسانیوںاور ریشہ دوانیوں سے نجات مل گئی اس پر حضرت قائداعظم نے2دسمبر1939کو مسلمانان ہند سے اپیل کی کہ وہ22دسمبر 1939ء بروز جمعتہ المبارک ”یوم نجات” منائیں اور بعد نماز جمعہ دو نفل شکرانہ کے خداوند قدوس کی بارگاہ میںادا کریںاس فیصلے کو مسلمانوں اور دوسرے پسماندہ فرقوں نے نہایت جوش وخروش سے قبول کیا۔

پورے ہندوستان میں جلسے ہوئے جن میں کانگریسی حکومتوں کے مظالم کا ذکر کیا گیااور ان سے نجات پانے پر شکر ادا کیا گیاحضرت امیر ملت نے دربار عالیہ علی پور سیداں (سیالکوٹ) میں شایان شان”یوم نجات”منانے کا اہتمام فرمایا اور سنگ ِ مر مر سے بنی تاریخی جامع مسجد نور میں کثیر جماعت کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد دونفل شکرانہ ادا فرمائے اور پھر اپنے مخصوص دل پذیر انداز میں حاضرین سے خطاب فرمایا اور یوم نجات کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد کیا کہ ”دو جھنڈے ہیں ”ایک اسلام کا اور دوسرا کفر کا” تم کونسے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہوگے؟پھر آپ نے دریافت کیا کہ جو کفر کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہونگے۔ان میں سے اگر کوئی مر جائے گاتو تم اُسکی نمازہ جنازہ پڑھو گے؟سب نے انکار کیا۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا تم اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرو گے؟سب نے کہا کہ ہرگز نہیں۔۔۔۔ پھر حضرت نے ارشاد کیا کہ اس وقت سیاسی میدان میں اسلامی جھنڈا مسلم لیگ کا ہے ہم بھی مسلم لیگ کے ساتھ ہیںاور سب مسلمانوں کو مسلم لیگ میں شامل ہونا چاہیے۔اس کے بعد جوں جوں قائداعظم کی زیر قیادت مسلم لیگ کی خدمات منظر عام پر آتی گئیںحضرت امیر ملت کی توجہ مبارک اسی طرح مبذول ہوتی گئی۔ 23مارچ1940کو اقبال پارک لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس قرار داد پاکستان منعقد ہوا تو حضرت امیر ملت نے آل انڈیا سنی کانفرنس کی نمائندگی کے لئے مولانا عبد الحامدبدایونی(ف1970ئ) مولانا عبدالغفور ہزاروی (ف1970ئ) کو بھیجا اور مجاہد ملت مولانا عبدالستار نیاز ی اس وقت نوجوان طلبا ء کی نمائندگی کر رہے تھے اول الذکر دونوں حضرات مسلم لیگ کے باقاعدہ ممبر ” مبلغ اور جانثار خادم تھے۔ اس موقع پر حضرت امیر ملت نے ایک بیان جاری فرمایا کہ”مسلم لیگ ہی ایک عوامی جماعت ہے مسلمانو! سب اس میں شامل ہو جائو اگر اس میں شامل نہ ہو گے تو اور کونسی جماعت ہے جو مسلمانوں کی ہمدرد ہو سکتی ہے۔کانگریس سے اس بات کی توقع رکھنا کہ وہ مسلمانوں کی حمایت کرے گی فضول ہے۔ ”انہی ونوں قائداعظم علیحدہ قومیت کی بنیاد پر جدا گانہ حکومت کا نظریہ منوانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔حضرت امیر ملت نے 23مارچ1940 کو قرار داد پاکستان کے مبارک موقع پر حسب ذیل تہنیتی ارسال فرما کر اپنی بھرپور تائید و حمایت کا یقین دلایا۔تار کا مضمون یہ تھا ”فقیر مع نو کروڑ جمیع اہل اسلام ہند دل وجان سے آپ کے ساتھ ہے اور آپ کی کامیابی پر آپ کو مبارکباد دیتا ہے اور آپ کی ترقی مدارج کے لئے دعا کرتا ہے۔

Nouman Qadir

Nouman Qadir

تحریر : مفتی صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی
03314403420
چیئر مین ، ایوانِ اتحاد پاکستان ، ناظم اعلیٰ جامعہ نور البنات تعلیم القرآن (ٹرسٹ )