شام: داعش کے خلاف لڑتے ہوئے امریکی رضا کار ہلاک

William

William

شام (جیوڈیسک) شام میں شدت پسند تنظیم ’داعش‘ کے خلاف بر سر پیکار کرد فورسز نے بدھ کو دیر گئے بتایا کہ 27 سالہ امریکی شہری ویلیم سیوج منبج کی لڑائی کے دوران مارا گیا ہے۔

ویلیم کے والد ریگینالڈ نے کہا کہ جب آخری بار ان کا اپنے بیٹے کے ساتھ رابطہ ہوا تو انھیں ان کی سلامتی کے بارے میں خدشات تھے۔

ان کے والد نے بتایا کہ جولائی کے اواخر میں ان کا اپنے بیٹے کے ساتھ آ خر بار ای میل کے ذریعے معلومات کا تبادلہ ہوا اور اُن کے بقول اس وقت ویلیم شمالی شام میں لڑائی کے محاذ پر موجود تھا۔

انھوں نے کہا کہ”مجھے اس وقت یہ (خدشہ) تھا کہ میں (شاید اپنے بیٹے) کو دوبارہ نا دیکھ سکوں” ویلیم کا تعلق میری لینڈ اور شمالی کیرولینیا سے تھا۔ وہ چھٹے غیر ملکی اور دوسرے امریکی رضا کار تھے جو داعش کے ساتھ لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے۔

ویلیم جیسے رضاکاروں کو اپنی خدمات کی صلے میں صرف کھانا اور رہائش کی سہولت ملتی ہے۔ داعش کے خلاف برسر پیکار کرد فورس پیپلز پروٹیکشن یونٹس نے ایک بیان میں کہا کہ وہ اس وقت عام شہریوں کو جنگ کے علاقے سے بھاگ نکلنے میں مدد کر رہے تھے جب کرد عرب اتحاد داعش کے خلاف پیش قدمی کر رہا تھا۔

کرد زبان میں جاری ہونے والے بیان کے مطابق ویلیم داعش کے”دہشت گردوں کی فائرنگ کا نشانہ بنا”۔

کرد شامی ڈیموکریٹک فورسز کا ایک اہم رکن ہے جنہیں شمالی شام میں داعش کے خلاف لڑائی میں امریکہ کی معاونت حاصل ہے۔

ویلیم کی ہلاکت کے دو دن کے بعد منبج کو داعش کے جنگجوؤں سے خالی کروا لیا گیا تھا۔ اس شہر کو داعش کے قبضے سے چھڑوانے کے لیے 73 روز تک لڑائی جاری رہے۔ اس دوران داعش کے چار ہزار سے زائد جنگجو ہلاک ہوئے جب کہ امریکہ کے حمایت یافتہ فورسز کے 264 جنگجو بھی مارے گئے۔

ویلیم نے جنوری 2015 میں شمولیت اختیار کی تھی اور وہ ان درجنوں امریکی شہریوں میں شامل تھے جنہوں نے رضاکارانہ طور پر کرد گروپ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس دوران وہ احمد کوبانی کے فرضی نام سے جانے جاتے تھے۔

ویلیم کے والد ریگینالڈ جو شمالی کیرولینیا میں مقیم ہیں، کا کہنا ہے کہ “وہ نڈرتھا۔۔ وہ کردوں کی مدد کرنا چاہتا تھا”۔

ویلیم سیوج 1989 میں میری لینڈ کے شہر سینٹ میری کے قصبے میں پیدا ہوا تھا اور ان کے والد نے کہا کہ وہ یہ بتا کر گیا تھا کہ وہ امریکہ سے یونان تعلیم کے حاصل کرنےکے لیے جا رہا ہے “کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ مجھے اس کے بارے میں پریشانی ہو۔ ”

ریگینالڈ سیوج نے کہا کہ”مجھے دوسروں کی مدد کرنے کی خواہش پر کوئی اعتراض نہیں تھا”۔ “لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ شام جارہا ہے”۔

ویلیم کے والد نے کہا کہ ’’وائی پی جی‘‘ میں شامل ہونے سے پہلے ان کے بیٹے کا کوئی فوجی تجربہ نہیں تھا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود ان کا بیٹا داعش کے خلاف لڑائی میں حصہ لینا چاہتا تھا۔

منبج کی لڑائی میں شرکت کرنے والے ایک برطانوی رضاکار میسر گیفورڈ نے اپنے فیس بک صفحے پر کہا کہ ویلیم ایک اچھے سپاہی تھا۔

گیفورڈ نے وائس آف امریکہ کو ویلیم کے بارے میں بتایا کہ”وہ امریکی اور غیر ملکی رضاکاروں میں سب سے اچھے تھے”۔

” کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو ویلیم کے بارے میں خراب رائے رکھتا ہو۔ اسے سب چاہتے تھے اور ہر ایک کے پاس ان کے بارے میں ایک حیرت انگیز کہانی موجود ہے”۔

ویلیم سیوج کے والد نے بتایا ہے کہ انہوں نے امریکی وزارت خارجہ سے کہا ہے کہ وہ عراق کی سرحد کے قریب شام کے علاقے میں واقعہ ایک اسپتال سے ان کے بیٹے کی میت کو واپس لانے میں مدد کرے۔

ویلیم کی والدہ نینسی کا انتقال 2000 میں ہو گیا تھا۔ ریگینالڈ سیوج نے کہا کہ ننیسی نے نوجوانی میں ویت نام میں امریکی فوجیوں کے لیے رضار کار کے طور پر کام کیا۔

انھوں نے کہا کہ”ویلیم نے دوسروں کی مدد کرنے کی صفت اپنی ماں سے حاصل کی تھی”۔