شام کے اسکول پر فضائی حملہ جنگی جرم ہو سکتا ہے: عالمی ادارہ

Syria Attack

Syria Attack

واشنگٹن (جیوڈیسک) اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے جمعرات کے روز شام میں اسکول پر ہونے والے فضائی حملے کی تفتیش کا مطالبہ کیا ہے، جس میں 20 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر بچے تھے۔

اپنے بیان میں، جسے بان کے ترجمان نے جاری کیا، کہا گیا ہے کہ ’’اگر یہ دانستہ حرکت ہے تو ہوسکتا ہے کہ یہ حملہ جنگی جرم کے زمرے میں آتا ہو‘‘۔

سابق برطانوی وزیر اعظم، گورڈن براؤن نے بھی جنگی جرائم کی چھان بین کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ ’’کسی اسکول پر کیا جانے والا بدترین حملہ ہے، جب کہ گذشتہ دو برس کے دوران شام کے اسکولوں پر 98 ایسے حملے ہو چکے ہیں‘‘۔

لڑاکا طیاروں نے بدھ کے روز باغیوں کے زیر کنٹرول ادلب کے علاقے میں واقع ایک گاؤں پر چھ فضائی حملے کیے، جن میں ایک اسکول کے کمپلیکس پر ہوا، جس میں چھ استاد اور اُن کے 22 طالب علم ہلاک ہوئے۔ یہ بات شام میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے والے ادارے، سیریئن آبزرویٹری نے بتائی ہے۔

آبزرویٹری اور وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ اِن حملوں کی ذمہ دار شامی یا روسی حکومتیں ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جوش ارنیسٹ نے کہا ہے کہ ’’ابھی تک ہمیں نہیں معلوم آیا اسد حکومت یا روسیوں نے یہ فضائی حملہ کیا۔ لیکن، ہمیں یہ معلوم ہے کہ حملہ کرنے والا اِنہی میں سے کوئی ایک ہے‘‘۔

تاہم، روسی وزارتِ دفاع کے ترجمان، اگورکوناشنکو نے کہا ہے کہ بتائے گئے وقت پر روسی لڑاکا طیارے اسکول کے اوپر کی فضائی حدود پر پرواز نہیں کر رہے تھے۔

روسی خبر رساں اداروں کے مطابق، اُنھوں نے مزید دعویٰ کیا کہ تباہ ہونے والے مقام سے متعلق روسی ڈرون کی فوٹیج سے بخوبی پتا چلتا ہے کہ یہ تباہی ہمارے فضائی حملے کے نتیجے میں نہیں ہوئی۔